جواب۔ اصولی بات یہ ہے کہ عام آدمی کو علما کی رہنمائی ہی میں چلنا چاہیے۔ ہاں علما کو چاہیے کہ انہیں جہاں اپنے امام کی رائے پر اطمینان نہ ہو، وہاں وہ دوسرے آئمہ کی آرا بھی دیکھیں اور پھر ان میں ترجیح قائم کریں۔ عام آدمی کے لیے اصولاً یہ لازم نہیں کہ وہ کسی ایک امام کی تقلید کرے، البتہ عقلاً یہ بات درست ہے کہ اسے جس امام پر اعتماد ہے، وہ اسی کی تقلید کرے، ہاں اگر کسی مسئلے میں اس امام پر اس کا اعتماد مجروح ہو جائے تو پھر یقینا اس معاملے میں اسے دوسرے امام کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور اس رجوع کی صورت بھی یہ ہو گی کہ وہ دوسرے مسلک کے علما کے ذریعے سے ان کے امام کی رائے جانے گا ، اگر اس رائے پر اسے اطمینان ہوا تو وہ اس پر عمل کرے گا۔
دلیل کی بنا پر اپنے مسلک سے مختلف رائے اپنانے سے انتشار پیدا نہیں ہوتا بلکہ انتشار علم کی روشنی میں چلنے کے بجائے جہالت کے اندھیرے میں اندھا دھند بھاگنے سے پیدا ہوتا ہے۔
اگر کسی آدمی کے نزدیک اس کے اپنے علم کی حد تک کسی مسئلے میں دو آرا یکساں صحت کی حامل ہیں، تو پھر اسے جو رائے اپنے لیے عملًا آسان لگتی ہے اسی کو اپنانا چاہیے۔ البتہ یہ بات درست نہیں ہے کہ بیک وقت دونوں آرا کو درست جانے۔ کیونکہ وہ عقلاً اس بات کو جانتا ہے کہ ایک ہی مسئلے میں بیک وقت دو مختلف آرا درست نہیں ہو سکتیں،لہذا، اس کے سامنے جب دو مختلف آرا آ جائیں تو اس کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ علما کی مدد سے اپنی استطاعت کی حد تک اپنا رجحان کسی ایک طرف قائم کرنے کی کوشش کرے۔
(محمد رفیع مفتی)