جواب۔ اس مشا بہت سے مراد ان کے کسی خاص شعار کی مشابہت ہے جیسے صلیب گلے میں لٹکانا یا سکھوں کی طرز کی پگڑ ی پہننا جس سے دیکھنے والا دھوکے میں مبتلا ہو او راس قوم میں سے خیال کرے۔رہا لباس وغیر ہ کا معاملہ تو یہ اس میں نہیں آتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کی طرف سے تحفتہً آیا ہوا لباس زیب تن فرمایا ہے ، لیکن اس کو اختیار نہیں کیا بلکہ اپنے اس وقت کے کلچر ہی کے لباس کو اختیار کیے رکھا۔ اسلام نے نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس کو مسلمانوں کے لیے لازمی قرار دیا اور نہ ان کے لیے الگ سے کسی خاص وضع کا لباس تجویز کیا ہے۔ بلکہ لباس کے معاملے کو ہر علاقے کے رسم و رواج پر چھوڑ دیا ہے۔ البتہ دین کے حوالے سے لباس میں جو چیز ملحوظ رکھنے کی ہے وہ حیا اور ستر ہے، یعنی لباس باحیا اور ساتر ہونا چاہیے، دین اس معاملے میں کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہے۔ رہا موسم کی سختی سے بچاؤ کا معاملہ تو اس سے بچنا ایک فطری چیز ہے انسان موسم کے مطابق اپنا لباس تبدیل کرتا رہتا ہے۔
(محمد رفیع مفتی)