جواب: اسلامی نہیں بلکہ مسلمانوں کی تہذیب کہنا چاہیے ۔مسلمانوں کی تہذیب میں اسلام ایک عنصر کے طور پر کار فرما توہوگا لیکن ضروری نہیں کہ مسلمانوں کی تہذیب اسلام کا لازمی نتیجہ ہو مسلمانوں کی تہذیب مراکش میں ایک صورت اختیار کر سکتی ہے ۔ مصر میں دوسری اختیار کر سکتی ہے اور ہندوستان میں تیسری اختیار کر سکتی ہے ۔ تہذیب ایک ایسی چیز ہے کہ جس میں مذہب ایک ضروری عنصر کی حیثیت سے کام تو کرتا ہے وہ مکمل طور پر اس کو کنڑول نہیں کرتا۔
مسلمانوں کی تہذیب مختلف علاقوں اور مختلف ادوار میں اپنی اپنی صورت اختیار کرے گی ۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی شکلیں مختلف بنائی ہیں،ایسے ہی قوموں کے مزاج مختلف ہیں ان کے علاقے مختلف ہیں ،ان کے پیداواری ذرائع مختلف ہیں ،ان کے موسمی معاملات مختلف ہیں ،ان کی آب و ہوا مختلف ہے اوران کے پیشے مختلف ہیں ۔ان سب چیزوں سے مل کر تہذیبی روایات بنتی ہیں ۔اس میں آپ کے تہوار ہیں، آپ کے رسوم ہیں ،آپ کا لباس ہے ،آپ کے اٹھنے بیٹھنے کے طریقے ہیں ۔ اسلام نے تہذیبی معاملات میں چندبنیادی اصول دیئے ہیں یعنی لباس با حیا ہونا چاہئے ۔عورتوں کا لباس مردوں کے مشابہ نہیں ہونا چاہیے اور مردوں کا عورتوں جیسا نہیں ہونا چاہیے۔ یہ اسلام کا تقا ضا ہے ۔ اب ہو سکتا ہے کہ لباس مراکش میں ایک صورت اختیار کرلے ، یورپ میں دوسری اور ممکن ہے کہ پاکستان اور ہندوستان میں ایک تیسری صورت اختیا ر کرلے۔اس لئے تہذیب تو مسلمانوں کی تہذیب ہوگی۔نہ کہ اسلام کی۔
اب رہی بات اسلامی اور مغربی تہذیب کے حلیف یا حریف ہونے کی تو میں عرض کروں گا کہ مختلف تہذیبوں کے نشوو نما میں بے شمار عوامل کا ر فرماہوتے ہیں لوگوں کے مذہبی تصورات بھی ان کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور دنیا کے بارے میں انسانوں نے جو نظریات قائم کئے ہوتے ہیں وہ بھی ان پر اثر انداز ہوتے ہیں۔رہن سہن اٹھنے بیٹھنے اور ملنے ملانے کے جو طریقے رواج کے طور پر صدیوں سے چلے آ رہے ہوتے ہیں ان کی جھلک بھی ہم ان میں دیکھتے ہیں موسموں کے اثرات بھی ہوتے ہیں پیشوں ’ سماجی احوال اورمذہبی تصورات کے اثرات بھی ہوتے ہیں ۔ مسلمانوں کی تہذیب بھی ان سب عوامل سے مل کر بنی ہے۔ہمارے ہاں بھی یہ سارے عناصرموجود ہیں۔مذہبی تصورات بعض موقعوں پر بہت مسخ ہو چکے ہوتے ہیں مثال کے طور پر ہمارے ہاں ہی آپ دیکھ لیں کہ مذہبی تصورات میں جو خالص دینی چیزیں ہیں نماز روز ہ حج زکوۃ وہ تو کسی حد تک ہیں ہی اس کے ساتھ بہت سے رسوم اس میں شامل ہو چکے ہیں مرنے کے رسوم ہیں شادی بیاہ کے رسوم ہیں اسی طریقے سے اللہ کے راہ میں انفاق کر نے نے بھی بہت سے رسوم کی صورت اختیار کر لی ہوئی ہے۔اور جو کچھ مشرکانہ تصورات ہمار ے ہاں پیدا ہوئے ہیں ان کی روشنی میں بہت سی مذہبی چیزیں بھی وجود میں آ گئی ہیں وہ بھی تہذیب کا حصہ ہیں پھرہماری تہذیب میں ہندوستان کا جو اپنا پس منظر تھا وہ بھی شامل ہے ۔یہاں ظاہر ہے کہ ہندو تہذیب کی ایک بڑ ی تا ریخ رہی ہے اس کے عناصر بھی شامل ہو گئے۔موسموں نے بھی اس پر اپنا اثر ڈالا ہے اور پھر یہی نہیں کھانے پینے اور دوسر ی چیزوں کے معاملے میں ایران سے جو مغل آئے ہیں وہ بھی اپنے اثرات چھوڑ گئے ہیں۔یہ جو سب کچھ ہے اس کو آپ ہندوستان میں مسلمانوں کی تہذیب کہہ سکتے ہیں اس کے لئے اسلامی تہذیب کا لفظ بالکل نا موزوں ہے۔ اسلام ایک دین ہے ایک زاویہ نظر ہے۔ اللہ تعالی نے جو ہدایت آسمان سے نازل کی ہے اس کا نام ہے۔ اسلام کا اپنا اثر ہوتا ہے لیکن تہذیب جو کچھ بنتی ہے وہ مسلمانوں کی تہذیب ہے اور مسلمانوں کی تہذیب میں بھی پھر اگر آپ دیکھیں تو الگ الگ شیڈ ہیں۔عربوں کے ہاں ایک مختلف صورت میں نمودار ہوئی ہے اسی طرح ہمارے ہاں ایک اور صورت میں ہوئی ہے اور وسط ایشیا کے ممالک میں ایک اور صورت میں نمودارہوئی ہے۔البتہ تہذیبوں میں ایک دوامی عنصر بھی موجود ہوتا ہے اگر آپ پچھلے چودہ سو سال کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمارے ہاں بھی اپنے اپنے شیڈ کے ساتھ ایک دوامی عنصر بھی ہے اس دوامی عنصر کو علامہ اقبا ل نے اپنی ایک بڑی خوبصورت نظم میں بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں
عناصر اسکے ہیں روح القدس کا ذوق جمال
عجم کا حسن طبیعت عرب کا سوز دروں
توگویا یہ وہ دوامی عنصر ہے جو مسلمانوں کی تہذیب میں کارفرما رہا ہے اور ہے ۔مغربی تہذیب کو اگر آپ اس زاویئے سے دیکھیں تو ظاہر ہے کہ اس کی بنیاد میں بھی سیدنا مسیح علیہ السلام کی تعلیمات ہیں اور وہ مذہب ہے جو کلیسا نے کم و بیش ایک ہزار سال تک ان کے سامنے پیش کیا ۔اس کی بڑی گہر ی روایات ہیں ۔سیدنا مسیح ؑ کی تعلیم میں محبت،شفقت ،تعلقِ خاطر،ہمدردی اور دین کی اصل روح کی طرف متوجہ ہونا یہ چیزیں بڑے زور کے ساتھ بیان ہوئی ہیں۔تو یہ سب چیزیں بھی ان کی تہذیب میں داخل ہوئی ہیں ۔پھروہاں سائنسی علوم کا عروج ہوا ۔اور مذہب کے خلاف دانشوروں نے بہت کچھ لکھا۔اس کے اثرات بھی ان کی تہذیبی روایت پر پڑے ہیں۔اوراب تک بڑی حد تک موجود ہیں ۔پھر اس تمدن نے ایک پورے کا پورا ڈھانچہ تشکیل دیا ہے ۔اس میں معاش کے نئے عوامل پیدا ہوئے ’اٹھنے بیٹھنے کے نئے آداب بنے ۔ انہوں نے بھی اس پر اثرڈالا اس کے بعد میڈیا کی ترقی نے کچھ اور مسائل پیدا کئے ۔انہوں نے آزادی اور حریت کوا ایک بنیادی قدر کے طور پر مانااس کے بھی کچھ اثرات ہوئے اس زاویے سے دیکھا جائے تو یوں نہیں ہے کہ ساری کی ساری مغربی تہذیب ہمارے بالکل مخالف میں کھڑی ہے ۔اس میں بہت اعلیٰ عناصر بھی ہیں ۔دوامی اہمیت کے عناصر بھی ہیں عارضی عناصر بھی ہیں ۔کچھ چیزیں ایسی ہیں جو بظاہر اوپر سے نظر آرہی ہیں مگر اندر گہرا اتریں تو اس صورت میں موجود نہیں ہیں ۔تو اس وجہ سے میرے خیال میں حریف اور حلیف کی بحث کرنے کے بجائے اس کو انسانی زاوئیے سے دیکھنا چاہئے۔ انسانی تہذیبوں کا جو نشوونما ہوتا ہے اس میں یہ چیزیں اسی طرح نمودار ہو جاتی ہیں ۔ان کے درمیان نہ حریفانہ کشاکش ہونی چاہئے اور نہ حلیفانہ طریقے کے مطابق اپنے آپ کو منافق بنا لینا چاہئے۔ ہمیں اپنی جگہ’پر قائم رہتے ہوئے اور اپنی روایات کو برقراررکھتے ہوئے مکالمے کی فضا پیدا کرنی چاہیے۔ اپنی بات کہنے اوردوسرے کی بات سننے کا داعیہ اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے۔اور ان کے ساتھ ہمارا تعلق داعی اور مدعو کاہونا چاہئے ۔ ہمارے پاس ایک پیغام ہے ہمارے پاس انہیں دینے کو بہت کچھ ہے ہم انہیں بتا سکتے ہیں کہ ہمارے پاس جو پیغام ہے اس کے اندر قدرت نے تمھارے لئے کیا کچھ رکھا ہو اہے ۔اور ظاہر ہے کہ جب وہ ہمارے اس پیغام اور دعوت کے مدعویین ہیں تو ان کے ساتھ ہمارا رویہ حریفانہ نہیں بلکہ تربیتی ہونا چاہئے ۔آپ اگر اس زاویہ نظر سے دیکھیں گے تو پھر حریفانہ اور حلیفانہ کی بحث نہیں ہو گی بلکہ داعی اور مدعو کی بات ہو گی اور آپ ہر وہ طریقہ تلاش کرنے کی کوشش کریں گے کہ جس سے آپ اپنی بات اور دعوت کو بہتر طریقے سے communicateکرسکیں۔
(جاوید احمد غامدی)