جواب: یہ سوال جس مقدمے پر قائم ہے وہ مقدمہ ہی غلط ہے۔ قرآن مجید میں کہیں بھی بتوں کو توڑنے سے منع نہیں کیا گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا ایک بڑا موضوع شرک کا خاتمہ تھا۔ بلکہ ہر پیغمبر اور نبی شرک کے استیصال ہی کے لیے مبعوث ہوتا ہے۔ اس لیے ان دوباتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ اقدام نہ کرتے تو یہ ان کے فرائض منصبی کے منافی ہوتا۔ یہ دنیا اللہ تعالی کی ہے اور اللہ تعالی کے احکامات ہی اس میں جاری ہیں۔ شرک اور آثار شرک کا خاتمہ اسی کے حکم کے تحت ہوا ہے۔یہاں یہ بات واضح رہے کہ یہ ساری کارروائی سرزمین عرب تک محدود تھی۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ رضوان اللہ علیہم نے جو علاقے فتح کیے وہاں کے معبد جوں کے توں قائم رکھے۔ جس طرح بنی اسماعیل کے کسی فرد کو یہ اجازت نہیں تھی کہ وہ اپنے عقیدہ وعمل پر قائم رہے اسے لازماً اسلام قبول کرنا تھا ورنہ اسے مار دیا جاتا اسی طرح اس کا بھی کوئی سوال نہیں تھا کہ ان کے معبد اور بت قائم رکھے جاتے۔
(مولانا طالب محسن)