ج: یہ اصل میں علما کی اصطلاح ہے اور ان موقعوں پر بولی جاتی ہے جہاں قرآن مجید نے حالات یا ضرورت کے لحاظ سے ا حکام میں کچھ تغیر و تبدل کیا ہے ۔اس کی چند موٹی موٹی مثالیں یہ ہیں ۔ نبیﷺ کو منافقین سرگوشیاں کرنے کے لیے بہت تنگ کرتے تھے تو یہ حکم دیا گیا کہ جو لوگ بھی حضورﷺ سے ملنا چاہیں وہ پہلے کچھ نہ کچھ غریبوں اور مسکینوں کو صدقہ کریں اور تنہائی کی ملاقات کے لیے اس کے بعد آئیں ۔اس پابندی سے مقصود یہ تھا کہ لوگ متنبہ ہو جائیں ۔ منافقین کے لیے مال خرچ کرنا آسان نہیں تھا ۔ تھوڑے ہی عرصے کے بعد یہ پابندی ختم کردی گئی ۔ یہ دونوں آیتیں قرآن مجید میں اوپر اور نیچے ایک ہی جگہ موجود ہیں۔ یہی معاملہ روزے کے ا حکام میں ہے ۔ پہلے مرحلے میں یہ اجازت دے دی گئی تھی کہ اگر کسی کے رمضان میں روزے چھوٹ گئے ہوں تو چاہے تو وہ روزے رکھ لے اور چاہے توایک مسکین کو ہر روزے کے بدلے میں کھانا کھلا دے یعنی بعد میں روزے رکھنا لازم نہیں تھا ۔ بعد میں قرآن مجید نے یہ وضاحت کر دی کہ اب یہ بات ختم ہو گئی ، اب تم عادی ہو گئی ہو اور روزے سے مانوس بھی ہو گئے ہو تو اب اگر روزے چھوٹ جائیں تو بعد میں پورے کرنے پڑیں گے اور یہ بتا دیا کہ مقصود یہ ہے کہ ایک مسلمان کی زندگی میں رمضان کے روزوں کی تعداد کم سے کم پوری ہونی چاہیے ۔ اس میں کمی نہیں ہونی چاہیے ۔ یہ ایک طرح کا تغیر و تبدل ہے ۔ اسی طرح ایک مقام پر قرآن مجید نے ہدایت فرمائی کہ وہ عورتیں جو بدکاری کرتی ہیں یعنی عادی بدکار عورتیں ہیں ، ان کو گھروں میں بند کر دیا جائے یہاں تک کہ ان کے بارے میں کوئی تفصیلی قانون اللہ تعالی نازل کر دے یا ان کا دنیا سے رخصت ہونے کا وقت آجائے ۔ یہ الفاظ ہی بتا رہے ہیں کہ اس معاملے میں اللہ تعالی قانون سازی فرمائیں گے چنانچہ اس کے بعد بدکاری کی باقاعدہ سزا مقرر کر دی گئی اور اوباشوں کی سزا کے لیے بھی باقاعدہ احکام آگئے اور جب احکام آگئے تو اب ظاہر ہے پہلی آیت پر عمل درآمد کی ضرورت باقی نہیں رہی ۔ کسی سوسائٹی کے اندر ہم شریعت نافذ کریں ، اور وہاں اسی طرح کے حالات ہوں کہ جہاں ابھی قانون کا نفاذ مشکل ہوتو اس آیت سے ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ میراث کے معاملے میں پہلے اللہ تعالی نے فرمایا کہ تم اپنے اعزا واقربا کے لیے وصیت کرو اور وصیت کے بارے میں فرمایا کہ یہ تم پر لازم ہے اور یہ معروف او ردستور کے مطابق ہونی چاہیے لیکن ظاہر ہے اس سے ظلم کا خاتمہ نہیں ہو سکتا تھا ۔ جب لوگ نئے احکام کے عادی ہو گئے تو باقاعدہ میراث کے احکام دے کے اللہ تعالی نے حصے مقرر کر دیے اور کہا کہ یہ ہماری طرف سے مقرر کر دہ حصے ہیں ، ان کے اندر کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ۔اس میں یہ فرمایا کہ یہ ہم نے خود کیوں کیا ہے کہ لا تدرون ایھم اقرب لکم نفعا کہ تم خود تعین نہیں کر سکتے تھے کہ کس کو زیادہ دیا جائے اور کس کو کم دیا جائے ۔یہ مشکل کام تھاتو اللہ تعالی نے خود اس معاملے میں رہنمائی فرما دی ۔ اسی طرح کا ایک معاملہ سورہ انفال میں ہے ، صحابہ کرام پر جہاد کی ذمہ داری ڈالی گئی تو فرمایا کہ ایک نسبت دس سے تم کو جہاد کرنا ہے ، اس کے بعد جب دوسرے لوگ بھی ایمان لے آئے ، مسلمانوں کی تعداد زیادہ بڑھ گئی اور ایمان کی وہ کیفیت بحیثیت مجموعی پوری جماعت میں نہیں رہی جو صحابہ کرام کی تھی تو فرمایا کہ اب اللہ تعالی نے اس معاملے میں ذمہ داری کو کم کر دیا ہے ، اب ایک نسبت دو کے ساتھ تم کو جہاد کی ذمہ داری انجام دینی چاہیے ۔تو پہلے حکم میں تغیر ہوا ۔ ظاہر ہے اگر ایمان کی وہی کیفیت اور ویسی جماعت کہیں آج بھی وجود میں آجائے ،تواللہ تعالی کی وہ نصرت بھی اسی طریقے سے ہو سکتی ہے۔ لیکن اب ہم اس کو کسی طرح بھی جان نہیں سکتے ۔ ہمارے لیے تو اب اپنے حالات ہی کے لحاظ سے فیصلہ کرنا ہو گا ۔ ایسی مثالوں کو عام طور پر ناسخ و منسوخ کہا جاتا ہے ۔ یہ وہ چند مقامات ہیں جہاں پہلے ایک صورت اختیار کی گئی ہے اور پھر حالات کے مطابق اس میں تبدیلی کر دی گئی ہے ۔ قرآن مجید میں یہ دونوں موجود ہیں اور اسی طرح ان کی تلاوت کی جاتی ہے ۔ ان کے لیے زیادہ موزوں تعبیر یہی ہے کہ اس آیت کے حکم میں تغیر ہو گیا ، یہ تعبیر اختیار کر لی جائے تو بہت سی بحث ختم ہو جاتی ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)