ج: آپ نے بہت پاکیزہ نام رکھاہے ، ایسی کوئی بات نہیں ۔ یہ ایک صوفیانہ بات ہے جس کا دین، اخلاق اور عقل سے کوئی تعلق نہیں ۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب:عربی زبان میں بسم اللہ سے بَسْمَلہ کا مخفف رائج ہے لیکن اس کو کسی نے کبھی نام کے طور پر اختیار نہیں کیا۔ بسمہ کا لفظ اصل میں بِأِسْمِہِ (اس کے نام سے)ہے۔ جسے بِسْمِہِ لکھا اور بولا جا تا ہے۔غالباً بسمہ کا لفظ یہیں سے لیا گیا ہے۔ بولنے والے اسے میم کی زبر کے ساتھ بولیں گے جو غلط ہے۔اگر اس کا صحیح تلفظ رائج کیا جا سکے تو نام رکھنے میں حرج نہیں۔
(مولانا طالب محسن)
جواب۔ عمر: اس لفظ کے اپنے کوئی معنی نہیں ہیں۔ یہ لفظِ عامر سے بدلا ہوا ہے جس کے معنی ‘‘آباد کرنے والے کے ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح کی تبدیلی ہے جس طرح ہمارے ہاں اصل نام بدل کر کچھ اور ہو جاتا ہے جس کے پھر کوئی معنی نہیں ہوتے۔ اور عمیر کا مطلب ہے چھوٹا عمر۔عائشہ: اس کے معنی ‘‘اچھی حالت والی ’’یا ‘‘آسودہ حال’’ کے ہیں۔مریم: یہ اصلاً غیر عربی لفظ ہے جو عربوں کے ہاں رائج ہو گیا ہے۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: یہ ایک ایسے شخص کا نام ہے جس نے رسول اللہﷺ کا نامہ مبارک چاک کر دیا تھا۔اس حوالے سے مسلمانوں کے اندر فطری نفرت کے جذبات پیدا ہوئے ہیں۔البتہ یہ نہیں کہاجا سکتا کہ یہ شریعت کا مسئلہ ہے۔ لیکن بہر حال ان فطری جذبات کی رعایت کی جانی چاہیے۔ اگر کوئی ناپسند کرتا ہے تو نہ رکھے لیکن شریعت نے بہر حال اسے ممنوع قرار نہیں دیا ۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: اس میں شک نہیں کہ شفا دینے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے، لیکن الشفا میڈیکل اسٹور کی ادویات کے ذریعے چونکہ اللہ تعالیٰ سے شفا کی امید ہوتی ہے، اس لیے بطور تفاؤل (نیک فال) اس نام میں کوئی حرج نہیں ، نیز ایک صحابیہ کا نام بھی الشفا بنت عبداللہؓ تھا۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ ‘‘شفا/الشفا’’ نام رکھنا بھی جائز ہے۔
(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)
جواب: بتول کے معنیٰ عفت و عصمت والی کنواری کے ہیں۔ یہ سیدہ مریم اور سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہما کا لقب بھی ہے۔بتول دراصل ایسی خاتون کو کہا جاتا ہے جو اللہ کی رضا کے لیے اپنی دنیاوی خواہشات کو قربان کر دے۔ جو دُنیا میں رہتے ہوئے بھی دُنیا سے اَلگ رہے۔ جو اللہ کی بندگی میں اخلاص پیدا کرلے اور جس کے اعمال خالصتاً صرف خدائے بزرگ و برتر کی خوشنودی کے لیے ہوں۔
(مفتی محمد ثنا اللہ طاہر)