زبان

ج: ہرزبان ایک خاص معاشرے میں جنم لیتی ہے اور جس معاشرے میں وہ پروان چڑھتی ہے اس میں اس کی معاشرتی روایات کا پایا جانا اور بیان ہونا ناگزیر ہے ۔ اس لیے ان لوگوں کا کہنا ٹھیک ہے ۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ انگریزی کو چھوڑ دیا جائے ۔دنیا میں کوئی بھی زبان جب اس درجہ اہمیت اختیار کر جائے کہ عالمی ابلاغ کا ذریعہ بن جائے تو پھر اس سے تعلق ناگزیر ہو جاتا ہے۔انگریزی کی آج یہی صورت حال ہے ۔ اس لیے اس میں مہارت پیدا کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اس کے ساتھ جو روایات در آتی ہیں ان کے بد اثرات سے آپ اپنے دین اور اپنی روایات سے مستحکم تعلق پیدا کر کے بچ سکتے ہیں۔ہمارے ملک میں اصل زیر بحث مسئلہ یہ نہیں کہ انگریزی زبان پڑھی جائے یا نہیں ۔ اصل سوال یہ ہے کہ سرکاری اور قومی زبان کیا ہونی چاہیے ۔ اس میں میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اردو زبان کو ہی یہ حیثیت ملنی چاہیے ۔ہمارا آئین بھی یہی کہتا ہے لیکن اگر حکمران اس کے لیے تیار نہیں تو پھر انہیں چاہیے کہ وہ اس confusion کو ہمیشہ کے لیے دور کر دیں۔ یعنی اگر تواردو کو اختیار کرنا ہے تومکمل طور پر اختیار کیا جائے ورنہ بالکل چھوڑ دیا جائے ،کم از کم کوئی تو فیصلہ کن صورتحال ہو ۔ یہ تذبذب کی کیفیت قومی سطح پر اثر انداز ہو رہی ہے ، اس معاملے میں حتمی فیصلہ کر لینا چاہیے تاکہ ہماری نسلیں تذبذب کا شکار نہ ہوں۔

(جاوید احمد غامدی)