ج: چار گواہوں کا تعلق بدکاری سے نہیں بلکہ ایک ایسی خاتون اور ایک ایسے مرد پر تہمت لگانے سے ہے کہ جس کے بارے میں سب مطمئن ہیں کہ ان کا کردار و اخلاق مسلم ہے ۔ ایک شخص نے اس پر تہمت لگا دی ہے تو ارشاد فرمایا کہ تہمت کا معاملہ ایسانہیں کہ آپ بات کریں اور پولیس پکڑ کر لے جائے اور مقدمہ دائر کر دے ، کم سے کم چار آدمی لائیے ، پھر مقدمہ رجسٹر ہو گا ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے بعد سزا دے دی جائے گی ، اب اس مقدمے کی تحقیق ہو گی ، اس کے بعد سزا کے ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ ہو گا ۔ یہ اصل میں لوگوں کو تہمتوں سے روکنے کے لیے ہدایت کی گئی ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج۔ ہمارے نزدیک یہ بات درست نہیں کہ عورت کی گواہی اصلاً آدھی ہے، کیونکہ قرآن مجید میں گواہی کا کوئی ایسا نصاب بیان نہیں کیا گیا ہے جس میں یہ کہا گیا ہو کہ مرد کی گواہی پوری ہوتی ہے اور عورت کی آدھی ، لہذا، گواہی کے حوالے سے ایک مرد دو عورتوں کے برابر ہو گا۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے اس خاص صورت حال میں جب کہ کسی معاملے میں گواہی ثبت کرنے کے لیے ایک ہی مرد میسر ہو، ہمیں یہ تجویز دی ہے کہ ایسی صورت میں تم ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی ثبت کر لو۔ ایک عورت کی بجائے دو عورتوں کی گواہی کا یہ مشورہ احتیاط کے حوالے سے دیا گیا ہے۔ یعنی اس طرح کے معاملات چونکہ عورتوں کے لیے روز مرہ کی چیز نہیں ہوتے، لہذا، ان کے لیے ان میں نسیان کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک مرد کی جگہ دو عورتوں کو رکھ کر اس امکان کو محدود کر لیا جائے۔
(محمد رفیع مفتی)