ج: بیویوں پر تادیب کا اختیار نہیں ہے بلکہ ان خواتین پر ہے کہ جو بیوی بن کررہنے سے انکار کر دیں۔ یعنی بیوی جب تک بیوی کی حیثیت سے رہے اس وقت تک آپ کو کوئی اختیار نہیں۔ قرآن نے یہ کہا ہے کہ جب وہ نشوز اختیار کریں یعنی گھر کے نظام ہی سے بغاوت کر دیں ، شوہر کو شوہر ماننے سے ہی انکار کر دیں اور جو بیوی کے تقاضے ہوتے ہیں ان کو پورا کرنے سے انحراف کریں۔ اس موقع پر قرآن نے معاملات کو درست کرنے کے لیے ایک بڑی ہی جامع ہدایت دی ہے ۔ ایک طریقہ تو علیحدگی کا ہوتا ہے لیکن یہ کوئی آسان نہیں ہوتا ، بچے ہوتے ہیں اور بسا اوقات خاندان برباد ہوجاتے ہیں ۔ قرآن نے کہا ہے کہ ایک لمبے عرصے تک نصیحت کرو تاکہ یہ انحراف اور بغاوت ختم ہوجائے ۔ پھر فرمایا کہ اگر اس سے بھی بات نہیں بنتی اور بیوی گھر اور گھر کے تقدس کو پامال کر رہی ہے بغاوت کر رہی ہے تو واھجروھن فی المضاجع، پھر ان کو ان کے بستروں میں تنہا چھوڑ دو، ہو سکتا ہے یہ چیز ہی ان کی اصلاح کا باعث بن جائے ۔ جب اس میں بھی کچھ عرصہ گزر جائے ا ور محسوس ہو کہ یہ بھی اصلاح کا باعث نہیں بنی تو پھر اس کے بعد ان پر ہاتھ اٹھا سکتے ہو ، یہ ہے تادیب کا اختیار۔ اگر یہ نہ ہو تو میں نہیں سمجھتا کہ پھر گھر کو برباد ہونے سے بچانے کا کون سا طریقہ ہے۔ جو آدمی اپنے ذوق کے لحاظ سے یہ اختیار کرنا نہیں چاہتا وہ پھر رخصت کر دے اور نتائج بھگتے ۔
(جاوید احمد غامدی)