ج: آپ کی یہ بات بالکل بھی ٹھیک نہیں۔ گھر کا نظم و نسق قائم رکھنے کے لیے اسلا م کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ عورتیں قنوت کا رویہ اختیار کریں یعنی اُن کو سوسائٹی میں اپنے شوہروں کے ساتھ adjustment کا رویہ اختیار کرنا چاہیے، نہ کہ بغاوت کا۔ یہ وہی چیز ہے جو فرق مراتب میں باپ کے مقابلے میں بچوں کو کرنا چاہیے۔اسی طرح شوہر کے مقابلے میں بیوی سے متوقع ہوتا ہے۔مرد اور عورت کی بات نہیں؟ کوئی بھی عورت جب ماں بن جاتی ہے یا بڑی بہن ہوتی ہے تو اس کے معاملے میں مردوں کو بھی یہی رویہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ ماں کی اطاعت کریں گے اور اس کے مقابلے میں سرکشی کا رویہ اختیار نہیں کریں گے۔ اسلام جو معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے وہ فرق مراتب کے اصول پر قائم ہے۔ یعنی رشتوں کا احترام قائم کیا گیا ہے۔ باپ کے لیے ایک مرتبہ ہے ، ماں کے لیے ایک مرتبہ ہے، بڑی بہن اور بڑے بھائی کے لیے ایک مرتبہ ہے۔ بالکل اسی طرح استاد کے لیے ایک مرتبہ ہے اور اسی طریقے سے شوہر کے لیے بھی ایک مرتبہ ہے۔ اس کا تعلق مرد اور عورت کے فرق سے نہیں ہے ، اس کا تعلق رشتوں اور ان کے احترام سے ہے۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ شوہروں پر کوئی ذمہ داری نہیں ڈالی گئیتو حقیقت یہ ہے کہ ساری ذمہ داری ڈالی ہی ان پر گئی ہے۔ نان و نفقہ اور گھر چلانے کی ذمہ داری انھی پر ہے۔ کوئی خاتون اس معاملے میں ادنیٰ درجے میں بھی اس کی مدد نہ کرے تو اسے کوئی پوچھ نہیں۔ اور ان کو اللہ تعالیٰ نے خاص تلقین کی ہے کہ ‘ ولا تنسوا الفضل بینکم’ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو تم کو بیوی پر ایک درجہ فضیلت دی ہے کبھی اس کو فراموش نہ کرنااور اپنے حقوق کو پورا کرنے کے معاملے میں کبھی کوئی کوتاہی نہیں کرنا۔ اور اگر کوئی غلطی اور کوتاہی ہوتی ہے تو عفو و درگزر اور محبت و شفقت سے کام لینا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے جو نصیحت کی وہ عورتوں کے بارے میں کی۔ اور لوگوں کو خبردار کیا کہ ان کے بارے میں تم سے قیامت کے دن پوچھا جائے گا۔
(جاوید احمد غامدی)