ج: دین کے علم کے تین درجے ہیں۔ ایک درجہ وہ ہے جس پر عوام ہوتے ہیں۔ انہیں دین کا علم والدین، اساتذہ یا قریب کے علماسے ملتا ہے ،اور وہ اسی کو دین سمجھ کر اختیار کر لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے دین کا صرف یہ مطالبہ ہے کہ وہ اپنے علم کو بڑھاتے رہیں اور اگر کسی دوسرے صاحبِ علم کی بات ان کے سامنے آئے اور وہ ان کو زیادہ معقول لگے تو اس پر ضرور غور کریں۔ حق کے معاملے میں اپنے کان اور آنکھیں بند نہ کریں۔ اس سے زیادہ عام آدمی کر بھی نہیں سکتا۔ یعنی وہ اہل علم سے ضروری باتیں معلوم کرتا رہے ،کیا چیز حرام ہے، کیا حلال ہے، کیا تقاضے ہیں وغیرہ۔اس کے بعد دوسرا درجہ یہ ہے کہ آدمی مختلف اہل علم کی آرا کو پڑھتا ہے ، علم کے حصول میں محنت کرتا ہے اور خداداد ذہانت کی وجہ سے مختلف آرا میں سے بہتر رائے کا انتخاب کرنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کر لیتا ہے۔ ایسے لوگوں کو دیانتداری سے بہتر رائے پر عمل کرنا چاہیے۔ آخری درجہ یہ ہے کہ آدمی اس درجے کا عالم ہو کہ وہ براہِ راست دین کے مآخذ سے رائے قائم کر سکے۔ یہ درجہ کوئی پچیس تیس سال کی شبانہ روز محنت کے بعد حاصل ہوتا ہے لیکن میرے خیا ل میں یہ خدا داد ہے، ہر آدمی کو حاصل نہیں ہو جاتا۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب۔ دین کا علم حاصل کرنے کا شوق نہایت قابلِ تحسین ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں ہوتا کہ آدمی جس بات کی خواہش کرے، اسے وہ پا بھی لے۔ انسان کی زندگی کوشش سے عبارت ہے۔ انسان پر بس یہ لازم ہے کہ وہ اپنے ہدف کو حاصل کرنے لیے کوشش کرتا رہے۔ پھر اگر وہ اپنے ہدف کو نہ بھی پا سکے تو اسے مطمئن رہنا چاہیے کیونکہ اس نے اپنی سی کوشش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو مسلمان کی زندگی گزارنے کا مکلف ٹھہرایاہے ۔ارشاد باری ہے:‘‘ ولا تموتن الا و انتم مسلمون’’یعنی تم ہرگز نہ مرنا مگر مسلمانی کی حالت میں۔حصول علم کی خواہش اگر پایہ تکمیل کو نہ بھی پہنچے تو کوئی بات نہیں، لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی آدمی مسلمانی کی زندگی اختیار کرنے سے ہی محروم رہ جائے۔لہذا،انسان کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ مسلمانی کی زندگی اختیار کرے۔
(محمد رفیع مفتی)