ج: جب آپ بار بار اپنے آپ کو سمجھائیں گے کہ آپ کو دل صاف ہی رکھنا چاہیے تو ان شاء اللہ کچھ وقت گزرے گا کہ آپ کا دل صاف ہو جائے گا۔ یہ دنیا جس اصول پر بنی ہے، اس کا اگر آپ سنجیدگی سے جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ یہ نفرت کرنے، کینہ رکھنے، بغض رکھنے ، دوسروں کی تذلیل کرنے، جزع فزع کرنے کی دنیا نہیں ہے بلکہ صبرکرنے کی جگہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔قرآن مجید میں ارشاد ہے: ‘وجزاہم بما صبروا جنۃ’ آپ جتنا صبر کر سکتے ہیں، کریں۔ صبر کا امتحان مسلسل رہتا ہے۔ بیوی کو شوہر سے، شوہر کو بیوی سے اوراولاد کو والدین سے یہ معاملہ پیش آتا رہتا ہے۔ آپ اگر اپنے اوپر تھوڑا سا قابو پالیں اور آہستہ آہستہ اپنے آپ کو یہ سمجھا لیں تو آپ کو جنت میں جا کر یہ احساس ہو گا کہ اس موقع پر جو آپ نے صبرکیا، اپنی زبان پر قابو رکھا، اپنا دل صاف کرنے کی کوشش کی، دوسرے کو معاف کر دیا تھا اس چھوٹے سے عمل کا کتنا غیر معمولی اجر آپ کے لیے موجود ہے۔ یہ بات اگر آدمی پر واضح ہو جائے تو پھر وہ ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بہت ملحوظ رکھتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ‘‘اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو بہت پسند کرتا ہے جو اپنے غصے پر قابو پا لیں’’۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ آدمی کا کسی پہلوان کو پچھاڑ لینا، کون سی بڑی بات ہے۔ اصل چیز تو یہ ہے کہ وہ غصے پر قابو پا لے۔ اس لیے کہ غصے کے موقع پر انسان انسان کم اور شیطان زیادہ ہو تا ہے۔ اس موقع پر اپنے آپ کو کنڑول کر لینا بڑی بہادری کی بات ہے۔
جب آدمی اپنے غصے پر قابو نہیں پاتا، دوسرے پر چڑھ دوڑتا ہے، اس کو رعایت نہیں دیتا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو جو کچھ عطا کیا ہے اس پر اکتفا نہیں کرتا اور ہر موقع پر جزع و فزع کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ درحقیت اللہ تعالیٰ کے خلاف اپنا مقدمہ پیش کرنے کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے کہ یہ فیصلہ اس نے کیوں کر ڈالا۔ جب آپ ان ساری باتوں کو سمجھ لیں گے تو آپ کا دل بالکل صاف ہو جائے گا اور آپ مطمئن زندگی بسر کریں گے۔ پھر ایک اچھی بات آپ کو پیش آئے گی تو اتنی خوشی نہیں ہو گی جتنی کہ جذبات پر قابو پالینے سے ہو گی۔ آپ کو محسوس ہو گا کہ آپ نے بڑی برتری حاصل کر لی ہے۔ اصل میں جو لوگ اپنے جذبات پر قابو نہیں پاتے انھیں احساس نہیں ہوتا کہ وہ اس وقت کتنے چھوٹے ہوتے ہیں۔ اے کاش، کوئی ایسا آئینہ ہوتا جو ان کے باطن کی حالت انھیں دکھا سکتا تو وہ دیکھتے کہ وہ اس میں کتنے پست اور کھوکھلے ہوتے ہیں۔
(جاوید احمد غامدی)