جواب: انگوٹھی کا استعمال زمانۂ قدیم سے ہوتا رہا ہے۔ سونے، چاندی اور دیگر دھاتوں کی انگوٹھیاں بنائی اور پہنی جاتی رہی ہیں۔ شرعی طور سے انگوٹھی پہننا مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے جائز ہے۔ ہاں سونا (Gold) امت محمدیہ کے مردوں کے لیے حرام ہے۔ اس لیے سونے کی انگوٹھی پہننا ان کے لیے جائز نہیں۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: احل الذہب والحریر لاناث امتی وحرم علی ذکورہا. (نسائی: ۵۱۴۸)
‘‘سونا اور ریشم میری امت کی عورتوں کے لیے حلال اور مردوں کے لیے حرام ہے۔’’
بعض احادیث میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت سے مردوں کو سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع کیا ہے۔ (بخاری: ۵۸۶۳، ۵۸۶۴، مسلم: ۲۰۶۶)احادیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی تھی، جس سے آپؐ مہر کا کام لیا کرتے تھے۔ اس پر ‘‘محمدرسول اللہ’’ کندہ تھا۔ یہ انگوٹھی آپؐ کے وصال کے بعد خلیفۂ اول حضرت ابوبکرؓ، پھر خلیفۂ دوم حضرت عمرؓ، پھر خلیفۂ سوم حضرت عثمانؓ کے پاس رہی اور یہ حضرات اسے پہنتے رہے۔ حضرت عثمانؓ کے زمانے میں کہیں غائب ہو گئی۔ (بخاری: ۵۸۶۶، مسلم ۲۰۹۱)
انگوٹھی کا نگینہ اسی دھات سے بھی ہو سکتا ہے۔ مثلاً چاندی کی انگوٹھی کا نگینہ بھی چاندی کا ہو، اور دوسری دھات کا بھی ہو سکتا ہے۔ چنانچہ عقیق، یاقوت اور دیگر قیمتی حجریات بھی استعمال کی جا سکتی ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو انگوٹھی بنوائی تھی، صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ اس کا نگینہ بھی چاندی کا تھا۔ (۵۸۷۰) لیکن صحیح مسلم میں روایت کے الفاظ یہ ہیں ‘کان خاتم رسول اللّّّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من ورق وکان فصہ حبشیاً’ (۲۰۹۴) ‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ حبشہ کا بنا ہوا تھا’’۔ اس سے اشارۃً معلوم ہوتا ہے کہ وہ چاندی کے علاوہ کسی اور دھات کا تھا۔ جہاں تک حجریات کی تاثیر کا معاملہ ہے تو طب کی کتابوں میں اس کا تذکرہ ملتا ہے۔ مختلف حجریات کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ انھیں اپنے پاس رکھنے، گردن میں لٹکانے یا کسی اور طرح سے اس کے خارجی استعمال سے جسم انسانی پر فلاں فلاں اثرات پڑتے ہیں۔ اس کا تعلق عقیدہ سے نہیں، بلکہ تجربے سے ہے۔ اگر کسی پتھر کا خارجی استعمال طبی اعتبار سے فائدہ مند ثابت ہوتو اسے انگوٹھی کا نگینہ بنا لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔لیکن اس کے ساتھ کوئی مافوق الفطرت اثرات وابستہ کرلینا غیر اسلامی ہے۔
(بشکریہ ماہنامہ ‘‘زندگی نو’’ نئی دہلی، فروری 2010ء)
()