جواب: بچے خدا کے حکم سے پیدا ہوتے ہیں، لیکن اُن کی پیدایش کا معاملہ یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ جس ماں باپ کے لیے اور جتنی تعداد میں چاہتا ہے، اُنھیں براہ راست آسمان سے نازل کر دیتا ہے۔ اُن کی پیدایش انسان کی وساطت سے اور اُس کے ارادے، فیصلے اور اقدام کے نتیجے میں ہوتی ہے۔ انسان کے بارے میں یہ بات محتاج وضاحت نہیں ہے کہ اُس کے خالق نے اُسے عقل و شعور سے نوازا اور ارادہ و اختیار عطا فرمایا ہے۔ یہ دونوں چیزیں تقاضا کرتی ہیں کہ اپنے ہر فیصلے سے پہلے وہ اُس کے نتائج و عواقب کا جائزہ لے، علم و عقل کی روشنی میں معاملے کو سمجھے اور اِس کے بعد اقدام کرے۔ اِسے باغبان کی مثال سے سمجھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:‘ء َ اَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَہ،ٓ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَ’(الواقعہ ۶۴: ۵۶)(یہ کھیتی تم اگاتے ہو یا ہم اگاتے ہیں)؟ مدعا یہ ہے کہ باغ اور کھیتیاں تم نہیں، بلکہ خدا اگاتا ہے۔ لیکن اِس کے معنی کیا یہ ہیں کہ باغبان کا کام صرف بیج بکھیر دینا یا پنیری جما دینا ہے؟ ہر شخص مانے گا کہ ہرگز نہیں، اُس کی ذمہ داری ہے کہ باغ لگانے سے پہلے دیکھے کہ جو درخت وہ بونے جا رہا ہے، اُن کی کاشت، نگہداشت اور اُن میں پھل آنے کے بعد اُسے درختوں سے اتارنے اور منڈی تک پہنچانے کے اخراجات و لوازم کا تحمل کیا اُس کے لیے ممکن ہے؟ اُس نے زمین تیار کر لی ہے؟ درخت لگاتے وقت اُن کی ضرورت کے لحاظ سے زمین میں فاصلہ چھوڑ دیا ہے؟ اُن کے پھلوں کی منڈی میں مانگ بھی ہے یا نہیں، اِس کے لیے ضروری معلومات فراہم کر لی ہیں؟ یہ سب چیزیں دیکھنے کے بعد فیصلہ کرے کہ اُسے کیا بونا ہے اور کب بونا ہے اور کچھ بونا بھی ہے یا نہیں؟ ضبط ولادت کے معاملے میں لوگ جائز اور ناجائز کی بحث کرتے ہیں، دراں حالیکہ اِن سب چیزوں کو دیکھنا جس طرح باغبان کے لیے ضروری ہے، اِسی طرح بچے کے والدین کے لیے بھی ضروری ہے۔ اِنھیں باغبان نہیں دیکھے گا تو وہ بھی اِس کے نتائج بھگتے گا اور والدین نہیں دیکھیں گے تو وہ بھی بھگتیں گے۔
ہمارے معاشرے میں اِس کی مثالیں جگہ جگہ دیکھ لی جا سکتی ہیں۔ چنانچہ ضروری ہے کہ بچے کی تمہید باندھنے سے پہلے والدین اِس بات کا جائزہ لیں کہ ماں بچے کا تحمل کر سکتی ہے؟ اُس کی صحت اِس قابل ہے کہ پیدایش اور پرورش کا بوجھ اُٹھا سکے؟ اِس سے پہلے اگر کوئی بچہ ہے تو اُس سے اِس حد تک فارغ ہو چکی ہے کہ دوسرے بچے کی نگہداشت کر سکے؟ اپنے زمانے اور حالات کے لحاظ سے ماں باپ کیا بچے کی نشوونما اور تعلیم و تربیت کے لیے وقت، فرصت اور ضروری وسائل رکھتے ہیں؟ اِن سوالوں کا جواب اگر نفی میں ہے تو ضبط نفس سے کام لینا چاہیے یا منع حمل کا کوئی طریقہ اختیار کر لینا چاہیے، مگر بچے کی تمہید ہرگز نہیں باندھنی چاہیے۔ تاہم اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہمارا یہ فیصلہ خدا کے کسی فیصلے کو روک سکتاہے۔ اُس کی حکمت کا تقاضا اگر یہ ہے کہ بچے کو دنیا میں آنا ہے تو وہ آکر رہے گا۔ ہماری یہ تدبیریں اُس کے قانون کی پیروی کے لیے ہیں، اُس کے کسی فیصلے کو روکنے کے لیے نہیں ہیں۔ بیماری خدا کے اذن سے آتی ہے، مگر حفظان صحت کے اصولوں کی خلاف ورزی کی جائے تو عام قانون یہی ہے کہ بیماری آئے گی۔ شفا خدا کے ہاتھ میں ہے، مگر علاج نہ کیا جائے تو عام قانون یہی ہے کہ بیماری بڑھے گی۔ رزق خدا ہی دیتا ہے، مگر عام قانون یہی ہے کہ اُس کے لیے جدوجہد کی جائے تو ملتا ہے۔ یہ دنیا عالم اسباب ہے اور انسان کو یہ صلاحیت دی گئی ہے کہ وہ اپنی عقل کے مطابق اِن اسباب کو استعمال کرے۔ خداکی تقدیر یہاں بہت سے معاملات میں ہمارے ارادوں، فیصلوں اور اقدامات سے متعلق ہوتی ہے۔ سیدنا عمر نے طاعون کی جگہ سے بھاگنے کی ہدایت کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم خدا کی تقدیر سے خدا کی تقدیر کی طرف جا رہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب آپ سے منع حمل کی ایک تدبیر کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے اِسی حقیقت کی طرف توجہ دلائی تھی۔ ابوسعید خدری کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:مامن کل الماء یکون الولد، واذا اراد اللّٰہ خلق شء لم یمنعہ شیء.(مسلم، رقم ۱۴۳۸)‘‘ہر نطفے سے اولاد نہیں ہوتی، مگر اللہ جب کسی چیز کو پیدا کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اُسے کوئی روک نہیں سکتا۔’’
(جاوید احمد غامدی)