جواب: آپ نے اپنے جن حالات کا تذکرہ کیا ہے، وہ باعث تشویش ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کو صبر کی قوت اور حالات سے نمٹنے کی صلاحیت عطا فرمائے اور آئندہ ان میں بہتری فرمائے۔ آپ کے حالات پر بہ حیثیت مجموعی غور کرنے سے میری سمجھ میں جو باتیں آئی ہیں، انھیں ذیل میں تحریر کر رہا ہوں۔ ممکن ہے ان میں کچھ کام کی باتیں آ گئی ہوں۔
آپ کی اہلیہ محترمہ عرصے سے بیمار ہیں۔ آپ خود مختلف امراض کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے خواہش کے باوجود آپ کے لیے پنج وقتہ نمازوں کے لیے مسجد جانا دشوار ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ آپ کی دو لڑکیوں کی ، شادی کی عمر کو پہنچ جانے اور تعلیم یافتہ اور قبول صورت ہونے کے باوجود، شادی نہیں ہو پا رہی ہے۔ ان چیزوں نے آپ کو شدید پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ آپ کی یہ پریشانی جسمانی سے سے زیادہ ذہنی ہے۔ جوں جوں دن گزر رہے ہیں آپ کی پریشانی، ذہنی الجھن اور تفکرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے حالات میں ایک مومن صادق کا شیوہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ صبر کرے۔
اس دنیا میں اللہ تعالیٰ مختلف انسانوں کے لیے مختلف حالات پیدا کر کے انھیں آزماتا ہے۔ کسی کی آزمائش خوش حالی، صحت مندی، مال و دولت کی فراوانی، عیش و عشرت کے وسائل اور دیگر تنعمات کے ذریعے ہوتی ہے تو کسی کو فقر و فاقہ، بیماری، تجارت میں خسارہ اور ذرائع معاش کی تنگی وغیرہ میں مبتلا کر کے آزمایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ نَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّ وَ الْخَےْرِ فِتْنَۃً وَ اِلَےْنَا تُرْجَعُوْنَ. (الانبیاء : ۳۵)
‘‘ اور ہم اچھے اور برے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمائش کر رہے ہیں۔ آخر کار تمھیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے۔’’
اللہ تعالیٰ نے اپنے ان نیک بندوں کا تذکرہ بڑے تعریفی و تحسینی کلمات سے کیا ہے جو کسی مصیبت کا شکار ہوتے تو اس پر جزع و فزع نہیں کرتے، بلکہ صبر کا دامن تھامے رہتے ہیں: وَ بَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ.الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اﷲُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَالصّٰبِرِیْنَ عَلٰی مَآ اَصَابَہُمْ. (الحج: ۳۴۔ ۳۵۔)
‘‘اور بشارت دے دو عاجزانہ روش اختیار کرنے والوں کو، جن کا حال یہ ہے کہ اللہ کا ذکر سنتے ہیں تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں، جو مصیبت بھی ان پر آتی ہے اس پر صبر کرتے ہیں۔’’
سورۂ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِط وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ. الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْآ اِنَّا ِﷲِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ. اُولٰٓئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنَ. (البقرہ: ۱۵۵۔ ۱۵۷)
‘‘اور ہم ضرور تمھیں خوف وخطر، فاقہ کشی، جان ومال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمھاری آزمائش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں او رجب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے۔ انھیں خوش خبری دے دو۔ ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی۔ اس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں۔’’
سورۂ تغابن میں ہے: مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ اِلَّا بِاِذْنِ اﷲِط وَمَنْ یُّؤْمِنْم بِاﷲِ یِہْدِ قَلْبَہٗ. (التغابن : ۱۱)
‘‘کوئی مصیبت کبھی نہیں آتی، مگر اللہ کے اذن ہی سے آتی ہے۔ جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو اللہ اس کے دل کو ہدایت بخشتا ہے۔’’
صحابئ رسول حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں:
‘‘ اس سے مراد وہ شخص ہے جو کسی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو اس پر راضی بہ رضا رہتا ہے اور جانتا ہے کہ وہ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔’’ (صحیح بخاری، کتاب التفسیر)
مصائب اور آزمائشوں پر صبر کرنا اور جزع و فزع نہ کرنا بڑی عزیمت کا کام ہے۔ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا: وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ اَصَابَکَط اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ. (لقمان: ۱۷)
‘‘اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبر کر۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔’’
قرآن نے حضرت ایوب علیہ السلام کی حیات طیبہ صبر کی اعلیٰ ترین مثال کی حیثیت سے پیش کی ہے۔ وہ ایک شدید مرض میں مبتلا ہوئے، یہاں تک کہ ان کے متعلقین نے ان سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ مگر انھوں نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ اس موضوع پر احادیث بھی کثرت سے موجود ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی مومن کسی بھی آزمائش سے دو چار ہوتا ہے اور کسی بھی مصیبت اور پریشانی کا شکا رہوتا ہے تو یہ چیزیں اس کے گناہوں کے لیے کفارہ بن جاتی ہیں اور اگر وہ صبر کرے تو جنت کا مستحق بن جاتا ہے۔ اس موقع پر صرف ایک حدیث نقل کی جاتی ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا ہے:
عجبت للمسلم، اذا اصابہ خیر حمد و شکر واذا اصابتہ مصیبۃ احتسب وصبر، المسلم یوجر فی کل شیء. (مسند احمد ۱/ ۱۷۷)
‘‘مسلمان کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اسے کوئی خیر حاصل ہوتا ہے تو وہ اس پر اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر کرتا ہے اور کسی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے اور صبر کرتا ہے۔ اس طرح وہ ہر حال میں اجر کا مستحق ہوتا ہے۔’’
اپنی بیماری، اپنی اہلیہ کی بیماری، وقت پر بچیوں کی شادی نہ ہو پانا اور دیگر اعذار اور پریشانیاں، یہ سب آزمائش کی مختلف شکلیں ہیں۔ ان پر راضی بہ رضا رہنا اور صبر کرنا ایک سچے مومن سے مطلوب و محمود ہے۔ صبر کی تلقین کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو پریشانی درپیش ہے، اس سے نجات پانے کی کوشش نہ کی جائے۔ آدمی اگر کسی بیماری میں مبتلا ہے تو اس کا علاج معالجہ لازم ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے اس کا حکم دیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: یا عباد اللّٰہ تداووا، فان اللّٰہ لم یضع داء الا وضع لہ دواء الا داء واحد الہرم. (جامع ترمذی: ۲۰۳۸)
‘‘ اے اللہ کے بندو، علاج کراؤ، اس لیے کہ اللہ نے کوئی بیماری ایسی نہیں رکھی ہے، جس کی کوئی دوا نہ رکھی ہو، سوائے ایک بیماری کے اور وہ ہے بڑھاپا۔’’
یہی حال دیگر پریشانیوں کا ہے کہ انھیں دور کرنے اور ان سے نجات پانے کی کوشش کرنے کو شریعت میں مطلوب قرار دیا گیا ہے۔ وقت پر بچیوں کی شادی نہ ہو پا رہی ہوتو والدین کی پریشانی فطری ہے۔ اس پریشانی کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کیجیے۔ اپنے خونی رشتہ داروں، سسرالی رشتہ دراوں، بڑی بیٹی کے سسرالی رشتہ داروں، اگر بیٹے کی شادی ہو گئی ہے تو اس کے سسرالی رشتہ داروں کاروباری متعلقین، تحریکی احباب اور دیگر وابستگان سے رابطہ کیجیے۔ ان سے عرض مدعا کیجیے۔ تحریکی اخبارات میں ضرورت رشتہ کے اشتہار کو بھی ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔ امید ہے اس طرح کوئی نہ کوئی رشتہ ضرور مل جائے گا۔
شادی ایک ایسا سماجی عمل ہے، جو بہت سی پیچیدگیاں رکھتا ہے۔ مختلف اسباب اس کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ ایک سبب ‘معیار کی برقراری’ ہے۔ لڑکیاں جس سماجی معیار کے گھرانے کی ہوں ، خواہش ہوتی ہے کہ ان کی شادی بھی اسی سماجی معیار کے گھرانوں میں ہو۔ پھر اگر وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہوں تو ان کی شادی کسی اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکے سے کرانے کی خواہش ہوتی ہے۔ عام حالات میں ایسا ہی کرنا چاہیے۔ لیکن اگر کسی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو پا رہا ہو تو معیار مطلوب سے کم پر Compromise کر لینا دانش مندی کا تقاضا ہے۔ میں ایسے متعدد خاندانوں کو جانتا ہوں جن میں لڑکیوں کی شادیاں ان سے کم پڑھے لکھے لڑکوں سے ہوئیں، مگر وہ خوش گوار زندگی گزار رہے ہیں۔
آپ نے جن ڈراؤنے خوابوں کا تذکرہ کیا ہے، مجھے لگتا ہے کہ ان کا تعلق آپ کی ذہنی پریشانی سے ہے۔ عموماً صحت زیادہ گر گئی ہو، اور اعصاب کمزور ہوں تو ایسے خواب نظر آتے ہیں۔ آدمی دیگر پریشانیوں میں مبتلا ہو تو اس کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ بچیوں کی نسبتیں طے ہوئیں، مگر کسی وجہ سے اچانک ٹوٹ گئیں تو اس موقع پر ذہنی پریشانی اور الجھن شدید ہوتی ہے۔ بیماری بھی لاحق ہو تو احساس کی شدت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ اس بنا پر ڈراؤنے خواب نظر آتے ہیں۔ نسبتوں کے ٹوٹنے کو کسی اور چیز پر محمول کرنا مناسب نہیں معلوم ہوتا۔ جس طرح لڑکی کو شادی سے قبل لڑکے کے بارے میں ہر طرح کی تحقیقات کرنے کا حق حاصل ہے، اسی طرح لڑکے والے بھی تمام معلومات حاصل کرنا ضروری سمجھتے ہیں او رانھیں بھی اس کا حق دینا چاہیے۔ شادی سے قبل نسبت ٹوٹ جانا زیادہ بہتر ہے اس کے مقابلے میں کہ شادی ہو جائے اور بعد میں لڑکی سسرال میں اذیتوں سے دو چار ہو۔
باتھ روم کی دیواروں پر غلاظت کا لگا ہونا یا کمرے میں اوپر سے سوکھے گوشت کا ٹکڑا گرنا، اگر اس طرح کے واقعات پے در پے پیش آئیں تب تشویش ہونی چاہیے اور ذہن دوسری طرف جانا چاہیے، لیکن اگر کئی سالوں میں ایک دو بار ایسا ہو گیا ہو تو اس کی کوئی معقول توجیہ کر لینی چاہیے۔ باتھ روم کی دیوار پر ممکن ہے روشن دان سے کبھی کسی گندگی کی چھینٹیں آ گئی ہوں، گوشت کا سوکھا ٹکڑا ممکن ہے کوئی چڑیا لائی ہو اور چھت کے پنکھے پر رکھ دیا ہو، بعد میں وہ وہاں سے نیچے گرا ہو۔ یہ بات میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ہماری زندگی میں آئے دن ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں، جن کی ہم بروقت کوئی توجیہ نہیں کر پاتے، لیکن وہ معمول کے واقعات ہوتے ہیں۔ ہمارا ذہن چونکہ دوسری طرف کام کر رہا ہوتا ہے، اس لیے ہم ان کی کوئی مناسب توجیہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
ان حالات میں میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ دعاؤں کا التزام کیجیے۔ آپ کا ذہن اس طرف جا رہا ہے کہ کوئی آپ کے خلاف جادو ٹونا کر رہا ہے۔ میں اس امکان کو بالکلیہ رد نہیں کرتا، لیکن میرے نزدیک یہ امکان کم سے کم ہے۔ سحر کے اثرات ہوں تو بھی دعاؤں کے ذریعہ ان پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اپنے اطمینان کے لیے چاہیں تو کسی ‘عامل’ سے مدد لے لیں۔ لیکن ساتھ ہی خود بھی زیادہ سے زیادہ دعاؤں کا اہتمام کیجیے۔ نماز تہجد کی پابندی کیجیے، رات کی تنہائی میں اللہ تعالیٰ بندے سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ عاجزی و فروتنی کے ساتھ بار گاہِ الٰہی میں اپنے تمام مسائل کے حل کے لیے دعا کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ضرور سنے گا۔
()