جواب :آپ نے اللہ تعالی کو ظاہری آنکھ یا دل کی آنکھ سے دیکھنے کے بارے میں سوال کیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ذات باری کے مشاہدے کی صلاحیت ہی نہیں دی گئی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعے سے واضح ہے کہ اس کی ہمیں تاب بھی نہیں ہے۔حدیث جبریل میں احسان کے بارے میں سوال کے جواب میں آپ نے جو بات فرمائی ہے وہی اس کا آخری، حتمی اور مکمل جواب ہے۔ آپ نے فرمایا کہ: تم نماز اس طرح پڑھو کہ گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو اگرچہ تم خدا کونہیں دیکھ رہے ہوتے پر وہ تو تمھیں دیکھ رہا ہے۔ اس ارشاد مبارک سے یہ نکات معلوم ہوتے ہیں:ایک یہ کہ انسان خدا کو نہیں دیکھتا۔دوسرے یہ کہ خدا انسان کو دیکھ رہا ہے اس حقیقت کو شعور میں لانا ہے۔تیسرے یہ کہ یہ شعور حضوری کی ایک گہری کیفیت پیدا کرنے میں مددگار ہے۔ چوتھے یہ کہ اس سے آگے کوئی چیز نہیں ہے۔
(مولانا طالب محسن)