جواب: توفی کا لغوی معنی پورا پورا لے لینا ہے مگر یہ فعل ان افعال میں سے ہے جو اصلاً مجازی مفہوم میں استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے اردو میں انتقال کا لفظ جب کسی انسان کے لیے بولا جائے گا تو اس سے مراد اس کا مر جانا ہے۔ لہذا بولنے اور لکھنے والے جب انسانوں کے لیے اس لفظ کو کسی دوسرے معنی میں استعمال کریں گے تو کلام میں ایسے واضح قرائن لاتے ہیں جن سے اس کا مدعا واضح ہو۔ اسی طرح توفی کا فعل موت کے لیے ایسا معروف ہے کہ اسے لغوی معنی میں لینا بعید از قیاس ہے۔ اگر ہم کسی کلام میں یہ کہتے ہیں کہ یہ لغوی معنی میں آیا ہے تو اس کے دلائل لانا پڑیں گے۔دلائل سے مراد یہ ہے کہ کلام اپنے اندر ایسے وہ اشارات رکھتا ہو جو لفظ کو اس کے مجازی کے بجائے لغوی معنی لینے پر مجبور کر دے۔ مثلا عبداللہ صاحب لاہور سے کراچی انتقال کر گئے ہیں اور یہ جملہ بھی اصل میں سنجیدہ جملہ نہیں ہے ایسی بات شرارت کے طورکہی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر حدیث میں حضرت مسیح علیہ السلام کے دوبارہ آنے کی روایات نہ ہوتیں تو اس آیت کا وفات کے علاوہ کوئی مطلب نہ کیا جاتا۔میرے نزدیک اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ حضرت مسیح وفات کے بعد اٹھائے گئے تھے یا زندہ۔ اس لیے کہ دونوں صورتوں میں یہ ایک خارق عادت واقعہ ہے اور اس لیے بھی کہ حضرت مسیح نے اگر دوبارہ آنا ہے تو اللہ تعالی کے لیے دونوں صورتیں بالکل یکساں ہیں۔ زندہ کو بھیجنا یا زندگی دے کر بھیجنا۔
(مولانا طالب محسن)