جواب :حضرت نوح علیہ السلام کا زمانہ قبل تاریخ کا زمانہ ہے۔مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ بائیبل میں دیے گئے شجرہ نسب سے حضرت آدم اور حضرت نوح وغیرہ کے زمانے کا اندازہ لگانا درست نہیں ہے۔ اس شجرہ نسب میں وہی نام باقی رہ گئے ہیں جو بہت معروف ہوگئے تھے اور بیچ کی کئی نسلیں غائب ہیں۔ ان کے خیال میں یہ درحقیقت بڑے بڑے سرداروں کے نام ہیں۔ ایک اور دوسرے شخص کے بیچ میں ممکن ہے کئی سو برس کا فاصلہ ہو۔ ان کی اس رائے کو سامنے رکھیں جو واضح طور پر درست لگتی ہے تو حضرت نوح کے زمانے کے بارے میں کوئی اندازہ قائم کرنا ممکن نہیں۔ البتہ اگر کوئی خارجی شواہد موجود ہوتے تو ہمیں کوئی رائے قائم کرنے میں مدد مل سکتی تھی۔ لیکن حضرت نوح کے حوالے سے ایسے کوئی شواہد میرے علم کی حد تک ابھی تک نہیں ملے۔ اب ہمارے پاس واحد یقینی ذریعہ قرآن مجید ہے۔ قرآن مجید میں بھی صرف حضرت نوح علیہ السلام کی عمر ہی کا ذکر ہے۔ کوئی اور بات اس زمانے کے انسانوں کے حوالے سے مذکور نہیں ہے۔ بائیبل کتاب پیدایش کے باب ۵ اور ۶ میں جو تفصیل منقول ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لمبی عمروں کا یہ سلسلہ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد ختم کر دیا گیا۔ قرآن مجید کے بیان کی روشنی میں ہم یہ اندازہ ہی لگا سکتے ہیں کہ بائیبل کا یہ بیان درست ہو۔ لیکن یقینی رائے کے لیے سائنسی شواہد کی دستیابی ضروری ہے البتہ حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں قرآن کا بیان حتمی ہے اور ان کے بارے میں ہم یہ یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی عمر یہی تھی۔ یہ سوال کہ اس زمانے کے لوگوں کے قد کاٹھ کیا تھے، اس کا واحد ماخذ اسرائیلی روایات ہیں۔ ہمارے ہاں بھی اس سلسلے میں جو کچھ مروی ہے وہ انھی روایات سے ماخوذ معلوم ہوتا ہے۔ لہذا اس باب میں خاموشی ہی بہتر ہے۔ جو خارجی شواہد ابھی تک سامنے آئے ہیں ان سے تو قد کاٹھ کے بارے میں ان بیانات کی تائید نہیں ہوتی۔ لیکن قبل تاریخ کے انسان کے بارے میں ان تصورات کی قطعی تردید بھی شاید ابھی ممکن نہیں ہے۔ معلوم تاریخ کے انسان کی عمر اور قد کاٹھ کے بارے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ آج کے انسان سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھا۔ خارجی شواہد یعنی عمارتیں اور دوسرے آثار سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے۔ لیکن کیا اس کی روشنی میں ہم قرآن کے بیان کی نفی کر سکتے ہیں۔ یقینا اس نفی کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ قرآن کے بیان کو ماننے کے بعد ہم یہ اندازہ بھی قائم کر سکتے ہیں کہ ان کے زمانے میں عام عمریں بھی ایسی ہی تھیں۔ اس اندازے کی تائید بائیبل کے بیان سے بھی ہوتی ہے اور حضرت نوح علیہ السلام کی عمر کو ایک معجزہ بھی قرار دے سکتے ہیں۔ باقی رہا قد کاٹھ تو اس باب میں کوئی یقینی بات ہمارے پاس نہیں ہے۔ خارجی شواہد کی روشنی میں ہم ان اسرائیلی روایات کو رد بھی کر سکتے ہیں۔
(مولانا طالب محسن)