جواب : جی ہاں،رسول اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اِن دس دنوں اور اِن میں کیے جانے والے اعمالِ صالحہ کو اللہ تعالٰی کے نزدیک غیر معمولی اہمیت وفضیلت حاصل ہے۔ آپ کا فرمان ہے : اِن دس دنوں میں نیک اعمال انجام دینا اللہ تعالٰی کے نزدیک جتنا زیادہ محبوب اور افضل ہے ، وہ دوسرے کسی بھی دنوں میں نہیں ہے۔ اِس پر صحابہ رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا : اے اللہ کے رسول ! کیا( اِن دنوں کے سوا باقی دنوں میں کیا گیا) اللہ کی راہ میں جہاد بھی ( اِن دس دنوں میں کیے گیے نیک اعمال سے) زیادہ فضیلت نہیں رکھتا۔ آپ نے فرمایا: جی ہاں، اْسے بھی یہ درجہ حاصل نہیں ہے،الّا یہ کہ کوئی شخص اپنے جان ومال کے ساتھ (اللہ کی راہ میں) نکلا ہو اور پھر وہ اپنا سبھی کچھ گنوا بیٹھے (تو اْسے بہرحال ارفع مقام حاصل ہے)۔ (بخاری، رقم: 969۔احمد،رقم:1968۔ ابوداود،رقم:2438۔ ترمذی،رقم 757۔ ابن ماجہ،رقم : 1414)مذکورہ بالا حدیث کے الفاظ سے یہ بات بہرحال واضح ہے کہ عملِ صالح یہاں اپنے عموم میں بیان ہوا ہے۔ کوئی متعین یا خاص نیک عمل یا عبادت یہاں قطعاً زیر بحث نہیں ہے۔
(مولانا عامر گزدر)
جواب : اِس موضوع سے متعلق احادیثِ کا استقصا کر کے ہم جب دقتِ نظر کے ساتھ اْن کا علمی تجزیہ کرتے ہیں تو دو طرح کی روایات ہمارے سامنے آتی ہیں :
ایک وہ احادیث جن میں یہ بات روایت کی گئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ذو الحج کے پہلے نو دن خاص اہتمام سے روزے رکھا کرتے تھے ، یا اْنہیں کبھی ترک نہیں کیا کرتے تھے۔ اِس مضمون کی احادیث مسند احمد (رقم: 22388, 26511, 27416) ابوداود (رقم:2437) اور نسائی (رقم:2416,2417,2418) میں نقل ہوئی ہیں،تاہم تحقیقِ سند کے معیارات اور علماے محققین کے اِن روایتوں پر کیے گئے کلام کی رو سے اِس مضمون کی کوئی ایک روایت بھی درجہ صحت کو نہیں پہنچتی۔اِس کی بعض ضعیف؛بعض نہایت ہی کمزور اور بعض سند اور متن،دونوں ہی اعتبارات سے معلول اور ناقابل استدلال ہیں۔ چنانچہ اِس درجے کی روایتوں کی بنیاد پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے یہ عمل ثابت نہیں ہوتا۔اِن احادیث کے بارے میں یہی رائے عصرِ حاضر کے مندجہ ذیل علما ومحققین کی ہے : شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز،شیخ محقق شعیب الارناوط ،شیخ محدث عبد اللہ بن عبد الرحمن آل سعد،شیخ ابو محمد الالفی ،شیخ عمر بن عبد اللہ المقبل
اِس موضوع سے متعلق دوسری وہ احادیث ہیں جن میں صراحت کے ساتھ یہ بات بیان ہوئی ہے کہ عشرہ ذو الحج میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزوں کا کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا یا اِن ایام میں آپ کو روزے کی حالت میں کبھی نہیں دیکھا گیا۔(مسند احمد ، رقم:24193,24970,25607۔ مسلم ، رقم:1176۔ ابوداود،رقم:2439۔ترمذی،رقم:756۔ابن ماجہ،رقم:1415)
سند کے اعتبار سے یہ احادیث اہل علم کے نزدیک درجہ صحت کو پہنچی ہوئی اور قابل حجت ہیں۔ اِن میں سند ومتن کے لحاظ سے کوئی علت یا کمزوری نہیں ہے۔
چنانچہ اِس تمام تر تفصیل سے علمی طور پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ذو الحج کے پہلے نو دنوں میں بالخصوص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا روزے رکھنا اور اِس کا خاص اہتمام کرنا قطعاً ثابت نہیں ہوتا۔
(مولانا عامر گزدر)
جواب : تحقیقِ سند کے معیار کے مطابق اِس مضمون کی تمام احادیث بھی غیر ثابت اور ناقابل حجت ہیں۔ علما ومحدثین کی ایک بڑی تعداد نے اِس باب کی تمام روایات کو پوری صراحت کے ساتھ ناقابل اعتبار و استدلال قرار دیا ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے عشرہ ذو الحج کے روزوں کی خاص اِس طرح کی متعین کوئی فضیلت بھی علمی طور پر ثابت نہیں ہوتی۔ (السلسلۃ الضعیف،البانی،رقم : 5142,۔ ترمذی،رقم : 758۔ ابن ماجہ ، رقم:336)
(مولانا عامر گزدر)
جواب : جی ہاں،نفلی روزے کی حیثیت سے اِس کی فضیلت بہرحال "صحیح" احادیث سے ثابت ہے۔ اِس دن کے روزے کی فضیلت کو آپ نے اپنے ایک ارشاد میں اِس طرح بیان فرمایا ہے کہ یومِ عرفہ کو روزہ رکھا جائے تو اِس کے صلے میں توقع ہے کہ اللہ تعالٰی ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہ بخش دیں گے۔ (مسلم،رقم:2746)
یہاں یہ البتہ،واضح رہے کہ گناہ سے مراد وہ گناہ ہیں جو حقوق العباد سے متعلق نہیں ہیں یا جن کے لیے توبہ اور تلافی کرنا یا کفارہ ادا کرنا ضروری نہیں ہے۔
تاہم حج کے موقع پر عرفہ کا یہ روزہ آپ نے نہیں رکھا۔ (بخاری،رقم:1988,1658۔مسلم رقم:2632)
اِس کی وجہ غالباً یہ ہوئی کہ حج کی مشقت کے ساتھ آپ نے اِسے جمع کرنا پسند نہیں فرمایا۔
(مولانا عامر گزدر)