جواب : بھائی پوچھتے ہیں کہ کیا اسلام میں بچے کو گود لینے Adoption کی اجازت ہے یا نہیں۔ اگر تو گود لینے سے مراد یہ ہے کہ آپ ایک غریب اور بے سہارا بچے کا سہارا بنیں اور اس کو روٹی کپڑا مکان مہیا کریں تو یقیناً اسلام اس کے حق میں ہے بلکہ قرآن میں غریب اور ضرورت مند لوگوں کی مدد پر بڑا زور دیا گیا ہے اگر آپ اس طرح کسی بچے کے لیے پدرانہ شفقت کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے کام آنا چاہتے ہیں تو اسلام اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے لیکن جہاں تک تعلق ہے قانونی طور پر متبنٰی کرنے کی تو اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ آپ قانونی طور پر اس بچے کی ولدیت کے خانے میں اپنا نام نہیں لکھوا سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قانونی طور پر اس بچے کو آپ کی اولاد قرار دینے کے نتیجے میں بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اس بچے یا بچی کی اپنی شناخت بالکل ختم ہو جائے گی۔دوسری بات یہ کہ اگر آپ بے اولادی کی وجہ سے بچے کو گود لیتے ہیں اور اس کے بعد آپ کی اپنی اولاد پیدا ہو جاتی ہے تو اس گود لیے ہوئے بچے کے ساتھ آپ کے رویے میں تبدیلی آ جائے گی۔تیسری بات یہ کہ اگر آپ کی اپنی اولاد اور متبنٰی بچے کی جنس مختلف ہے تو پھر ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے بھی مشکلات پیش آئیں گی کیونکہ وہ بہرحال حقیقی بہن بھائی تو نہیں ہیں۔ اسی طرح بالغ ہوجانے کے بعد مسائل مزید پیچیدہ ہو جائیں گے، کیونکہ اگر وہ لڑکا ہے تو گھر کی خواتین کو پردہ کرنا پڑے گا۔ اور اگر لڑکی ہے تو اسے اپنے نام نہاد باپ سے بھی پردہ کرنا پڑے گا کیونکہ وہ اس کا حقیقی باپ تو نہیں ہے۔مزید برآں اس طرح وراثت کے مسائل بھی پیدا ہوں گے۔ وفات کے بعد فوت ہونے والے کی تمام جائیداد اْس قانون کے مطابق تقسیم کی جاتی ہے جو قرآن میں بیان کر دیا گیا ہے۔ اگر گود لیے ہوئے بچے کو یہ مال ملتا ہے تو گویا دیگر رشتہ داروں کا حق مارا جاتا ہے۔اگر گود لینے والے شخص کی اپنی اولاد بھی موجود ہے تو پھر اس اولاد کا حق مارا جائے گا اور اگر اولاد نہیں ہے تو بیوی اور دیگر رشتہ داروں کا۔اس پیچیدگی سے بچنے کے لیے اسلام نے بچوں کو قانونی طور پر گود لینے کی اجازت نہیں دی ہے۔
(ڈاکٹر ذاکر نائیک )