جواب: اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ قرآن مجید پیغمبرانہ انذار کی کتاب ہے اور اس کا اصل موضوع خدا کی سکیم سے آگاہی اور اس کی بندگی کے اصول وضوابط کی تلقین ہے۔ اس میں اس کائنات اور انسان کے وجود میں خدا کی تخلیق کے بعض پہلوؤں کا ذکر ضرور ہے لیکن اس کا ہدف بھی اصل میں بندوں کو ان کے پروردگار کی طرف متوجہ کرنا اور ان کے دلوں میں اس کی عظمت کا ادراک پیدا کرنا ہے۔سائنسی اکتشافات قرآن کا موضوع نہیں ہیں۔
سائنسی اکتشافات کے حوالے سے دو رویے پیدا ہوئے ہیں۔ ایک رویہ یہ ہے کہ سائنس دان جو کچھ بھی دریافت کریں اس کا کوئی نہ کوئی سراغ قرآن مجید سے نکال لیا جائے۔ اس کے لیے بعض لوگ قرآن کے الفاظ اور سیاق وسباق کو نظر انداز کرکے من مانی تاویل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے یہ رویہ صریح طور پر غلط ہے۔ اس لیے کہ کچھ معلوم نہیں کہ کل سائنس کا کو ئی قانون یا نظریہ کسی نئی دریافت کے نتیجے میں تبدیل ہو کر رہ جائے اور ہم نے جس بات کو اپنی نادانی سے خدا کی بات بنا دیا تھا وہ غلط ثابت ہو جائے۔دوسرا رویہ وہ ہے جسے آپ نے بھی بیان کیا ہے۔ قرآن مجید میں زمین وآسمان اور انسان کی تخلیق یا ساخت کے بارے میں کچھ بیانات ہیں ۔ یہ بیانات انھی الفاظ اور تعبیرات میں ہیں جن میں نزول قرآن کے زمانے کا عرب انھیں سمجھ سکتا تھا اور اس کا کچھ نہ کچھ شعور بھی رکھتا تھا۔یہ درست ہے کہ یہ بیانات کبھی غلط نہیں ہو سکتے اور نئی سائنسی دریافتیں اگر ان کی تائید کرتی ہیں تو اس سے ان کے خدا کا کلام ہونے کا پہلو مزید نمایاں ہوتا ہے۔ لیکن یہاں بھی یہ خطرہ موجود ہے کہ ہم قرآن کے الفاظ میں وہ معنی داخل کردیں جو ان کا حصہ نہیں تھے اور کل کی کوئی نئی دریافت ہمیں اپنی بات واپس لینے پر مجبور کردے۔
اصل یہ ہے کہ سائنس کی دریافتیں قرآن کی تائید کریں یا نہ کریں قرآن اپنی جگہ پر اٹل ہے۔ ہمیں اس کی حقانیت انھی دلائل سے ثابت کرنی چاہیے جو ہمیشہ کار آمد ہیں اور جن پر بوسیدگی طاری نہیں ہوتی۔ ہاں محتاط طریقے سے اگر سائنسی دریافتوں کو قرآن کے مقدمات کے حق میں استعمال کیا جائے تو اس کے مفید ہونے میں شبہ نہیں۔
(مولانا طالب محسن)