جواب: پہلی دونوں چیزوں کا ماخذ سنت متواترہ ہے۔ وضو میں اختلاف کی وجہ آیت قرآنی کی تاویل میں اختلاف سے پیدا ہوا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے بارے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ساری امت اس بات پر متفق ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وضو میں پاؤں دھوتے تھے۔
معجزات اور تقدیر اللہ پر ایمان کے لوازم میں سے ہیں۔ حدیث میں جو معجزات بیان ہوئے ہیں ان پر اگر سنداً کوئی اعتراض نہیں ہے تو ماننے میں کوئی استحالہ نہیں ہے۔ تقدیر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہماری زندگی، موت، والدین، بہن بھائی اور اس طرح متعدد چیزیں جن میں ہماری سعی کا کوئی تعلق نہیں ہے خود مقرر کر رکھی ہیں۔ اسے ماننا اللہ تعالی کو خالق ومالک ماننے کا نتیجہ ہے۔ یہی بات احادیث میں بھی بیان ہوئی ہے ۔ جن حدیثوں سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا نیک وبد ہونا بھی مقدر ہے تو وہ راویوں کے سوئے فہم کا نتیجہ ہے۔ قرآن مجید میں بیان کیا گیا قانون آزمایش اس تصور کی نفی کرنے کے لیے کافی ہے۔
ارضی قبر کو عالم برزخ قرار دینے کی وجہ حدیث نہیں ہے حدیث کا فہم ہے۔ قبر کی تعبیر عالم برزخ کے لیے اختیار کرنا زبان کے عمومی استعمالات میں بالکل درست ہے۔اس سے یہ سمجھنا کہ قبر ہی عالم برزخ ہے سخن نا شناسی ہے۔
مجھے نہیں ـ ـمعلوم کس روایت میں تجسیم باری تعالی بیان ہوئی ہے۔ جس طرح قرآن مجید میں اللہ تعالی کے ہاتھ اور چہرے کے الفاظ ہیں۔ اسی طرح عرش پر استوا کی تعبیر اختیار کی گئی ہے ، اسی طرح کی تعبیرات احادیث میں بھی ہیں۔ ان سے تجسیم کا نتیجہ نکالا گیا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ الفاظ معنوی پہلو سے استعمال ہوئے ہیں۔ خود قرآن مجید ہی میں یہ بات بیان ہوگئی ہے کہ اللہ تعالی کے مثل کوئی چیز نہیں ہے۔ اس ارشاد سے واضح ہے کہ اوپر مذکور تعبیرات ابلاغ مدعا کے لیے ہیں۔ان کا لفظی اطلاق درست نہیں ہے۔
(مولانا طالب محسن)