جواب: آزمایش کے دو پہلو ہیں۔ ایک آزمایش یہ کہ ہم جس ایمان کے مدعی ہیں اس کی حقیقت اچھی طرح متعین ہو جائے۔دوسرا یہ کہ دین پر عمل کرتے ہوئے تزکیہ نفس کا جو سفر ہم نے شروع کیا ہے وہ بھی تکمیل کو پہنچے۔ ہمارے اخلاق اور دین وایمان پر استقامت ہر لمحے معرض امتحان میں رہتے ہیں۔جب جب آزمایش آتی ہے اور یہ صبر اور شکر دونوں پہلوؤں سے ہوتی ہے اور ہم اس میں کامیاب ہوتے رہتے ہیں تو یہ ہمارے ایمان میں ترقی کا زینہ بنتی چلی جاتی ہے۔ اس پہلو سے آپ کی بات درست ہے کہ موـمن کے لیے بلند درجے کے حصول کا ذریعہ ہے۔ آپ کی یہ بات بھی درست ہے کہ بعض تکلیفیں غفلت سے بیداری کا ذریعہ بنتی ہیں۔ اس اعتبار سے یہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت کا اظہار بھی ہیں کہ انھوں نے گرتے ہوئے شخص کو سنبھلنے کا ایک موقع فراہم کر دیا ہے۔ لیکن آزمایش کے کچھ اور پہلو بھی ہیں جن میں ایک دو امور کی طرف اشارہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سفر کے واقعات میں بھی ہوا ہے۔ بہر حال یہ بات واضح ہے کہ یہ دنیا آزمایش کے لیے ہے۔ اس میں امتحان اور اس کے لوازم کی حیثیت سے ترغیب وترہیب کے مراحل بھی پیش آتے ہیں۔ لیکن ہر واقعے کے تمام پہلوؤں کا احاطہ ہمارے ادراک کے لیے ممکن نہیں ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سفر سے ایک یہ بات بھی واضح ہوتی ہے۔
(مولانا طالب محسن)
ج: انسان کو اعتماد رکھنا چاہیے کہ میرا مالک میری اتنی آزمائش کرے گا جتنی اس نے مجھے طاقت دی ہے ۔ جب انسان کم ظرفی کا ثبوت دیتا ہے تو آزمائش لمبی ہو جاتی ہے ، اگر وہ اپنے مالک پر اعتماد کر کے کھڑا ہو جائے تو اللہ تعالی اس کے بعد آزمائش اٹھا لیتے ہیں ۔ہمیں اپنے ضعف ایمان کیوجہ سے آزمائش ضرورت سے زیادہ سخت محسوس ہوتی ہے ۔اصل میں جو کھوٹ ہوتا ہے اس کو نکالنے کے لیے آزمائش لمبی کر دی جاتی ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)