جواب: نشوز کی کوئی متعین صورت شریعت نے نہیں بتائی۔ اس کی تعیین مختلف ثقافتوں کے لحاظ سے مختلف ہو گی۔ اس کو ایک سادہ مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ بخاری میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی روایت بیان ہوئی ہے کہ جب مہاجرین مکہ سے مدینہ آئے تو مکہ میں کلچر مختلف تھا اور بیوی کا مرد کی کسی بات پر اس کو reactکرنا یا اس کو جواب دینا بڑی معیوب بات سمجھی جاتی تھی۔ یہ بات گستاخی سمجھی جاتی تھی کہ خاوند نے ایک بات کی اور بیوی نے آگے سے اس کا جواب دے دیا۔ (گویا مکہ کے کلچر کے لحاظ سے یہ ‘نشوز’ تھا کہ بیوی اپنے خاوند کو ترکی بہ ترکی جواب دے۔) سیدنا عمر کہتے ہیں کہ ہم جب مدینہ آئے تو وہاں انصار کے ہاں ماحول مختلف تھا۔ عورتیں شوہروں سے بحث بھی کر لیتی تھیں، جواب بھی دے لیتی تھیں۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے واقعات آپ حدیثوں میں پڑھیں، وہ بڑے دلچسپ ہیں۔ یہاں آ کر اختلاط ہوا اور ہماری عورتوں نے انصار کی عورتوں کے پاس آنا جانا شروع کیا، ان کے گھروں میں جا کر ان کا ماحول دیکھا تو ہماری خواتین نے بھی شوہروں کو جواب دینا شروع کر دیا۔ حضرت عمر اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں نے گھر میں کوئی بات کی تو میری بیوی نے اس پر آگے سے مجھے جواب دے دیا۔ میں نے کہا کہ اچھا، نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے! تم یہاں کے ماحول میں آ کر بگڑ گئی ہو اور جواب دینا شروع کر دیا ہے۔ بیوی نے کہا کہ آپ ہمیں کیا کہتے ہیں، جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں دیکھیں۔ آپ کی بیویاں آپ سے بحث بھی کرتی ہیں اور آپ سے ناراض بھی ہو جاتی ہیں اور رسول اللہ کو منانا پڑتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ اچھا، یہ صورت حال ہے۔ میں پہلے جا کر اپنی بیٹی کی خبر لیتا ہوں۔ وہ گئے اور جا کر سیدہ حفصہ کو ڈانٹا اور کہا کہ تمھیں معلوم نہیں کہ تم کس کے گھر میں ہو؟ ان کو ڈانٹ پلا کر یہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس چلے گئے۔ حفصہ تو بیٹی تھیں، وہ ڈانٹ سن کر خاموش رہیں۔ ام سلمہ کے پاس جب گئے اور ان سے پوچھا کہ کیا تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیتی ہو تو وہ ام سلمہ تھیں۔ انھوں نے کہا کہ تم کون ہوتے ہو دخل دینے والے؟ یہ ہمارا میاں بیوی کا معاملہ ہے۔ تم ہر معاملے میں دخل دیتے ہو، اب یہاں بھی آ گئے ہو!
سو ‘نشوز’ (disobedience یا defiance) یہ ہے کہ جس معاشرے میں آپ رہ رہے ہیں، وہاں کے کلچر اور norms کے لحاظ سے یہ سمجھا جائے کہ ایک عورت اپنے شوہر کا جو مقام ہے، اس کی جو حیثیت ہے اور اس کی جو اتھارٹی ہے، اس کو چیلنج کر رہی ہے۔ اب اس کا عملی مصداق پاکستان میں کچھ اور ہوگا، افغانستان میں کچھ اور ہوگا اور امریکہ میں کچھ اور ہوگا۔ قرآن نے اس کے مصداق کو متعین نہیں کیا۔ عرف کے لحاظ سے جو چیز سرکشی سمجھی جائے اور یہ دکھائی دے کہ خاتون اس جگہ پر آ گئی ہے کہ خاوند کے رشتے کو یا اس رشتے کے واجبات کو تسلیم نہیں کر رہی اور سرکشی کا رویہ اختیار کر رہی ہے تو یہ نشوز کہلائے گا۔
(ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر)