جواب :کسی خاتون کے وارثوں میں صرف اس کا شوہر اورایک بیٹا ہو تواس کے انتقال پر اس کی وراثت اس طرح تقسیم ہوگی کہ شوہر کو اس کا ایک چوتھائی ملے گا اور بقیہ (تین چوتھائی) کامستحق اس کا بیٹا ہوگا۔ شوہر چاہے تواپنے حصے کا مالک بھی اپنے بیٹے کو بناسکتاہے۔
قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ نابالغ لڑکے کی جائیداد اور جملہ مملوکہ اشیا کی حفاظت و نگرانی اس کے بالغ ہونے تک اس کا ولی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو، یہاں تک کہ وہ نکاح کے قابل عمر کوپہنچ جائیں، پھر اگر تم ان کے اندر اہلیت پاؤ توان کے مال ان کے حوالے کردو۔ا یسا کبھی نہ کرنا کہ حدِ انصاف سے تجاوزکرکے اس خوف سے ان کامال جلدی جلدی کھا جاؤکہ وہ بڑے ہو کر اپنے حق کامطالبہ کریں گے۔ یتیم کا جو سرپرست مال دار ہو وہ پرہیز گاری سے کام لے اور جوغریب ہو وہ معروف طریقے سے کھائے‘‘۔(النساء:۶)
اس آیت میں ہدایت کی گئی ہے کہ یتیم کا سرپرست اگرمال دار اور صاحبِ حیثیت ہو تو بہتر ہے کہ وہ اس مال میں سے کچھ نہ کھائے، لیکن اگر غریب اور ضرورت مند ہو تواپنے حق الخدمت کے طورپر اس میں سے کچھ لے سکتاہے ، لیکن ضروری ہے کہ اس میں سے لینا معروف طریقے پر ہو، اتناہو کہ ایک غیر جانب دار آدمی بھی اسے مناسب خیال کرے۔
سوال میں جو حدیث پیش کی گئی ہے اس کا پس منظر یہ ہے کہ ایک بوڑھے شخص نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر شکایت کی کہ میں نے اپنے بیٹے کوپال پوس کر بڑا کیا، اس کی ہرضرورت پوری کی، اس پر اپنا مال خرچ کیا۔ اب جب کہ میرے قویٰ مضمحل ہوگئے، میں کچھ کما نہیں سکتا، اپنے بیٹے کے مال میں سے کچھ لیتاہوں تووہ ناراضگی جتاتا ہے اور کہتاہے کہ میں اس کامال اڑا رہاہوں۔ آپ نے اس نوجوان کو بلا بھیجا۔ اس کے سامنے اس کے بوڑھے باپ کا دکھڑا پھرسنا(بعض روایتوں میں ہے کہ اس کی باتیں سن کر آپ آب دیدہ ہوگئے) پھر آپ نے اس نوجوان کا گریبان پکڑا اور اسے اس کے باپ کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا: اَنت وَمَالْکَ لِاَبِیکَ
اس سے معلو م ہوتاہے کہ بیٹے کے مال میں باپ کابھی حق ہے۔ وہ اس میں سے حسبِ ضرورت اور معروف طریقے سے لے سکتاہے۔