جواب: آپ نے ایک جنگ میں ایک ایسے آدمی کا انجام پوچھا ہے جس نے عین قتل کے موقع پر اظہار ایمان کیا تھا۔ یہ روایت اصلاً اس مضمون کی حامل ہے کہ دنیا میں ظاہر پر معاملہ کیا جائے گا۔ ہماری دل تک رسائی نہیں ہے اس لیے ہم مجبور ہیں کہ قانونی طور پر اس شخص کو مسلمان قرار دیں جو ایمان قبول کرنے کا اعلان کیے ہوئے ہے۔ اور اسے وہ تمام قانونی حقوق دیں جو ایک مسلمان کو دیے گئے ہیں۔ باقی رہا آخرت کا معاملہ تو وہ حقیقت کی بنیاد پر ہوگا۔ ممکن ہے بہت سے اس دنیا کے مسلمان آخرت میں مسلمان کی حیثیت سے قبول نہ کیے جائیں۔ موت کو سامنے دیکھ کر کی گئی توبہ اور ایمان کی کوئی قدروقیمت نہیں۔ فرعون پر یہی اصول نافذ ہوا ہے۔ مذکورہ واقعے میں مقتول کے بارے میں اس طرح کی کوئی تصریح کتب حدیث میں نہیں ہے۔ بعض شارحین کا خیال ہے کہ وہ پہلے سے مومن تھا لیکن اس کا ایمان ظاہر نہیں تھا۔ اگر معاملہ یہ ہے تو اس کی بخشش ہو گی اور اگر نہیں تو معاملہ اس کے برعکس ہوگا۔
(مولانا طالب محسن)