جواب :تقدیر کے دو جزو ہیں۔ ایک جز وہ ہے جس میں فیصلہ اللہ تعالی نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ شکل و صورت، علاقہ، خاندان، صلاحیت وغیرہ سراسر اللہ کے فیصلے ہیں اور اس دائرے میں اجر وثواب کا کوئی سوال ہے اور نہ ان کے حوالے سے قیامت میں جواب دہی ہے۔ دوسرا جز ہے جہاں تقدیر انسان کو آزادی دیتی ہے۔ یہ دائرہ سعی وجہد اور نیکی یا بدی کے اختیار کرنے کا ہے۔ اس دائرے میں اللہ تعالی کی طرف سے وہیں مداخلت ہوتی ہے جہاں اللہ تعالی کی آزمایش کی سکیم کے مطابق مداخلت ضروری ہو۔یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ اصل آزمایش خیر وشر کی ہے اس لیے وہاں تمام انسان یکساں ہیں۔ مالی اور نسبی فرق آخرت کے نتائج پر اثر انداز نہیں ہوتا اس لیے اس حوالے سے اس کی کوئی اہمیت بھی نہیں ہے۔
دنیا میں انسانوں کا فرق ان حالات کو پیدا کرنے کے لیے ہے جس میں ہر شخص آزمایا جائے۔ غریب بھی شکر و صبر کی آزمایش میں ہے اور امیر بھی۔ پھر حق کو پہچاننے، جاننے اور اپنانے میں دونوں آزمایش میں ہیں۔ پھر اخلاق کے دائرے میں دونوں آزمایش میں ہیں۔ اس امتحان گاہ میں بعض پہلوؤں سے امیر سہولت میں ہے اور بعض پہلوؤں سے غریب۔ لہذا آزمایش میں کامل انصاف کا اہتمام ہے۔اس دنیا کے حوالے سے پیدا ہونے والے تمام فکری سوالات کا کوئی اطمینان بخش جواب نہیں مل سکتا جب تک آخرت کو شامل کرکے اسے سمجھنے کی کوشش نہ کی جائے۔
(مولانا طالب محسن)