جواب: ہر مسلمان کی خواہ وہ مرد ہو یاعورت ذمہ داری ہے کہ وہ دین کافہم حاصل کرے، اس پر خود عمل کرے، پھر اللہ کے دوسرے بندوں تک اسے پہنچانے کی کوشش کرے۔ اہل ایمان سے مطلوب یہ ہے کہ اس کام میں وہ ایک دوسرے کاتعاون کریں:اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ،زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہوکر رہے گی۔ یقیناًاللہ سب پر غالب اورحکیم وداناہے۔‘‘(التوبہ: ا۷)ازدواجی زندگی میں شوہر بیوی کو بھی چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے دینی کاموں میں ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کریں اور اگر ایک سے کچھ کوتاہی ہو تو دوسرا اسے نرمی اورمحبت سے اس جانب توجہ دلائے۔ حدیث میں اس بات کو بہت لطیف پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’اللہ اس مرد پر رحم کرے جورات میں اٹھ کر نماز پڑھے اور اپنی بیوی کو اٹھائے۔ اگروہ نہ اٹھے تواس کے منہ پر پانی کے چھینٹے دے۔ اللہ اس عورت پر رحم کرے جورات میں اٹھ کر نماز پڑھے اور اپنے شوہر کو جگائے۔ اگروہ نہ اٹھے تواس کے منہ پر پانی کے چھینٹے دے۔‘‘
رحمتِ الٰہی کا یہ استحقاق صر ف نماز تہجد کے لیے خود اٹھنے اور دوسرے کواٹھانے تک محدود نہیں ہے ، بلکہ دین کے ہر کام میں اس طرح کا باہمی تعاون مطلوب ہے۔
جماعت اسلامی ہند امتِ مسلمہ کے تمام افراد کو خواہ وہ مرد ہوں یا خواتین اسی مشن میں لگانا چاہتی ہے۔ وہ ہر مسلمان مرد اورعورت سے کہتی ہے کہ سب سے پہلے وہ دین کا صحیح فہم حاصل کرے، یہ جانے کہ اللہ اور اس کے رسول نے کن کاموں کا حکم دیا ہے اور کن کاموں سے روکا ہے۔ مامورات پر عمل کرنے اور منہیات سے اجتناب کرنے کی کوشش کرے، آخر میں حسب توفیق اپنے پڑوسیوں ، اہل خاندان ، دیگر متعلقین اور عام افراد تک دین کی ان تعلیمات کو پہنچانے کی کوشش کرے۔ جولوگ جماعت کے اس مشن سے اتفاق ظاہر کرتے ہیں اور اس کے بعض بنیادی کاموں میں شریک ہوتے ہیں، انھیں وہ متفق اور کارکن بناتی ہے اور جواس کے دستور اور پالیسی و پروگرام سے مکمل اتفاق ظاہر کرتے ہوئے اس کی تمام سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں انھیں وہ اپنا رکن بنالیتی ہے۔جماعت کے ذمہ داروں سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ کسی خاتون کو جماعت کارکن بنانے سے قبل اس کے شوہر سے ملاقات کرکے اس کی اجازت حاصل کریں، غیر ضروری ہے۔ اس کے بجائے اس خاتون کو جماعت کی رکنیت کے لیے خود کو پیش کرنے سے قبل اپنے شوہر یاسرپرست کواعتماد میں لینا چاہیے اور اس کی رضا مندی کے بعد ہی یہ اقدام کرناچاہیے، تاکہ گھر میں خوش گوار فضا قائم رہے اورآئندہ اس کی عملی سرگرمیوں میں اہل خانہ کاتعاون حاصل رہے۔ اگر اس کے بغیر یہ اقدام کیا گیا تو اسی صورت حال کا اندیشہ ہے، جس کا اوپر سوال میں تذ کر ہ کیاگیاہے۔اس سلسلے میں ایک اورچیز کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ عورت کے گھر سے باہر نکلنے کے لیے شوہر یا سرپرست کی اجازت ضروری ہے۔ اگروہ منع کردے تواس کا باہر نکلنا جائز نہیں۔ عہد نبوی میں عورتیں فرض نمازوں کی ادائیگی کے لیے مسجد نبوی جایا کرتی تھیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے شوہروں کو مخاطب کرکے فرمایا :’تمہاری عورتیں جب تم سے مسجد جانے کی اجازت مانگیں توانھیں منع نہ کرو‘‘
اس حدیث کا خطاب عورتوں سے بھی ہے اور مردوں سے بھی۔ عورتوں سے یہ کہ وہ گھر سے باہر نکلنے کے لیے مردوں سے اجازت طلب کریں اوران کی اجازت کے بعد ہی نکلیں اورمردوں سے خطاب یہ کہ جب ان سے اجازت طلب کی جائے تومنع نہ کریں۔ اجازت طلب کرنے اور اجازت دینے کایہ معاملہ صرف فرض نمازوں تک محدود نہیں ہے، بلکہ تمام دینی ودنیاوی کاموں کے سلسلے میں ہے۔ تحریک سے باضابطہ وابستگی کے بعد گھر سے باہر کے تحریکی کاموں کی انجام دہی کے لیے عورت کا شوہر سے اجازت لینا ضروری ہے اور اگر وہ کبھی اجازت نہ دے تو یہ معقول شرعی عذر ہے جسے ذمہ دارانِ جماعت کو قبول کرنا چاہیے۔ اب آپ جماعت کی رکن بن چکی ہیں۔ اجتماعات وغیرہ میں شرکت کے لیے گھر سے باہر جانا ہوتو شوہر محترم سے اجازت لے لیا کریں۔ وہ خود جماعت کے کارکن ہیں۔ ان کے دینی جذبے سے یہ توقع ہے کہ وہ بہ خوشی اجازت دے دیا کریں گے۔ واضح رہے کہ اجازت جس طرح صراحتاً ہوتی ہے اْسی طرح گھر میں جومعمول ہو وہ بھی اجازت ہی ہے۔
آخری بات یہ کہ دینی وتحریکی سرگرمیوں کی انجام دہی عورت کے گھر سے باہر نکلنے پر موقوف نہیں ہے۔ وہ گھر میں رہتے ہوئے تبلیغ واشاعتِ دین کا بہت سے کام کرسکتی ہے۔ اپنے گھروالوں ، رشتہ داروں ، ملاقاتیوں وغیرہ کو دین کی باتیں بتاسکتی ہے۔ چھوٹے بچوں بچیوں کی دینی تعلیم کاانتظام کرسکتی ہے۔ جدید ترقی یافتہ وسائل نے توگھر بیٹھے کام کاوسیع میدان فراہم کردیاہے۔ فون، موبائل ، ای میل ، فیس بک، واٹس ایپ وغیرہ کے ذریعے بے شمار افراد سے رابطہ کیاجاسکتاہے اور ان تک دین کی باتیں پہنچائی جاسکتی ہیں۔