طیبات اور خبیثات

جواب : آپ نے شاید میری پوری بات نہیں سنی میں نے کہا تھا کہ طیبات کو حلال قرار دیا گیا ہے اور خبیثات کو حرام قرار دیا گیا ہے حلال کی حدود بتا دی گئی ہیں جن کی روشنی میں کسی چیز کے طیب ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا ۔قواعد کی نشاندہی کر دی گئی ہے بعض طیبات کی مثال دے کر بیان کر دیا گیا ہے کہ یہ اور اس طر ح کی چیزیں طیبات ہیں۔ خبیثات کے ساتھ بھی اسی طرح ہو ا وہاں بھی ضرور ی قواعد کی نشاندہی کر دی گئی لیکن اس سب تفصیل کے باوجود بعض نئی صورتیں ایسی پیش آسکتی ہیں کہ Grey Areaوہ ہو طبیات اور خبیثات کے درمیان کا علاقہ ہو جس میں رائے کا اختلاف پیدا ہو نے کا خاصا امکان ہے۔ ایک شخص کا ذوق اور رائے اس کو طیبات کی ایک قسم قرار دے اور دوسرے کا ذوق اور رائے اس کو خبیثات میں سے قرار دے۔ اس طرح کے معا ملا ت کو جو بہت مستثنیات میں سے اور بہت شاذونادر ہوں گے سلیم الطبع لوگوں کے ذوق اور صواب دید پر چھوڑ دیا گیا ۔مثال کے طور پر ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ ہر ،، ذی مخلب ،، یعنی جو پنجے والا جانور ہے جو شکار کر کے گوشت کھا تا ہے یا جانور کو پکڑ کر کھا تا ہے وہ حرام ہے ۔اس طرح سے چوپائیوں میں ہر وہ جانور جو شکار کر کے گوشت کھاتا ہے وہ حرام ہے چنانچہ بھیڑیا شیر چیتا یہ سب حرام ہیں وہ جانور جو پنجے والے نہیں یا وہ جاندار جو شکار کر کے نہیں کھاتے جن کی اصل غذا نبا تا تی ہے اور انسانوں میں ان کا دودھ استعمال کرنے کا رواج شروع سے چلا آرہا ہے وہ جائز ہیں۔ اب کچھ جانور جو متعین ہیں یعنی بکری بھیڑ گائے بیل بھینس و غیرہ یہ تو معلوم ہیں ان دونوں کے درمیان ہو سکتا ہے کہ ایسے کئی جانور بعض علاقو ں میں پائے جاتے ہوں جن کے بارے میں قطعیت کے ساتھ یہ تعین دشوار ہو کہ اس کا تعلق کون سی قسم سے ہے۔ یہ جانور بعض علاقوں میں پائے جاتے ہیں اور بعض علا قو ں میں نہیں پائے جاتے مثال کے طور پر زیبرے کے بارے میں یہ اختلاف پید ا ہو ا کہ زیبرے کا تعلق کس گرہ سے ہے زیبرے کو خالص جنگی جانور مانے جائے گا جیسا کہ مثلا گدھا ہے یا اس کو اس طرح کا جانور مانا جائے جس طرح مثا ل کے طور پر بیل یا ہرن یا نیل گائے ہے۔ اس کے بارے میں اختلاف ہو سکتا ہے اس طرح کا اختلاف شریعت نے ذوق پرچھوڑ دیا کہ آپ کا ذوق اور شریعت کا فہم جو فیصلہ کرے اس کے مطابق آپ عمل کریں۔ اسی طرح سے مثال کے طور پر قرآن مجیدمیں کہا گیا ہے ،، احل لکم صید البحر و طعامہ ،، کہ سمندر کا شکار اور سمند ر کا کھانا تمہارے لیے حلا ل قرا ردیا گیا ہے اب سمندر کے کھانے اور سمندر کے شکار سے کیا مراد ہے ؟ 
کچھ فقہاء کا مثلاً امام ابو حنیفہ ؒ کا خیال ہے کہ اس سے مراد صرف مچھلی ہے اس لیے کہ مچھلی ہی وہ غذا ہے جسے طبع سلیم ہر دور میں پسند کرتی چلی آرہی ہے اور رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں، صحابہ کرامؓ کے زمانے میں اور تابعین کے زمانے میں مچھلی کھانے کا عام طور پر عربوں میں رواج تھا اور وہ مچھلی کھایا کرتے تھے۔ وہ جانور جن کو عرب کا سلیم الطبع انسان فطری طور پر ناپسند کرتا تھا وہ اگر سمندر سے پکڑے جائیں تو کیا وہ جائز ہوں گے مثلا کیکڑا یا اس طرح کے دوسرے جانور انکو امام ابو حنیفہ ؒ ناجائز کہتے ہیں جب کہ بعض دوسرے فقہا ء جائز قرار دیتے ہیں ۔

 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)