جواب: قرآن پاک میں آیا ہے کہ اتمواالصیام الی للیل، کہ روزے کو مکمل کر رات تک ۔ یہاں دو لفظ آئے ہیں لیل اور الیٰ یعنی رات اور تک ۔ اس کا مفہوم فقہا کی بڑی تعداد نے یہی سمجھا ہے کہ جب تک رات داخل نہ ہوجائے اس وقت روزہ رکھا جائے۔ جب لیل کا دخول شروع ہو جائے تو سمجھا جائے کہ نہا ر کا وقت ختم ہو گیا ہے اس وقت روزہ کھول دیا جائے گا لیکن لیل کیا ہوتی ہے اور کب شروع ہوتی ہے فقہا کی غالب اکثریت کا یہ کہنا ہے کہ جب سورج کی ٹکیا نظروں سے اوجھل ہو جائے اور ڈوب جائے تو رات یعنی لیل شروع ہو جاتی ہے۔ سورج کے لئے ٹکیا کا لفظ اس لئے استعمال کیا گیا ہے کہ اگر آپ ریگستان یا میدانی علاقے میں کھڑے ہو جائیں تو غروب ہو تا سورج ایک گیند کی طرح نظر آتا ہے جیسے فٹ بال ہو تا ہے اس گیند کو فقہا ٹکیہ کے لفظ سے یاد کرتے ہیں۔ تو فقہا کہتے ہیں کہ جب سورج کی ٹکیا ڈوبتے ڈوبتے اس کاآخری حصہ بھی ڈوب جائے تو اس وقت سمجھا جائے گا کہ دن ختم ہو گیا ہے اور رات شروع ہو گئی ہے اس وقت روزہ کھول لیا جائے گا۔ بعض فقہا جن میں شیعہ فقہا بھی شامل ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ محض ٹکیا کا ڈوبنا کا فی نہیں ہے بلکہ شفق کا غائب ہونا بھی ضروری ہے ۔شفق وہ سرخی ہے جو سورج کی ٹکیا غائب ہونے کے بعد بھی قائم رہتی ہے۔جب تک یہ سرخی غائب نہیں ہوتی اس وقت تک گویا یہ سمجھا جائے گا کہ ٹکیا پوری طرح نہیں ڈوبی۔ شفق ٹکیا کے تابع ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ایک چیز کسی دوسری چیز کے تابع ہو تی ہے تو تابع کا بھی وہ ہی حکم ہوتا ہے جو اصل کا حکم ہوتا ہے لہٰذا اصل اور تابع دونوں ڈوب جائیں تب رات شروع ہو گی۔ اس عمل میں دس بارہ منٹ مزید وقت لگتا ہے اس لئے وہ بارہ منٹ مزید انتظار کرتے ہیں۔ یہ محض لیل کی تعبیر میں اختلاف ہے کوئی قرآن یا سنت میں اختلاف نہیں۔ اکثریت کے خیال میں سورج کی ٹکیا کے غائب ہو نے سے رات شروع ہو جاتی ہے دوسرا فریق کہتا ہے کہ جب ٹکیا کے اثرات بھی ڈوب جائیں گے تو تب لیل شروع ہوگی ۔میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ فقہا کی غالب اکثریت کا کہنا درست ہے اس لئے کہ دن اس وقت شروع ہو تا ہے جب سورج نکلنے لگتا ہے۔ سورج کی ٹکیا کے ظہور سے قبل جب اس کی سرخی یا شفق ظاہر ہوتی ہے اس کو دن کا آغاز قرار نہیں دیا جاتا اس سے پہلے کے وقت کو نہار کہتے ہیں اور اس وقت تک فجر کی نماز پڑھی جاسکتی ہے یہی اصول ٹکیا کے غائب ہو نے کے وقت بھی پیش نظر رکھنا چاہئے بہرحال یہ دو مختلف آرا ہیں ۔
ج: سائرن ایک منٹ پہلے شروع ہوتا ہے اس لیے اس دوران پانی پیا جا سکتا ہے۔ بہرحال احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ سائرن بجنے سے پہلے پانی پی لیا جائے۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)