نومبر 2006
خدا کو چھوڑ کر جھکتے ہو تم کیوں غیر کے آگے ازل سے آر ہی ہیں یہ صدائیں سوچتے رہنا قدم اٹھانے سے پہلے ہی فکر کر لینا پھر اس کے بعد نہ انجام سوچتے رہنا اندھیرا ذہن میں ہوتا ہے راہوں میں نہیں ہوتا سفر میں روشنی کا استعارہ...
دسمبر 2006
خدا کو چھوڑ کر جھکتے ہو تم کیوں غیر کے آگے ازل سے آ رہی ہیں یہ صدائیں سوچتے رہنا میرے ایقان کی منزل ،یا جوش جنوں ہے یہ قفس میں رہ کر بھی تازہ ہوا کا سوچتے رہنا نظر میں آئنہ ہے اور پتھر سوچتے رہنا پس منظر ہمیں اک اور م...