ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شیر جنگل کے میدان میں بیٹھا اپنے بچوں کو کھیل کود میں مشغول دیکھ رہا تھا کہ اچانک بندروں اور گیڈروں کا ایک غول دوڑتا بھاگتا سراسیمگی کے عالم میں وہاں پہنچا-
شیر نے استفسار کیا:" کیا خبر ہے؟" وہ بولے،" کچھ نہیں، ایک آدمی زاد جنگل کی طرف آ رہا تھا اور ہم خوف زدہ ہوگئے-"
شیر نے اپنے دل میں سوچا کہ آدمی زاد یقینا کوئی بہت بڑے ڈیل ڈول کا حیوان ہے لیکن وہ جانتا تھا کہ خود اس کی طاقت ہر کسی پر غالب ہے چنانچہ اس نے انھیں تسلی دیتے ہوئے کہا:" آدمی زاد کوئی ایسی شے نہیں کہ اس سے خوف کھایا جائے-"
وہ بولے " درست ہے، اس سے ڈرنا نہیں چاہیئے یعنی خوف بری چیز ہے لیکن تمھیں ابھی تک آدمی کی جنس سے واسطہ نہیں پڑا- آدمی زاد بڑی وحشت ناک شے ہے اور اس کی قوت سب سے زیادہ ہے-"
شیر نے قہقہہ لگایا اور بولا: گبھرانے کی کوئی بات نہیں، آدمی کیا چیز ہے، اگر دیو بھی ہو تو جب تک میں یہاں ہوں، تمھیں کسی چیز سے نہیں ڈرنا چاہیئے-"
لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ شیر جنگل سے باہر نکلا ہی نہ تھا اور ساری زندگی میں اس نے آدمی کو دیکھا ہی نہیں تھا- اس نے سوچا کہ اگر میں نے بندروں اور گیدڑوں سے آدمی کے بارے میں پوچھا تو وہ ہنسیں گے اور میری عزت جاتی رہے گی- سو وہ خاموش رہا اور خود سے کہنے لگا:" کل نکلوں گا اور اس قدر گھوموں پھروں گا کہ آخر کار اس آدم زاد کا کھوج لگا لوں گا- اسے مار کر اس کی لاش یہاں پھینکوں گا تا کہ حیوانوں کے دل سے اس کا خوف نکل جائے!"
اگلے دن شیر صبح سویرے صحرا کے رستے پر چل پڑا- چلتا گیا، چلتا گیا، حتی کہ اس نے دور سے ایک ہاتھی دیکھا- اپنے آپ سے کہنے لگا:" یہ جو کہتے ہیں کہ آدمی زاد ایک وحشت ناک چیز ہے، ہو نہ ہو یہ کوئی اسی قسم کی مخلوق ہے- یہ اتنا بڑا ڈیل ڈول آدمی ہی کا ہو سکتا ہے!"شیر آگے بڑھا اور ہاتھی سے کہا" تو آدمی ہے کیا؟"ہاتھی بولا:" نہ بابا، میں ہاتھی ہوں- میں تو خود آدم زاد کے ہاتھوں زچ ہوں- آدم زاد آتا ہے، ہم ہاتھیوں کو پکڑ لیتا ہے، ہماری پیٹھ پر تخت باندھ کر اس پر سوار ہو جاتا ہے اور آنکس ہاتھ میں لیے سر پر ضربیں لگاتا ہے- پھر ہمارے پاؤں میں زنجیر ڈال دیتا ہے، ہمارے دانت توڑ لیتا ہے، مختصر یہ کہ ہمیں ہزار طرح کی تکلیفیں پہنچاتا ہے- کہاں میں، کہاں آدم زاد؟"شیر بولا:" ہاں ہاں، بہت خوب، خود مجھے علم تھا لیکن میں چاہتا تھا کہ دیکھوں کہیں تیرے دل میں یہ خیال نہ آ جائے کہ تو اپنے آپ کو آدمی سمجھنے لگے-"
ہاتھی بولا: "میاں شیر! تم جو چاہو کہو، تمھیں اختیار ہے- لیکن اس سے زیادہ غلط بات کیا ہوگی کہ ہم آدمی بن جائیں؟"
شیر چلتا گیا، چلتا گیا حتی کہ اس کی مڈ بھیڑ ایک قوی ہیکل اونٹ سے ہوئی- اس نے دل میں سوچا، ہو سکتا ہے آدمی یہی ہو- شیر نے اسے آواز دی اور کہا: "ذرا رک، تو آدمی ہے کیا؟"اونٹ بولا:" خدا نہ کرے کہ میں آدمی جیسا ہو جاؤ ں- میں اونٹ ہوں- کانٹے کھاتا ہوں، بوجھ اٹھاتا ہوں اور آدمیوں کے ہاتھوں ذلیل اور اسیر ہوں- یہ آتے ہیں، میرے کندھوں پر دسیوں من بھاری بوجھ لادتے ہیں اور مجھے بے آب و گیاہ بیابانوں میں بھوکا پیاسا گمھاتے پھراتے رہتے ہیں- پھر ہمارے ہاتھ پاؤ ں باندھ دیتے ہیں کہ ہم بھاگ نہ جائیں- یہ آدم زاد ہمارا دودھ پیتا ہے، ہماری اون چن لیتا ہے اور اس سے اپنی عبا، قبا بناتا ہے اور ہماری جان کو لاگو رہتا ہے حتی کہ ہمارا گوشت تک کھا جاتا ہے!"
شیر بولا" خوب مجھے سب معلوم تھا- لیکن مجھے اندیشہ تھا کہیں کسی وقت تیرے دل میں یہ خیال نہ پیدا ہو جائے کہ تو آدمی ہے اور بندروں اور گیڈروں کو ڈراتا پھرے-" اونٹ بولا: اچھا ہم ناروا کام کرتے ہیں؟ میں کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتا- حتی کہ اگر ایک بندریا گیڈر بھی میری رسی ہاتھ میں تھام لے، میں اس کے ہمراہ چل پڑتا ہوں- میں زحمت کش حیوان ہوں اور ---"شیر بولا " اچھا اچھا زیادہ باتیں نہ بنا- اپنے کام سے کام رکھ-"
شیر پھر آگے بڑھا حتی کہ رستے میں اسے ایک گائے ملی- اس نے اپنے دل میں کہا: ہو نہ ہو یہ مخلوق جس کے سر پر سینگ ہیں، ضرور آدم زاد ہے- وہ آگے بڑھا اور اس سے سوال کیا: " کیا تو آدمی کے خاندان سے ہے؟"گائے بولی: " میں قربان! نہیں، آدمیوں کے سینگ نہیں ہوتے- میں گائے ہوں کہ آدم زاد کے ہاتھوں سخت تنگ ہو رہی ہوں- نہیں جانتی شکایت کس سے کروں؟ یہ لوگ ہمیں پکڑ لیتے ہیں، راتوں کو طویلے میں باندھ دیتے ہیں- صبح کو کھیتوں میں ہانک کر لے جاتے ہیں اور ہم مجبور ہیں کہ ان کی زمین ہل چلائیں، ان کی گندم گاہیں اور کولھو چلا کر تیل نکالیں- مزید یہ کہ دودھ بھی دیں اور آخر کار ہمیں ذبح کر دیتے ہیں اور ہمارا گوشت کھا جاتے ہیں-"شیر بولا:" ہاں، میں سب جانتا تھا، لیکن میں سوچتا تھا کہیں ایسا نہ ہو کسی وقت تو آدمی کا روپ دھار لے اور چھوٹے چھوٹے حیوانوں کو ڈراتی پھرے- یہ بے چارے بندر اور گیڈر ان پڑھ ہیں اور آدم زاد سے ڈرتے ہیں-" گائے بولی: " میں قربان جاؤ ں، ہرگز نہیں- اصل قصہ یہ ہے کہ میں ان سینگوں سے ---- "شیر بولا: " بہت خوب زیادہ باتیں نہ بنا، اپنے کام سے کام رکھ-"
شیر نے اپنے دل میں کہا:" چلو یہ تو پتا چلا کہ آدمی زاد کے سینگ نہیں ہوتے اور اب تک میری معلومات میں ایک چیز کا اضافہ ہوا-"
وہ پھر آگے بڑھا اور اب اس کی نگاہ ایک گدھے پر پڑی کہ صحرا میں ڈھینچوں ڈھینچوں کرتا سر پٹ دوڑتا جا رہا تھا- شیر نے دل میں کہا کہ یہ حیوان جو بھدی اونچی آوازیں نکال کر یوں دوڑتا خوشیاں مناتا جا رہا ہے یقینا وہی چیز ہے جس کو پالینے کے لیے میں سرگرداں ہوں- اس نے گدھے کو آواز دی اور کہا:" ارے یہ تو ہی ہے جس نے آدمی کا روپ دھار لیا ہے؟"گدھا بولا- "واللہ! میں وہ نہیں جس نے آدمی کی صورت دھار لی ہے، میں تو آدمی زاد کے ہاتھوں ستم رسیدہ ہوں اور اب اسی کے چنگل سے بھاگ نکلا ہوں- آدم زاد بڑے وحشی ہیں اور جوں ہی کوئی حیوان ان کے ہاتھ لگتا ہے، پھر کبھی چین نہیں پاتا- یہ ہمیں پکڑ لیتے ہیں ہماری پیٹھ پر بوجھ لادتے ہیں اور پھر خود بھی سوار ہوجاتے ہیں- ادھر کچھ عرصے سے ہمارا نیا نام رکھا ہے "دراز گوش" ہمارا ٹھٹھا کرتے ہیں اور کہتے ہیں: " جب تک گدھا ہے، پیدل سفر نہیں کرنا چاہیئے-شیر بولا:" اچھا، خیر تو یہ خود مجھے معلوم تھا کہ تو گدھا ہے البتہ میں یہ دیکھنے جا رہا تھا کہ آخر ان آدمی زادوں کا صحیح صحیح تعارف ہے کیا؟"گدھا بولا: " لیکن میں قربان جاؤ ں- تم ذرا احتیاط ---- "
شیر بولا-" بہت خوب- زیادہ باتیں نہ بنا اور اپنے کام سے لگ- مجھے معلوم ہے مجھے کیا کرنا ہے-"
اب شیر اس سوچ میں گم تھا کہ یہ آدمی زاد بھی عجیب شے ہے کہ ہر کوئی اس سے ڈرتا ہے- اس کا مطلب تو یہ ہے کہ یہ ہاتھی، اونٹ اور گائے سے بھی بڑا کوئی حیوان ہے! وہ تھوڑا سا آگے بڑھا تو اس کی نظر ایک گھوڑے پر پڑی کہ ایک درخت سے بندھا تھا اور تو بڑے سے جو کھا رہا تھا- شیر آگے بڑھا اور اس سے پوچھا: " تو کون ہے- میں آدمی کی تلاش میں ہوں-"
گھوڑا بولا: " خاموش! سرگوشی میں بات کرو کیوں کہ آدمی سن رہا ہے- آدمی بڑی خطرناک شے ہے- شاید صرف تم ہی اس سے ہمارا انتقام لے سکتے ہو- یہ آدم زاد ہمیں پکڑ لیتے ہیں- ہمیں رسی اور لگام سے کس لیتے ہیں- ہمیں میدان جنگ میں لے جاتے ہیں، ہمیں گھڑ دوڑ کے لیے لے جاتے ہیں اور ہمیں اذیت دیتے ہیں- ذرا دیکھو! کس طرح مجھے اس درخت سے باندھ رکھا ہے-"شیر بولا: " یہ خود تیرا قصور ہے- ارے تیرے منہ میں دانت ہیں، رسی کاٹ ڈال اور بھاگ لے- دیکھ تو سامنے حد نگاہ تک صحرا پھیلا ہے-"گھوڑا بولا: " ہاں تم نے درست کہا، لیکن کیا عرض کروں؟ صحرا میں بھی تو شیر، بھیڑیے اور چتیے ہیں-
شیر بولا: " تو نے شیر اور چیتے کا ذکر چھیڑ دیا- افسوس مجھے اس وقت ایک زیادہ اہم کام درپیش ہے وگرنہ مجھے معلوم ہے کہ میں تیرے ساتھ کیا سلوک کرتا- خیر آج میری خواہش یہ ہے کہ آدم زاد سے تمام حیوانات کا انتقام لوں-"
شیر قدرے اور چلا اورایک کھیت کے قریب جا پہنچا- کیا دیکھا ہے کہ ایک شخص لکڑیوں کا گھٹا باندھ رہا ہے اور ایک لڑکا بھی اس کی مدد کر رہا ہے اور شاخوں کو الگ الگ ترتیب دے رہا ہے-
شیر نے دل میں کہا: " بظاہر تو یہ بے سر وپا سی مخلوق آدمی زاد نہیں لگتی لیکن پوچھ لینے میں کیا ہرج ہے- سوال کرناعقل کی بات ہے- چنان چہ آگے بڑھ کر اس نے کام میں جتے اس آدم سے پوچھا : " کیا تو ہی آدم زاد ہے؟"
کام میں مشغول آدمی ڈرتے ڈرتے بولا: " جی ہاں میں ہی ہوں، اے شیر بادشاہ! میں ہمیشہ ہر ایک سے آپ کی صحت اور سلامتی کا احوال پوچھتا ہوں-"
شیر بولا: " درست، لیکن میں یہ دیکھنے آیا ہوں کہ کیا یہ تو ہی ہے جو تمام حیوانات کو اذیت پہنچاتا ہے اور ہر کوئی تجھ سے خائف ہے-"
آدمی بولا: " اے شیر بادشاہ! آپ صاحب اختیار ہیں- لیکن میں اور اذیت؟ کس نے آپ سے اس طرح بات کی؟ اگر کوئی ہم سے ڈرتا ہے تو وہ خود ڈرپوک ہے وگرنہ میں تو تمام حیوانات کا نوکر ہوں- میں ان کی خدمت بجا لاتا ہوں- ہمارا تو کام ہی خدمت گزاری ہے- جو لوگ اس طرح باتیں بناتے ہیں، نا انصافی کرتے ہیں اور آدمی زاد کی قدر نہیں پہچانتے- آپ کو افواہوں پر کان نہیں دھرنا چاہیئے، یہ آپ کے مقام سے بہت بعید ہے- آپ تو ہر ایک کے سردار ہیں سو آپ کو بہت ہوشیار رہنا چاہیئے-"شیر بولا: " میں نے دیکھا کہ کیا ہاتھی، کیا گائے، کیا گدھا، اونٹ اور گھوڑا- سبھی کو تم سے شکایت ہے- بندر گیدڑ تم سے خائف ہیں اور سبھی کہتے ہیں کہ آدم زاد نے ہمیں زچ کردیا ہے-"
مرد بولا: " آپ کی جان عزیز کی قسم یقین کریں ان لوگوں نے آپ کے کان بھرے ہیں- یہ تمام ہاتھی حالانکہ معمولی اور گندے جسم کے حیوان ہیں، لیکن انھیں میری محبت کا ممنون ہونا چاہیئے- ہم اس جنگلی وحشی حیوان کو شہر لاتے ہیں اور انسانوں سے متعارف کراتے ہیں، اسے کھانے کو گھاس دیتے ہیں- چڑیا گھر میں اس کی پذیرائی کرتے ہیں- اس طرح اونٹ کی ہم نگہداشت کرتے ہیں، اسے خوراک کھلاتے ہیں، اس کے لیے گھر بناتے ہیں- اگر اس کے جسم کی اون بڑھ جائے تو اس سے کیا فائدہ؟ ہم اس کی اون سے بے لباسوں کے لیے لباس تیار کرتے ہیں- گھوڑے کے لیے ہم سہنری اور روپہلی زین اور لگام تیار کرتے ہیں اور اسے دلھن کی طرح سجاتے ہیں- علاوہ از یں ہم کسی پر جبر کرکے اس سے کام نہیں لیتے- ہم گائے، گدھے کو صحرا میں لے جاتے ہیں اور انھیں آزاد چھوڑ دیتے ہیں لیکن وہ خود ہی لوٹ آتے ہیں اور اپنے طویلے میں چلے جاتے ہیں- اگر کوئی راضی نہ ہو تو کیوں لوٹے گا؟ آپ نے ان کی باتیں تنہائی میں سنی ہیں اور مشہور ہے کہ کوئی اکیلا قاضی کے حضور جائے، خوش ہوتا ہے- وہ عزیز تو اس وقت یہاں نہیں ہیں، ہاں ایک گھوڑا ہے، حکم ہو تو اسے یہاں لا کر آزاد کروں- اگر وہ جنگل جائے تو کچھ آپ فرماتے ہیں، میں اسے درست ماں لوں گا- آپ ملاحظہ فرمائیں کہ ہم کبھی شیر اور چیتے پر بوجھ نہیں لادتے کیوں کہ وہ خود اس پر آمادہ نہیں- ہم کسی کو مجبور نہیں کرتے- کیا آپی یقین کر سکتے ہیں کہ ہم اس کمزور اور ناتواں جسم کے ساتھ ہاتھی کے تن و توش ایسے جانور کو اذیت پہنچانے کے قابل ہیں؟ ----
میں کہ اس کے ایک مکے کی تاب نہیں لا سکتا!"آدمی بولا: " اچھے بول کوئی دلیل نہیں، ہمارے عمل اچھے ہیں- یقین کریں جو کام بھی ہمارے ہاتھ سے سر زد ہوتا ہے، دوسروں کی خدمت کے لیے ہوتا ہے- حتی کہ آج ہی میں اس فکر میں تھا کہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر ایک تجویز کروں یعنی آپ کے لیے ایک گھر بناؤ ں- آخر آپ حیوانوں کے سردار ہیں اور ہم پر آپ کا بڑا حق ہے!"شیر نے استفسار کیا: " یہ گھر کیا چیز ہے؟"آدمی بولا: " اگر آپ اجازت دیں تو ابھی تیار کرکے دکھا دوں تا کہ آپ کو اندازہ ہوجائے کہ ہم انسان کتنے اچھے دل والے ہیں- آپ چند لمحوں کے لیے درخت کے سائے میں آرام فرمائیے-: آدمی نے اپنے شاگرد کو آواز دی اور اس سے کہا: " بیٹا ذرا وہ تختے، ہتھوڑی اور کیل لے آ-"لڑکے نے بڑھئی کا سامان حاضر کیا اور اس آدمی نے فورا ًایک بڑا پنجرہ تیار کردیا- پھر شیر سے مخاطب ہوا:" آئیے، دیکھیے- یہ ہے ایک گھر- اس کا فائدہ یہ ہے اگر آپ چاہیں کہ کوئی شخص آپ کی تنہائی میں خلل نہ ڈالے، تو اس کے اندر چلے جائیے اور اس کا دروازہ بند کر لیجیے اور مزے سے آرام کیجیے- یا اس گھر کے اندر اپنے بچوں کو رکھیے- مزید یہ کہ جب تک آپ اس گھر کے اندر ہیں آپ بارش سے محفوظ رہیں گے، برف باری سے بچے رہیں گے، دھوپ سے محفوظ رہیں گے، اگر اتفاقاً پہاڑ سے کوئی پتھر لڑھک آئے تو آپ کو ضرب نہیں لگے گی اور اگر تیز آندھی سے درخت ٹوٹ جائے تو اس گھر کی چھت اسے روک لے گی اور آپ کو نقصان نہیں پہنچے گا- ہم خود ہمیشہ انھی گھروں میں رہتے ہیں اور آپ کے لیے، کہ آپ حیوانات کے آقا اور سردار ہیں، گھر کا ہونا واجب ہے- ہاں، ہر طرح کے گھر بنائے جا سکتے ہیں چھوٹے بھی بڑے بھی- اب آپ ذرا زحمت فرما کر گھر کے اندر داخل ہوجائیے تا کہ مجھے اندازہ ہوجائے کہ یہ آپ کی جسامت کے مطابق ہے؟شیر نے جس قدر بھی غور کیا، اسے آدمی زاد کوئی وحشت ناک چیز نہیں لگا بلکہ بڑا مہربان معلوم ہوا- یہ سوچ کر وہ بے خوف و خطر پنجرے کے اندر چلا گیا- بڑھئی نے فوراً پنجرے کا دروازہ بند کیا اور بولا: " آپ تشریف رکھیے تا کہ میں آدمی زاد کے ہنر سے آپ کو آگاہ کروں-"
آدمی نے آہستہ سے اپنے شاگرد کو حکم دیا: " اس دیوار کے پیچھے تھوڑی سی آگ جلا اور لوٹے کو پانی سے بھر کر آگ پر رکھ دے تاکہ پانی ابلنے لگے اور جب میں آواز دوں، لوٹا اٹھا لانا-"
پھر وہ پنجرے کے پاس آیا اور شیر سے مخاطب ہوکر کہنے لگا: " ہاں، تو یہ جو کہا جاتا ہے کہ آدمی زاد امکا ڈھمکا ہے سو قابل توجہ یہ بات ہے کہ انسان کا جسم تو بڑا حساس اور نازک ہے لیکن اس کا دماغ تمام جان داروں سے بہتر کام کرتا ہے- تم نے آدمی زاد کو بہت کمزور تصور کیا ہے گویا جنگل سے نکل کر راہ پر آئے اور اس کے چہرے کی کھال نوچ لی! آدمی زاد نے سیکڑوں طرح کی چیزیں ایجاد کی ہیں کہ خود اس کے لیے فائدہ مند اور اس کے بدخواہوں کے لیے نقصان دہ ہیں- یقینا ہمارے پاس پنجے اور دانت نہیں لیکن ہمارے پاس متعدد ایسی چیزیں ہیں جو پنجوں اور دانتوں سے سوگنا خطرناک ہیں اور تمام حیوانات ہم سے ڈرتے ہیں تو انھی کی وجہ سے! اب میں ایک چھوٹے سے حقیر لوٹے کے ذریعے تمھیں ایسی مصیبت میں مبتلا کرتا ہوں کہ جب تک تم زندہ ہو، اسے بھول نہ پاؤ گے اور دوبارہ انتقام لینے کا ارادہ نہیں کرو گے-" پھر وہ اونچی آواز میں بولا! " او لڑکے لوٹا لے آ!"
آدمی نے ابلتے پانی کا لوٹا تھاما اور پنجرے کی چھت پر سے شیر کے سر اور جسم پر انڈیلنا شروع کیا- شیر درد سے بلبلانے لگا اور اپنی نجات کا رستہ ڈھونڈنے لگا مگر بڑا زور مارنے کے باوجود مضبوط پنجرے سے باہر نہ نکل پایا- کچھ دیر بعد کہ شیر کا بدن گرم پانی کی وجہ سے جگہ جگہ سے جل گیا تھا، اس کی کھال پر آبلے پڑ گئے تھے اور اس کی جان گویا لبوں پر آگئی تھی، وہ مممنایا: " جو کچھ مجھے سمجھنا چاہیئے تھا، میں نے سمجھ لیا- اب مجھے چھوڑتا کہ میں جاؤ ں-"آدمی بولا: " ہاں، میں چاہوں تو تجھے اس پنجرے میں قید رکھوں- چاہوں تو تیرے ہاتھ پاؤ ں توڑ ڈالوں اور تجھے اپاہج کر دوں- چاہوں تو تیرے جسم سے کھال کھینچ لوں، لیکن میں یہ سب کچھ کروں گا نہیں تا کہ تو جنگل میں جا کر سب کو واقعہ کی اطلاع دے سکے اور جنگل کے جانور آدمی زاد کے ساتھ زور آزمائی کے خیال سے باز رہیں- اب میں خود اپنے ہاتھ سے پنجرے کا دروازہ کھولتا ہوں لیکن کان کھول کر سن لے، اگر تو نے میرے خلاف بدطینتی کا ارادہ کیا تو میرے پاس اور سو طرح کے حربے ہیں جو اس لوٹے سے بھی بدتر ہیں اور اس وقت تیرا خون تیری گردن پر ہوگا-"آدمی نے پنجرے کا دروازہ کھولا اور شیر اس کے ڈر سے ایسا فرار ہوا کہ اس نے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا- اب وہ جنگل میں تھا اور اپنے تن بدن کی سوزش کے باعث درد سے بلبلا رہا تھا- جنگل کے دو تین شیروں نے اسے دیکھا اور پوچھنے لگے: " کیا واقعہ ہوا- تجھے یہ کیا ہوا؟"شیر نے سارا واقعہ بیان کیا اور کہا " یہ سب مصیبت میرے سر آدمی زاد کی لائی ہوئی ہے-" شیر بولے: تو نے بے فائدہ آدمی زاد سے بات بڑھائی اور اس سے دھوکا کھایا- تجھے چاہیئے تھا کہ پنجرے اور لوٹے کی نوبت آنے سے پہلے ہی اس کا قصہ پاک کر دیتا- خیر آ، اب اس سے انتقام لینے چلیں- تو تنہا تھا اس لیے آدمی زاد کی گرفت میں آگیا- تن تنہا دشمن کے مقابل نہیں آنا چاہیئے- اگر ہم اکٹھے ہوتے تو یہ حادثہ کبھی نہ ہوتا-" شیر بولا " چلو، چلیں-"تین تازہ دم شیر آگے آگے اور جلا ہوا شیر ان کے پیچھے پیچھے دوڑتے بھاگتے اس کھیت پر پہنچے-
لڑکا موقع کی نزاکت کو سمجھ کر کہ معاملہ بڑا خطرناک ہے، فوراً بھاگ کر ایک درخت پر چڑھ گیا اور ایک شاخ پر جا بیٹھا-شیر جب درخت کے نیچے پہنچے تو سوچنے لگے: " اب کیا کریں-" جلا ہوا شیر بولا: " میں آدمی سے ڈرتا ہوں سو میں درخت کے نیچے کھڑا ہوتا ہوں- تم اپنے پاؤ ں مجھ پر ٹکا دو اور باہم ایک دوسرے کے اوپر چڑھ کر اسے نیچے کھینچ لوتا کہ حساب برابر کریں-"شیر بولے " یا اللہ-" سوختہ شیر درخت کے نیچے کھڑا ہوگیا اور باقی شیر ایک دوسرے پر سوار ہوگئے- درخت اونچا نہ تھا- بڑھئی کے شاگرد کو محسوس ہوا کہ شیر اْس تک پہنچنے ہی والے ہیں اور بچاؤ کا کوئی راستہ نہیں- اچانک اس کے ذہن میں ایک خیال بجلی کی طرح کوندا- اس کے ذہن میں استاد کے لفظ گونجنے لگے اور اس نے آواز لگائی: " او لڑکے لوٹا لے آ-"سوختہ شیر لوٹے کے بھید سے آگاہ تھا- وہ ڈرا اور دوسرے شیروں کے نیچے سے کھسکا اور فرار ہوگیا- باقی شیر ایک دوسرے کے اوپر گر پڑے- جلا ہوا شیر فریاد کرتا جا رہا تھا: " بھاگ نکلو، اب کوئی چارہ نہیں!"
شیر اس کے پیچھے بھاگے اور بولے: " تو بھاگ کیوں نکلا- ہم اسے پکڑنے ہی والی تھے-"شیر بولا: " جس چیز کا مجھے علم ہے، تمھیں نہیں- میں آدمی زاد کے تمام بھیدوں سے واقف ہوں اور جونہی اس نے کہا: " لوٹا لے آ" ، تو پھر سوائے فرار کے کوئی چارہ نہ رہا- یہ بدبختی اور مصیبت جو مجھ پر آئی، تو اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم لوٹا بنانے سے قاصر ہیں- آدمی زاد ہم سے کہیں زیادہ دانا ہیں اور جس کے پاس دانائی زیادہ ہو، اس کے پاس قوت بھی زیادہ ہوتی ہے-"
٭٭٭