ہماری بیٹھک ان دنوں پاور ہاؤس چورنگی سے متصل گرین بیلٹ پر تھی جہاں کسی پرانے ہوٹل کی باقیات میں سے کچھ تخت بچھے رہ گئے تھے۔ مجھے یاد ہے وہ سیاہ رنگ کی لنگڑی کتیا اس دن بڑی بے چین تھی بار بار ہماری طرف آتی جیسے کچھ کہنا چاہتی ہو۔ میں نے پروفیسر سے کہا دیکھو یہ کچھ کہنا چاہ رہی ہے اس نے بھی غور کیا تو میری تائید کی وہ کبھی ہماری طرف اور کبھی گرین بیلٹ سے متصل فٹ پاتھ کی طرف جاتی۔ اس فٹ پاتھ کے نیچے نالہ تھا۔ میں اور پروفیسر قریب گئے تو دیکھا فٹ پاتھ پر موجود گیپ میں سے کتیا کا بچہ نیچے پھنسا ہوا تھا ۔پھر عجیب منظر ہوا تمام احباب ادھر ہی متوجہ ہو گئے۔ ایک رش لگ گیا تدبیریں ہونے لگیں کیا کریں کیسے کریں اسکو بچانا ہے مامتا کی ماری کتیا ایک آس سے ہمیں دیکھ رہی تھی۔ ڈاکٹر شبیر شاکر لون نے اپنی بیلٹ دی ایک رسی کا ٹکڑا نظر فاطمی نے دیا ادھر عدیل احمد عدیل ہے وہاں حسن بن نظیر کھڑا ہے ایک طرف خیام مرحوم متوجہ ہیں قریب ہی سید فیاض علی بھی ہیں طاہر عباس بھی یہیں موجود ہیں ا ور پھر ہم نے اسے نکال لیا وہ بار بار بے تابی سے اپنے بچے کو چوم رہی تھی دیوانہ وار محبت سے اسے چاٹ رہی تھی ۔اور پھر اسکا ہم سے اظہار تشکر خدا کی قسم اس کتیا کے اظہار تشکر کو بھول نہیں سکتا۔ آج بھی یہ سب لکھتے وقت آنکھوں میں آنسو امڈ رہے ہیں ۔وہ کیا تھا کون سی طاقت تھی جس نے اتنے لوگوں کو یکدم فعال کر دیا ۔مامتا۔ بیشک مامتا ۔اس کتیا کی اپنے بچے سے محبت نے اتنے انسانوں کو فعال کر دیا ہم جیسے مردہ دلوں کو فعال کر دیا وہ رکی نہیں جھجکی نہیں وہ انسان نہیں تھی وہ لنگڑی تھی لیکن وہ ماں تھی۔