پِچے مُتّو ٹھیلے میں سبزیاں لے کر گلی گلی گھوم کر بیچا کرتا تھا۔ چھوٹی مارکیٹ کی مچھلی کی دکان کے پاس کھڑے ہو کر ہر دن دو بجے تک وہ انہیں بیچا کرتا تھا۔ شام کو ساڑھے چھ سات بجے، چوتھے ایونیو میں گھر گھر جا کر پھیری لگاتا۔آہستہ آہستہ اس پیشے میں بھی مشکلات بڑھتی گئیں۔ محنت کرنے پر بھی پِچے کا جینا مشکل ہوتا گیا۔ زندگی بھر اُسے مصیبتیں جھیلنی پڑیں اور تلخ تجربات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔دن میں دس بارہ گھنٹے مسلسل کام کرنے پر بھی آمدنی میں اضافہ نہ ہوتے دیکھ کی پِچے کو ایک نا معلوم دکھ ستانے لگا۔ وہ سوچنے لگا کہ کیا ساری کی ساری تکلیفیں مجھے ہی جھیلنی ہیں؟ اسے اس مفلسی کی کٹھنائیوں سے جکڑی زندگی میں امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دے رہی تھی۔
پِچے مُتّو کو پو پھٹنے سے پہلے ہی سبزیاں لینے مانولس بازار دوڑنا پڑتا تھا۔ پھر اسی رفتار سے لوٹ کر آٹھ بجے ہی سبزیوں سے لدا ٹھیلا لے کر بیچنے نکل جانا ہوتا تھا۔اس میکانیکی زندگی سے نڈھال پِچے مُتّو کی زندگی میں شادی کے روپ میں امید کی کرنیں جگمگانے لگیں۔ اس کی شادی طے ہو گئی تھی۔ اگلے سال کی شروعات میں اس کی شادی ہونے والی ہے۔ پِچے کی یہ زندگی ابھی تک بے سمت سفر میں ہی رہی۔ صرف سوچنے سے تو زندگی کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا تھا۔اس دن چوتھے ایونیو میں جب وہ پہنچا، تو قریب قریب پانچ بج رہے تھے۔ عمارتوں پر پڑنے والی سورج کی کرنوں سے اس نے وقت کا اندازہ لگایا۔ وہ آج ڈیڑھ دو گھنٹے پہلے ہی وہاں پہنچ گیا ہے۔ پِچے کو انبّتور میں رہنے والے ایک دور کے رشتے دار سے ملنا تھا۔ قریبی رشتہ داروں سے محروم پِچے کو شادی کا انتظام خود کرنا تھا۔ لہٰذا جلدی جلدی سبزیاں بیچ کر گھر واپسی کی امید میں، پانچ بجے ہی اس جانی پہچانی گلی (چوتھی ایونیو) میں پہنچ گیا تھا۔اسکولوں میں چھٹیاں تھیں۔ کچھ لڑکے سڑکوں پر کرکٹ کھیل رہے تھے اور کچھ لڑکیاں گھر کے آنگن میں بیڈ منٹن کھیل رہی تھیں۔گزشتہ تین سالوں سے اس گلی کے لوگوں میں پائے جانے والے بھائی چارے، اطمینان ، قناعت، مشکلات اور مایوسی جیسے جذبوں سے وہ بخوبی واقف ہے۔ امیر لوگوں کی اس گلی میں نہ جانے کتنے ہی لوگوں سے وہ ملا ہے۔ کتنی ہی کہانیاں ان کے بارے میں اس نے سنی ہیں۔ اس گلی کے پاس پڑوس کے لوگوں سے پِچے بہت ملا جلا تھا۔ ساٹھ فیصد گھروں میں سبزیاں بیچ کر وہ لوٹا تھا۔ سات بج چکے ہوں گے؟ اس نے دل ہی دل میں سوچا۔ دھندہ اس دن بالکل مندا رہا۔ اس لئے کچھ دیر ہو گئی۔ وہاں ایک سو سترہ نمبر کے گھر میں جانا تھا۔ پِچے اپنے دل کے مطابق ٹھیلا بھی دھکیلتا رہا۔ ٹھیلا کھڑا کر کے اس گھر کے دروازے کے پاس جا کر اس نے ‘اماں’ کی صدا دے کر اپنے آنے کی اطلاع دی۔ ان لوگوں کو وہاں رہتے چھ سات ماہ سے زیادہ نہ ہوئے ہوں گے۔ بہترین سبزیاں دینے پر بھی اس گھر کی مالکن ‘‘یہ سوکھ گئے ہیں، یہ سڑ گئی ہیں’’ جیسی کسی نہ کسی طرح کی خرابی دکھاتی رہتیں۔ قیمت کم کرنے پر بھی وہ قیمت زیادہ ہونے اور تولنے میں گڑبڑی کرنے کا الزام لگاتی رہتیں۔ اس گھر کی عورتوں کو پِچے بالکل پسند نہیں کرتا تھا۔ پِچے لنگڑا ہے، وہ لنگڑا کر چلتا تھا۔ لنگڑا کہنے پر کسی کو کیا اچھا لگے گا؟اس گھر کی عورت پِچے کو ہمیشہ ‘‘اے لنگڑے کریلا کیسے کلو دیا؟ پیاز ایک کلو کا کیا دام ہے لنگڑے’’ جیساہی بولتی تھی۔ وہ چالیس کے آس پاس کی عمر کی ہے۔ اس کے بال پکنے لگے ہیں، موٹا تگڑا جسم۔ دیکھنے میں پڑھی لکھی لگتی ہے۔ پِچے کو اس عورت سے بڑی چڑ ہوتی تھی اور اس کے رویے سے اکتا جاتا تھا وہ۔ ‘‘اماں میرا نام پِچے مُتّو ہے، پِچے مُتّو نام سے مجھے بلائیں، نہیں تو پِچے کہیے! مجھے لنگڑا، لنگڑا کہہ کر نہ پکاریں۔’’ کچھ اسی طرح پِچے نے اس گھر کی عورت سے شائستگی بھرے لہجے سے کہا۔لیکن اس گھر کی عورت مانی ہی نہیں۔ ‘‘کیا تم لنگڑے نہیں ہو؟’’وہ پوچھتی اور ہنستی۔پِچے کو اس جملے سے نہیں، بلکہ اس کے ہنسنے سے بے انتہا چڑ ہوتی۔ لہٰذا ہر دن جب اسے ایک سو سترہ نمبر کے گھر کو پار کرنا ہوتا، تو اپنے غصے کو دبائے، اس گھر کی عورت کو منہ دکھائے بغیر، اس کی جانے کی خواہش ہوتی تھی۔ دو تین بار اس نے ایسا کیا بھی۔ لیکن وہ پِچے کو ایسی آسانی سے جانے نہیں دیتی تھی۔ ‘‘اے لنگڑے! کیوں آواز دیئے بنا جاتا ہے؟ پیاز، مرچ کچھ نہیں ہے؟۔ ٹھیلا ادھر لا۔ کیوں آواز دیئے بنا جاتا ہے؟ مال کے بدلے ہم جو دیتے ہیں، وہ پیسے نہیں ہیں کیا؟’’اس طرح اس گھر کی عورت دروازے پر کھڑی ہو کر چیختی تھی۔پاس پڑوس والوں کو ذہن میں رکھ کر، اپنے تاثرات کو ظاہر کئے بغیر، عورت کا بھی احترام کرنے کی وجہ سے، خاموش انداز سے پِچے وہاں سے چلا جاتا تھا۔ اس دن بھی اس عورت کی خصلت اسے یاد آئی۔ سو اسے جو چاہئے بتا دے، ایسی سوچ لے کر اس کے دروازے پر پہنچا۔ گھر کے باہر کوئی نہیں تھا۔ ‘‘اماں سبزیاں، سبزیاں!’’ وہ چلایا۔نہ تو کسی نے دروازہ کھولا اور نہ اس کی آواز ہی سنی۔ گیٹ کا تالا بھی بند نہیں تھا۔ گھر کی کھڑکیاں بھی کھلی ہوئی تھیں۔ اندر کوئی ہے یا نہیں وہ سوچنے لگا۔ پِچے گھر کے قریب گیا۔ آواز دینے پر ایک نوجوان عورت دروازہ کھول کر باہر آئی اور پھر فوراً ہی اندر چلی گئی اور پھر دروازے کی آڑسے سبزیاں دیکھیں، پھر دروازہ بند کر دیا۔ اس عورت کی بیٹی ہے یہ۔ ہاسٹل میں رہ کر تعلیم حاصل کرتی ہے۔ اماں کی مانند موٹی، سڈول، گول چہرہ اور بڑی بڑی آنکھوں والی ہے یہ۔اندر کسی کے بولنے کی آواز سنتا رہا پِچے۔ ‘‘اماں!’’ ‘‘اماں!’’ ‘‘کیا ہے رادھا؟ نہا رہی ہوں، کیا چاہئے؟ ‘‘سبزیوں کا ٹھیلا آیا ہے اماں۔ اچھی سجنا کی پھلیاں لایا ہے، دل للچا رہا ہے، خریدو گی کیا؟’’ ‘‘نہ کہہ دو رادھا۔ ہمیں روزانہ سبزیاں دینے، ایک لنگڑا آتا ہے، وہ ابھی آئے گا۔ اس سے ہی لیں گے۔’’‘‘بس سجناہی اس لے لو اماں۔’’ ‘‘وہ لنگڑا بھی اچھی سبزیاں لاتا ہے۔ وہ لنگڑا ہو کر بھی، تکلیف برداشت کر کے، سارا دن کام کر کے روزی روٹی کماتا ہے۔ اس کے ٹھیلے سے ہی سجنا لیں گے۔ اس سبزی والے کو نہ کہہ دو بیٹی، جاؤ۔۔۔’’اس عورت کی آواز وہ سنتا رہا۔ وہ جذباتی ہو اٹھا۔ اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ ‘‘میں وہی لنگڑا آیا ہوں اماں۔’’ یہ کہنے کی خواہش ہوئی، پر پِچے نے اپنے آپ کو روک لیا۔ وہ عورت مراٹھی، تیلگو، کناڈا یا گجراتی کوئی بھی ہو، پڑھی لکھی، امیر، باتونی، مغرور بھی ہو، لیکن ہے مہربان۔انسان کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ ان میں ایک قسم یہ بھی ہے۔پِچے برسوں سے اس قسم کے انسانوں سے ملا نہیں تھا۔ اس قسم کی مہربان عورت سے بھی اس کی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ پِچے کی روح کی گہرائی سے آواز آئی۔ کچھ انسان تو اندر سے کچھ اور باہر سے کچھ ہوتے ہیں۔ لیکن یہ عورت تو اندر اور باہر سے ایک ہی ہے۔ اس کے دل میں ہمدردی کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔پِچے کے دل میں اس گھر کی عورت کیلئے جو نفرت اور غصہ تھا، سب سورج کی کرنوں کے آگے اوس کی بوندوں کی مانند اڑ گیا۔٭٭٭
بشکریہ : ترجمہ: عامرصدیقی