لڑکے کی چھاتی نوجوانی کی خوبصورتی کا ایسا شاہکار تھی کہ دیکھ کر رشک آ تا تھا۔ یہ سادہ سی دھاری دار قمیض کے نیچے سے اپنی مردانہ وجاہت کے کارن ہیجان انگیز تھی۔ لعنت ہے! میری نظریں کیوں اس کے سینے پر مرکوز ہیں؟ ہمیں کل سے ملے ہوئے احکامات بہت واضح تھے؛ ہم نے ان پر گولیاں برسانی تھیں۔ میں نے اپنی پیٹی کے ساتھ لگے ہتھیار کو دیکھا اور مجھے یوں لگا جیسے میں پاتال کے کنارے پر کھڑا ہوں۔ لیکن قانون تو قانون ہوتا ہے۔۔ میں نے اپنا ہاتھ ہتھیار پر رکھا، اسے محسوس کیا اور اس نے میرا ہاتھ بھر دیا۔ ہم گولی چلائیں گے۔ ہم سب نے اس ‘کوڈ ورڈ’ کو سنا، جسے سننے کے لئے ہمیں کہا گیا تھا؛ ‘‘پختہ ارادہ، پختہ ارادہ’’۔ پہلی رو والوں کے پاس آنسو گیس کے گولوں والے ڈبے تھے لیکن گولیوں سے بھری میگزین میرے پاس تھی؛ میں پہلی رو کے پیچھے ہوں اور موبائل فونز کے کیمروں کی زد سے باہر ہوں، میرا ہتھیار انتہائی چمکیلا ہے اور اس کی سیاہ چمک پھوٹی پڑتی ہے اور میں اس کی چمک کو لشکارے مارنے سے روک نہیں پا رہا۔
‘‘لیکن جناب۔۔۔’’، میں نے کہا۔‘‘وہ غرایا، ‘‘ہم گولی چلائیں گے! کیا تم نے حکم نہیں سنا؟’’میں نے تیزی اور تن دہی سے سلیوٹ کیا۔‘‘تمہیں کسی نے نہیں دیکھا۔’’
میں نے پھر سلیوٹ کیا۔
میرا جسم ذہنی دباؤ کی وجہ سے تنا ہوا تھا۔ ان خونیں دنوں میں میرا جسم ایک کَسی ہوئی مٹھی کی طرح تنا ہی رہتا تھا۔ میں نے ان کے گلے کٹتے دیکھے تھے، میں نے انہیں زخمی ہوتے دیکھا تھا، میں نے انہیں ربڑ کی گولیوں کے لگنے سے گرتے ہوئے دیکھا تھا۔ ان میں سے کچھ دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو جاتے جبکہ کچھ اٹھ ہی نہ پاتے میں نے انہیں جبری بھرتی کئے گئے سپاہیوں کے پیروں تلے کچلتے ہوئے بھی دیکھا تھا؛ وہ کیسے بچ سکتے تھے؟ یقیناً ان کے پاس بلیوں کی مانند نو نو زندگیاں تھیں کہ وہ بچ نکلتے تھے!
‘‘ہم گولی چلائیں گے’’، اس نے کہا۔ میں خود کو کیسے موبائل فون کیمروں سے اوجھل رکھ سکتا ہوں؟ ایسا لگتا تھا جیسے یہ زمین میں ہر جگہ اُگ آئے ہوں اور آسمان بھی ان سے بھرا ہو۔۔۔ کیا بکواس ہے!
‘‘آپ انہیں اس قسم کی فلم بندی کیسے کرنے دے سکتے ہیں؟ آپ کی نظریں کہاں جمی ہیں؟ آپ کو تو اندھا اور بہرہ ہونا چاہیے! آپ چاہتے ہو کہ وہ مجھے محل میں زندہ جلوا دیں یا وزارت داخلہ میں میرا گلا کاٹ دیا جائے؟ ‘‘ جوان اٹھو! تم یہ کر سکتے ہو۔ تمہیں آخر ہوا کیا ہے؟ کیا تم ان مٹھی بھر نوجوانوں سے خوفزدہ ہو گئے ہو؟ تم آدمی ہو یا کیا ہو؟’’۔ میرا دماغ تناؤ سے جل رہا ہے۔ مجھے ان کے خلاف اپنے ہر بغض کو باہر لانا ہو گا تاکہ میں احکامات پر عمل کر سکوں۔ اس دوران وہ ٹڈی دل کی طرح، لہر در لہر ہم پر چڑھے جا رہے ہیں۔‘‘ہم نے ان پر گولی چلانی ہے’’۔ یہی حکم ہے۔ خدا ہماری حفاظت کرے۔ میں اپنے دائیں کولہے پر چمڑے کے ‘ہولسٹر’ میں لپٹے ہتھیار کو دیکھتا ہوں جس پر میرا ہاتھ فوری پہنچ سکتا ہے اور ساتھ ہی خود کو اس کونے میں کر لیتا ہوں جو اس چوڑی نیچے اترتی سڑک کے منہ پر واقع ہے۔ جو اطلاعات ہم تک پہنچ رہی ہیں ان کے مطابق ہجوم اس چوک میں ہنگامہ آرائی کر رہا ہے جو وزارت داخلہ کے دفتر کے پاس ہے اور وہ وہاں سے بڑی سڑک پر اس جانب بڑھ رہے ہیں جہاں ‘سیکیورٹی فورسز’ کا ہیڈ کوارٹر ہے۔‘‘حال ہی میں وہ جو ہمارے ساتھ کر رہے ہیں، اس نے پورے ملک کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے، یہ سب برداشت سے باہر ہے؛ ہم برباد ہوگئے ہیں۔ اب سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔’’
باس کی خشک مزاجی اپنی انتہا پر تھی۔ اس نے سوکھے سڑے چہرے پر، آنکھوں میں اور اس کے جلتے سگار میں تناؤ بھری فرعونیت تھی۔میرے منہ سے ایک سوال نکلا؛ ‘‘جناب! کیا ہم اپنے ہی بچوں کو قتل کر دیں؟’’یہ سن کر اس نے مجھے نفرت بھری خوفناک نظروں سے یوں دیکھا جیسے مجھے فرش پر پٹخنا چاہتا ہو۔‘‘ہم مادر وطن کے دشمنوں کو ماریں گے!’’ان الفاظ نے میرے پورے بدن میں جھنجھناہٹ پیدا کر دی اور میرے احساسات کو ایسے چٹخایا کہ یہ بیدار ہو گئیں کیونکہ ان الفاظ کا مطلب مجھ میں اپنی جڑیں پھیلاتے ہوئے عجیب بخارات پیدا کر رہا تھا۔ مادرِ وطن کے دشمن؟ لیکن احکامات بہت واضح تھے اور کوڈ ورڈ بھی قطعی تھا؛ ‘‘پختہ ارادے کے ساتھ، پختہ ارادے۔۔’’ لو وہ آ گئے۔۔ یہ آواز میرے اردگرد کی فضا میں گونجی اور گم ہو گئی۔ میں اسی کونے میں دبکا ہوا تھا، میرا ہاتھ ہتھیار پر تھا، میرا جسم بودار پسینے اور دم گھونٹنے والے دھویں کی وجہ سے تنی ہوئی مٹھی کی مانند اکڑا ہوا تھا۔ حرامی سالے! مادرِ وطن کے دشمن۔ ہم انہیں مار دیں گے، صبر کا پیمانہ چھلک چکا اور اب ہمارے پاس آنسو گیس بھی ختم ہو چکی ہے۔
اور وہ اپنی دھاری دارقمیض میں لوگوں کی پہلی روسے بھی آگے سینہ تانے ان کی ایسے راہنمائی کر رہا ہے جیسے اپنے سینے کو گولی کھانے کے لئے پیش کر رہا ہو۔ اس کی رنگ پھِٹکی دھاری دار قمیض کے نیچے سے اس کے پٹھے پوری طرح ابھرے ہوئے تھے۔ اس وقت آسمان پر بادل تھے اور یخ بستہ ہوا چل رہی تھی۔ ایک ایسے دن میں اسے کونسی شے گرمائے ہوئے تھی؟ وہ نزدیک آ رہا ہے؛ ‘میں باقی سب لوگوں کو چھوڑ کر صرف اسے ہی کیوں دیکھے جا رہا ہوں؟ اس یخ بستہ دوپہر کو، سینکڑوں چھاتیوں کو چھوڑ کر میں صرف اس کی چھاتی پر ہی کیوں نظر یں جمائے ہوں۔ ' کیا شکاری جھنڈ میں سے اپنے کبوتر کو ہی اکیلا کر لیتا ہے؟ کیا وہ یہ کہتا ہے؛ بس یہی، اور کوئی نہیں؟’‘‘اگر، ایک روز، ایک بندہ زندہ رہنا چاہتا ہو۔’’، میری آنکھیں اس کے سینے کے پٹھوں پر ہیں اور اس کے اس حصے پر بھی جمی ہیں جو اس کی گردن کے پاس نوجوانی کی وجاہت اور بھرپور طاقت کے ساتھ ننگا نظر آ رہا ہے۔ اور میرا ہتھیار میرے پہلو میں ہے۔ وہ کون ہے؟ وہ کون ہو سکتا ہے؟ کسی سکول کا بچہ؟ ایک طالب علم؟ ایک استاد؟ کوئی ایسا جو بیروزگار ہو؟ کاریں بیچنے والا سیلزمین؟ ایک پرچون فروش؟ ایک قصائی؟ ہمارا قومی ترانہ کہتا ہے؛‘‘کسی ایسے کو زندہ مت رہنے دو جو تونیسیا کا غدار ہو۔ اور اسے بھی زندہ مت چھوڑو جو اس ملک کی فوج میں خدمت انجام نہ دے۔’’
میں اس ملک کی فوج میں ہوں، میرا سیاہ ہتھیار چمکتا ہے اور میں اس بندے پر نظر رکھتا ہوں جس کو میں نے ابھی فوجی سلام کیا ہے اور میرا دھیان ‘کوڈ ورڈز’ پر ہے اور ان فیتوں پر، اس کے کندھوں پر جن سے اس کے درجے کا تعین ہوتا ہے۔
‘‘اور اسے بھی زندہ مت چھوڑو جو اس ملک کی فوج میں خدمت انجام نہ دے۔’’ سارے احکامات یہاں آ کر اہمیت کھو بیٹھتے ہیں۔ اور جب میں نے یہ سوال منہ سے نکالا، تو اس نے مجھے زہریلی نظروں سے دیکھا؛‘‘کیا ہم اپنے ہی بچوں کو ماریں گے؟’’‘‘ہمارے بچے، تم انہیں ہمارے بچے کہتے ہو؟ وہ جو سبوتاژ کرنے والے ہیں؟ وہ نقاب پوش جتھے؟ وہ آوارہ کُتے؟’’
میرے پاس کہنے کو اور کچھ نہیں ہے۔ میری زبان حلق میں خشک ہو گئی ہے؛ میں اس درشتی سے کیسے بول اٹھا! افسر افسر ہی ہوتا ہے۔ میں دو تین ماہ میں ریٹائر ہو جاؤں گا۔ میں عمر میں اس سے بیس سال بڑا ہوں؛ وہ کب اتنا بڑا ہو گیا تھا کہ اسے یہ درجہ مل گیا؟ مجھے اپنی نوکری کے یوں ختم ہونے پر اس سے حسد محسوس ہوا۔ دور دراز کی سڑکوں پر جسم جھلسا دینے والی گرمی اور یخ سردی برداشت کر نے کے بعد، گمنام جگہوں کے وسط میں ٹرکوں میں سونے کے بعد، شہری چھاؤنیوں میں ٹوٹی پھوٹی آہنی چارپائیوں پر سونے کے بعد، ویران مضافاتی کیمپوں میں تربیت کے بعد۔ ان سارے طویل سالوں کی کٹھن اور مشقت بھری زندگی کا کیا یہی خونیں انجام ہونا ہے؟ اپنے ہی بچوں کو قتل کرنا ہے؟ یہ سوال نہ تو میری زبان پر آیا، نہ دماغ میں لیکن میرے دل نے یہ ضرور اٹھایا جس کی گونج میرے پورے جسم میں پھیل گئی۔ اس کے جواب کی دھاڑ نے کمرے کے درودیوار ہلا دئیے تھے۔‘‘وہ مادر ِ وطن کے دشمن ہیں۔’’اور میں اس کے جواب میں سر ہلانے کے سوا کچھ نہ کر سکا اور مجھے یوں لگا جیسے میرے سر میں ہزاروں کیل ٹھونک دئیے گئے ہوں جس سے وہ درد کے مارے پھٹا جا رہا ہو۔ اور وہ آگے بڑھ رہا ہے، اس کی چھاتی کی تھرتھراہٹ سے اس کی قمیض کی سفید، لال، سبز، سفید، لال، سبز دھاریاں بھی ہل رہی ہیں اور میری انگلی ہتھیار کے گھوڑے پر ہے۔ میں خود کو، جسم اکڑائے، اس چھوٹے سے کونے میں پیچھے کی طرف سُکیڑ لیتا ہوں۔ وہ نزدیک آ رہا ہے، نزدیک، اور نزدیک ۔ حکم یہ ہے کہ میں نے احکام بجا لانا ہے، وہ نزدیک آ رہا ہے، ہماری برداشت کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے، ہمارے پاس آنسو گیس ختم ہو چکی ہے، کیا ہم انہیں ملک کو جلانے دیں؟، باس کہتا ہے؛‘‘ہمیں مادر ِ وطن کے لئے کچھ قربانیاں دینی ہی ہوں گی، یہ مادر ِ وطن ہی ہے جو اہم ہے۔’’اور پھر وہ کہتا ہے؛ ‘‘یہ تونیسیا ہی ہے جو ہر شے پر بھاری ہے۔’’ اور اچانک میرا دماغ وطنیت سے بھر جاتا ہے، اس کے دیہاتوں، قصبوں، شہروں اور ان کی گلیوں، اس کے کنوؤں اور سمندروں، سڑکوں کے کنارے لگے یوکلپٹس، میلوں تک پھیلے کھیتوں کے کناروں کو لال کرتی پوست کی فصلیں، دن رات بھرے رہنے والے اس کے قہوہ خانے، پہاڑوں میں بنے ڈیم، اس کے سرسبز میدان، تبرکہ سے حمامت تک پھیلے پہاڑی سلسلے پر بنے محلات، ننگے پاؤں سکول جاتے ننھے بچے، سڑکوں پر ادھر ادھر بھاگتے بھیڑئیے جو ڈرتے ہوئے پاس سے گزرتی پولیس کار کو زندگی بھری نظروں سے دیکھتے ہیں، میری نظروں میں پھر گئے۔
وہ اپنا دل لبھانے والا مضبوط سینہ تانے نزدیک سے نزدیک آ رہا ہے؛ اس کی ماں کون ہے؟ کیا اس کا باپ زندہ ہے؟ میری انگلی گھوڑا دبا رہی ہے اور میں اس عمارت کی چھت پر پتھر کے ساتھ جما کھڑا ہوں اور نیچے اترتی سڑک پر نظریں جمائے ہوئے ہوں۔
٭٭٭
مصنفہ کے بارے میں:
آمنہ رَملی (Emna Rmili) تیونس کے ‘Facult-E9 des Lettres et des Sciences Humaines in Sousse’ میں عربی ادب کی استاد ہے۔ اس کی دس کتابیں اب تک شائع ہو چکی ہیں، جن میں تین ناول، افسانوں کے تین مجموعے، بچوں کی ایک کتاب اور مضامین کے تین مجموعے شامل ہیں۔ اس کی کہانیاں کئی ایوارڈ حاصل کر چکی ہیں جبکہ بچوں کے لئے لکھی گئی اس کی کتاب بھی ‘عربی بچوں کی کتابوں’ کا انعام حاصل کر چکی ہے۔
درج بالا افسانہ، تیونس میں آئے 2011 ء کے اس انقلاب کے تناظر میں لکھا گیا ہے جس میں اس ملک کے عوام نے تیونس کے صدر زین البدین بن علی کو اس کے چوبیس سالہ اقتدار سے ہٹایا تھا۔
ترجمہ ، قیصر نذیر خاور