ہاروے میکسویل آڑھتی کے دفتر کے معتمد کلرک پچر نے خفیف سی دلچسپی اورتعجب کی ایک جھلک اپنے روکھے،جذبات سے عاری چہرے پر لانے میں کوئی مضایقہ نہ سمجھا جب اس کا آقائے نعمت ساڑھے نو بجے تیزی سے اپنی اسٹینو گرافر کے ہمراہ دفتر میں داخل ہوا ۔
ہاروے میکسویل جلدی سے؛سلام میاں پچر؛کہہ کر اپنی میز کی طرف یوں لپکا جیسے ایک سیکنڈ میں وہاں پہنچ جانا چاہتا ہو۔اس کے بعد وہ خطوں اور تاروں کے اس ڈھیر میں غوطہ مار کے رہ گیا جو وہاں اس کا انتظار کر رہے تھے۔
یہ نوجوان خاتون ایک سال سے میکسویل کی اسٹینو گرافر تھی۔اس کی خوبصورتی یقینا اسٹینو گرافر کی دیدہ زیبی سے مختلف قسم کی تھی۔اس میں بھڑکیلا پن بالکل نہ تھا۔نہ کوئی زنجیر نہ بازو بند نہ لاکٹ ورنہ ایسی لڑکیاں بنی ٹھنی رہتی ہیں جیسے ابھی کسی دعوت میں جا رہی ہوں۔اس کا لباس سادہ اور مٹیالے سے کپڑے کا تھا لیکن اس کی قامت زیبا پر خوب سج رہا تھا۔اس روز اس کے چہرے پر مسکراہٹ بھی تھی اور تابندگی بھی۔اس کی آنکھوں میں ایک خواب ناک چمک تھی اور رخسار واقعی سیب معلوم ہو رہے تھے۔اور وہ ایک خیال میں کھوئی ہوئی سی تھی۔پچر کا استعجاب ابھی دور نہ ہوا تھا۔آج صبح اس لڑکی کا عالم ہی کچھ اور تھا۔بجائے اس کے کہ وہ ملحقہ کمرے میں جھٹ سے چلی جاتی جہاں اس کی میز لگی تھی وہ باہر کے دفتر میں ٹھہری رہی،اس کے چہرے سے تذبذب کی کیفیت عیاں تھی۔ایک بار وہ چل کر میکسویل کی میز کے اتنا قریب آ گئی کہ وہ اس کی وہاں موجودگی سے باخبر ہوگیا۔وہ شخص جو اس میز پر بیٹھا تھا وہ اب محض نیویارک کا ایک دلال تھا۔غراتے پہیوں اور چراتے اسپرنگوں کے بل پر چلنے والی ایک مشین۔
کیوں کیا بات ہے۔کوئی کام ہے؟ میکسویل نے تیزی سے پوچھا۔اس کی کھلی ڈاک برف کے ڈھیر کی طرح اس کے میز پر پڑی تھی۔اس کی تیز و طرار آنکھیں جن سے کسی قسم کے رویے کا اظہار نہ ہوتا تھا۔ایک بے صبری کے انداز میں اس کے چہرے پر چمکیں۔کچھ نہیں اسٹینو گرافر نے مسکرا کر کہا اور وہاں سے ہٹ گئی۔
''مسٹر پچر''اس نے کلرک سے پوچھا کیا مسٹر میکسویل نے کل رات آپ سے کہا تھا کہ وہ کوئی نیا اسٹینو گرافر رکھنا چاہتے ہیں؟،،
ہاں کہا تھا ''پچر نے جواب دیا ''انہوں نے ایک اسٹینو گرافر کا انتظام کرنے کا حکم دیا تھا۔میں نے کل سہ پہر ملازمت ایجنسی والوں سے کہہ دیا کہ آج صبح امیدوار بھیجیں اب تک پونے دس بجے ہیں اور انٹرویو کے لیے اب تک کسی محترمہ نے اپنی صورت نہیں دکھائی۔اس کا یہ مطلب ہے میں بدستور کام کروں جب تک میری جگہ کوئی اور نہیں آ جاتی ''نوجوان دو شیزہ نے کہا اور اپنی میز پر پہنچ کر اپنی مور پنکھ والی ٹوپی مقررہ جگہ پر لٹکا کر بیٹھ گئی۔
اگر کسی کو نیویارک کے تجارتی بازار کے کسی دلال کو انتہائی مصروفیت کی ساعتوں میں دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تو وہ انسانی نفسیات اور خصائل کے مطالعے میں کبھی کامل نہیں ہوسکتا کسی شاعر نے کہا ہے۔پر لطف زندگی کی مشغول ساعتوں میں ۔لیکن دلال کی زندگی صرف مصروف اور مشغول ہی نہیں ہوتی اس سے کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے۔اس روز تو میکسویل کو سر کجھانے کی فرصت نہیں تھی۔حساب کی ٹکٹکی برابر ٹک ٹک کیے جا رہی تھی اور فیتہ اگلے جارہی تھی۔ٹیلیفون یوں ٹرارہا تھا جیسے اس پر دورہ پڑا ہو۔کام سے آنیوالوں کی بھیڑ لگ گئی جو جنگلے پر سے اپنی اپنی بولیاں بول رہے تھے کسی کے انداز میں حسرت تھی کسی کے انداز میں تیزی کوئی جھنجلایا ہوا تھا۔کوئی تمتمایا ہوا۔ہر کاروں کی دوڑ لگی تھی کوئی خط و ٹیلیگرام لا رہا تھا تو کوئی لے جا رہا تھا۔دفتر کے کلرکوں کی ایسی حالت تھی جیسے طوفان میں گھرے ہوئے جہاز کے ملاحوں کی ہوسکتی ہے۔سٹے کے بازار میں آندھیاں،طوفان،زلزلے سب کچھ آرہے تھے ان کے تھپیڑے اور جھٹکے دلال کے دفتر کے در و دیوار کو بھی ہلا رہے تھے۔میکسویل کبھی اپنی کرسی دیوار کے ساتھ لگاتا تو کبھی ٹیلیفون کی طرف بھاگتا ۔ کام کے اس طومار اور مصروفیت میں یکایک دلال کی نظر ایک سنہری بالوں والی خوبصورت لڑکی پر پڑی،ایک دم سے پچر اس خوبصورت لڑکی سے تعارف کرنے کے لیے حاضرہوئے۔پچر نے کہا یہ صاحبہ ملازمت ایجنسی کی طرف سے تشریف لائی ہیں۔اسٹینو گرافر کی جگہ کے لیے۔
میکسویل کے ہاتھ چٹھیوں کے طومار اور ٹکٹکی کے فیتے میں الجھے ہوئے تھے اس نے تھوڑا سا چونک کر کہا کونسی جگہ کے لیے؟اسٹینو گرافر کی جگہ پچر نے پھر کہا آپ ہی نے تو کل کہا تھا کہ ایجنسی سے کہو ایک اسٹینو گرافر بھیج دو۔میاں پچر تم گھاس کھا گئے ہو ''میکسویل نے کہا''مجھے کیا ضرورت تھی تم سے ایسی بات کہنے کی؟مس لیسلی سال بھر سے کام کر رہی ہے یہاں اور بہت اچھا کام کر رہی ہے جب تک مس لیسلی خود کام نہ چھوڑے ہم اسے نہیں نکالیں گے۔محترمہ ہمارے ہاں کوئی جگہ خالی نہیں ہے پچر میاں ایجنسی والوں سے کہہ دو ہمیں کسی ملازمہ کی ضرورت نہیں۔
محترمہ بھی حیران ہوکر نکل گئی جو انٹرویو کے لیے آئی تھی۔پچر نے ایک ساتھی کلرک سے کہا بڑے میاں کو دیکھا تم نے؟ایسا بھی بھلکڑ کیا ''ادھر بات کی ادھر بھول گیے''
دفتر میں سب مشین کی تیزی سے کام کر رہے تھے ۔دوپہر کے کھانے کا وقت آیا تو کام کی رفتار تھوڑی سست پڑی۔میکسویل اپنی میز کے پاس اس حالت میں کھڑا تھا کہ دونوں ہاتھ چٹھیوں اور تاروں سے بھرے ییں۔فونٹین پین داہینے کان میں اٹکا ہے اور بال بے ترتیبی سے پیشانی پڑے تھے۔ کھڑکی کھلی تھی یکایک اس میں سے ایک بھینی لطیف خوشبو کا بھپکا تیرتا ہوا آیا اور دلال صاحب کے مشام جاں کو معطر کر گیا۔وہ وہیں ٹھٹکے رہے گیے۔کیونکہ یہ خوشبو مس لیسلی کی طرف سے آئی تھی اور کس کی ہوسکتی ہے یہ خوشبو؟اس خوشبو نے خود مس لیسلی کے حسین پیکر کو ان کی چشم تصور کے سامنے لاکھڑا کیا۔روپے پیسے کی دنیا سکڑ کر اتنی سی نامعلوم دھبے کے برابر رہ گئی اور میس لیسلی کچھ دور بھی نہیں تھی۔ ساتھ کے کمرے میں تھی۔بیس قدم کی مسافت پر۔واللہ۔اب موقع ہے میکسویل نے اپنے آپ سے نیم سرگوشی کے عالم میں کہا۔اب میں میس لیسلی سے کہہ دوں۔ میکسویل لپک کر اندورنی کمرے میں پہنچا اور اپنے کو پل بھر میں اسٹینو گرافر کی میز پر کھڑے پایا۔
مس لیسلی نے ایک شیریں تبسم کے ساتھ اوپر نظریں اٹھائی۔اس کے گالوں پر ایک گلابی جھلک پیدا ہوئی۔اس کی آنکھوں میں لطف اور مہربانی کا رنگ تھا۔میکسویل نے
میز پر کہنی ٹیک دی۔وہ اپنے ہاتھوں میں ابھی تک خطوں کا طومار تھامے ہوئے تھے اور قلم ابھی تک کنپٹی پر اٹکا ہوا تھا۔
مس لیسلی:اس نے جلد جلد کہنا شروع کیا میرے پاس ایک دو پل سے زیادہ وقت نہیں ہے۔میں تم سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔میری بیوی بنوگی؟میرے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ تم سے عام طریقے پر محبت کرتا۔لیکن میں تم سے محبت کرتا ضرور ہوں،جلدی بولو ادھر لوگ یونین پیسفک کمپنی کے حصوں والے شور مچا رہے ہیں۔ ناک میں دم کر رکھا ہے۔یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ مس لیسلی بھونچکی رہ گئی وہ بیٹھی بیٹھی یکایک اٹھ کھڑی ہوئی۔تم نہیں سمجھتیں؟ میکسویل نے بے قراری سے کہا۔میں چاہتا ہوں تم مجھ سے شادی کرلو۔میں تم سے محبت کرتا ہوں مس لیسلی میں تم سے یہی کہنا چاہتا تھا،لوگوں کی بھیڑ کم ہوتے ہی میں تمہارے پاس چلا آیا ہوں۔ لوگ مجھے پکار رہے ہیں ۔کوئی ٹیلیفون آیا ہے۔ارے میاں ٹھہرو۔ایک منٹ ٹھہرو مس لیسلی جلدی بتاؤ منظور؟
اسٹینو گرافر مس لیسلی کی صورت دیکھنے لائک تھی پہلے تو وہ حیرانی میں گم دکھائی دی پھر اس کی متعجب آنکھوں سے سے آنسو ڈھلک پڑے ،پھر وہ مسکرادی۔اور اپنا ایک ہاتھ دلال میکسویل کی گردن پر حمایل کرتے ہوے کہا۔اب میں سمجھ گئی''ہاروے میکسویل ''اس دلال کے کاروبار نے تمہارے دماغ کو چکرا دیا ہے۔میں تو ڈر ہی گئی تھی۔پیارے کیا تم اتنی جلدی بھول گیے کہ ہماری شادی اس نکڑ والے گرجا میں کل شام آٹھ بجے ہو بھی گئی تھی۔،،
٭٭٭