غیر ملکی ادب
جب کوئی محبت کرتا ہے تو۔۔۔
تحریر، او ہنری ترجمہ، رومانیہ نور
”جب کوئی اپنے فن سے محبت کرتا ہے تو کوئی بھی کام مشکل نہیں لگتا۔“یہ ہماری تمہید ہے اور اسی سے ہی نتیجہ اخذ کریں گے۔ اور بیک وقت ظاہر کریں گے کہ ہماری تمہید غلط ہے۔ یہ منطق میں ایک نیا اضافہ اور قصہ گوئی میں جو کہ دیوارِ چین سے بھی پرانا فن ہے ایک کارِ نمایاں ہو گا۔
جو لارا بی وسطی مغرب میں رہتا تھا اور تصویر کشی کے فن میں ماہر تھا۔ چھ سال کی عمر میں اس نے قصبے سے گزرتے ہوئے ایک ممتاز شہری کی تصویر بنائی تھی۔ اس کاوش کو فریم کر کے ایک دواخانے میں غیر ہموار قطار میں لٹکا دیا گیا تھا۔ بیس سال کی عمر میں جب وہ نیو یارک روانہ ہوا تو اس کے گلے میں ایک جھولتی ہوئی نکٹائی اور جیب میں قلیل جمع پونجی تھی۔
ڈیلیا کارتھر بچپن سے ہی چھ درجے بلند آہنگ میں ہونہاری سے سرگم گا سکتی تھی۔ وہ جنوبی علاقے میں صنوبروں والے ایک خستہ حال گاؤں میں رہتی تھی۔ اس کے رشتہ داروں نے مل ملا کر اس کے لئے کچھ رقم اکٹھی کی تھی تاکہ وہ شمال میں جا کر اپنی موسیقی کی تعلیم مکمل کر سکے۔ اگرچہ وہ اسے پایہ تکمیل تک پہنچتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے تھے۔۔۔۔ بس یہی ہماری کہانی ہے۔
جو اور ڈیلیا ایک آرٹ ورکشاپ میں ملے جہاں آرٹ اور موسیقی کے بہت سے طلباء جمع تھے۔ وہ مصوری کی تکنیک کیارو سکورو(chiaroscuro)، ویگنر(Wagner)، موسیقی، ریمبرنٹ کے فن(Rembrandt's works)، تصاویر، والڈٹیوفل (Waldteufel) کے کام اور شوپن) (Chopin پر بحث مباحثہ کر رہے تھے۔
جو اور ڈیلیا ایک دوسرے کے گرویدہ ہو گئے۔ اور عرصہ قلیل میں ہی شادی شدہ ہو گئے۔ مذکورہ بالا بات یاد رکھئے کہ ''جب کوئی اپنے فن سے محبت کرتا ہے تو کوئی بھی کام مشکل نہیں لگتا۔''
جو اور ڈیلیا نے ایک فلیٹ میں گھر گر ہستی
شروع کر دی۔ اگرچہ یہ ایک الگ تھلگ، غیر کشادہ اور غیر آرام دہ فلیٹ تھا مگر وہ خوش تھے کیونکہ ان کے پاس ان کا فن اور اک دوجے کا ساتھ تھا۔ اور میرا کسی بھی صاحبِ ثروت نوجوان کو مشورہ ہے کہ جو کچھ بھی تمہارے پاس ہے فروخت کر ڈالو یا کسی مفلس کو دان کر دو۔ زندگی کی ترجیح یہی ہے کہ ایک فلیٹ میں اپنے فن اور اپنی ڈیلیا کے ساتھ زندگی بسر کرو۔
فلیٹ کے باسیوں پر میرا یہ قول صادق آتا تھا۔کیونکہ ان کو یہی حقیقی مسرت حاصل تھی۔ اگر ایک گھرانہ خوش ہے تو وہ گھر کبھی تنگ نہیں ہو سکتا۔بھلے چیزیں ایک دوسرے پر لڑھکتی رہیں۔ اگر چار دیواری تنگ پڑتی ہے تو پڑنے دو، پُر لطف یہ ہے کہ اس کے بیچوں بیچ آپ اپنی ڈیلیا کے ساتھ ہوں گے۔ بصورت دیگر وسیع اور کشادہ گھر تو گولڈن گیٹ کی مانند ہوتے ہیں۔ آپ داخل ہوئے اپنا ہیٹ اور فرغل کھونٹی پر ڈالا اور پالتو کتے کے ہمراہ باہر چل دئیے۔
جو،گریٹ مجسٹر کی پینٹنگ کلاسز لے رہا تھا۔ اس کی شہرت تو آپ جانتے ہی ہیں۔ بھاری فیسیں اور ہلکی تعلیم۔ یہ سرخیاں ہی اسکی اوج شہرت ہیں۔ ڈیلیا روزن سٹاک سے موسیقی سیکھ رہی تھی۔ اس کی شہرت بھی آپ کو معلوم ہی ہے'' پیانو کے پردہ ساز کو بس چھیڑتا ہی ہے۔''
وہ اس وقت تک خوش تھے جب تک ان کے پیسے چلے۔ میں ترش نہیں ہو رہا۔ ان کے مقاصد عظیم اور واضح تھے۔ جو جلد ہی ایک اچھا مصور بننے والا تھا۔اس کی تصاویر اس حد تک خود کو منوا لیتیں کہ عمر رسیدہ معززین اپنی پتلی مونچھوں اور بھاری بٹوؤں کے ساتھ اس کے سٹوڈیو میں خریداری پر اپنا حق جتانے کے لئے دست و گریباں ہوتے۔ڈیلیا بھی ایک مشہور موسیقار بننے والی تھی اور جب وہ آرکسٹرا کی چند خالی سیٹوں اور غیر فروخت شدہ ٹکٹوں کو دیکھتی تو حقارت سے گلا خراب ہونے کا بہانہ کر کے سٹیج پر جانے سے انکار کر دیتی اور نجی ڈرائینگ روم میں بیٹھ کر جھینگے کھاتی۔لیکن میرے خیال میں سب سے بہترین چیز چھوٹے سے فلیٹ میں گھریلو زندگی ہی تھی۔ دن بھر کی پڑھائی کے بعد پر جوش باتیں، گرما گرم عشائیہ، تازہ اور ہلکا پھلکا ناشتہ، عزائم کا تبادلہ خیال اور رات گیارہ بجے پنیر اور زیتون بھرے سینڈوچ کھانا۔۔۔
بد ذوق لوگ کہتے ہیں کہ کچھ ہی عرصہ میں فن نڈھال کر دیتا ہے۔ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔ اگر کوئی نڈھال نہ بھی ہو تو سب جانا شروع ہو جاتا ہے اور کچھ پلے نہیں رہتا۔
مجسٹر اور روزن سٹاک کو فیس ادائیگی کے لئے رقم کم پڑ رہی تھی۔ ''جب کوئی اپنے فن سے محبت کرتا ہے تو کوئی بھی مشکل آڑے نہیں آتی''۔ چناچہ ڈیلیا نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی پڑھائی جاری رکھنے کے لئے موسیقی کی کلاسیں دے گی۔ دو تین دن وہ طلباء کو قائل کرنے کے لئے باہر گئی۔ ایک روز وہ بہت خوش و خرم واپس آئی۔'' پیارے جو! مجھے شاگرد مل گئی ہے۔'' اس نے چہک کر بتایا۔'' وہ بہت اچھے لوگ ہیں۔ وہ ایک جنرل کی بیٹی ہے۔ جنرل اے بی پنکنی کی بیٹی۔ وہ لوگ اکہترویں گلی میں رہتے ہیں۔ کیا شاندار گھر ہے ان کا! تمھیں صدر دروازہ لازماً دیکھنا چاہئے۔ میرا خیال ہے کہ تمھیں یہ بازنطینی طرز کا لگے گا۔ اور اندرونی سجاوٹ۔۔ اف جو! یہ سب کچھ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ''
'' میری شاگرد جنرل کی بیٹی کلیمن ٹینا ہے۔ میں اسے بہت پسند کرتی ہوں۔ وہ ہمیشہ نفیس اور عمدہ سفید لباس میں ہوتی ہے۔ اس کے انداز و اطوار بہت سادہ اور دل موہ لینے والے ہیں۔ اس کی عمر صرف اٹھارہ سال ہے۔ مجھے ہفتے میں تین اسباق دینے ہوں گے۔ اور ذرا تصور کرو جو!''ایک سبق کے پانچ ڈالر ملیں گے۔ مجھے یہ بالکل غیر مناسب نہیں لگتا کہ جب مجھے دو تین مزید شاگرد مل جائیں تو میں روزن سٹاک میں اپنی پڑھائی پھر سے جاری رکھ سکوں گی۔
میری جان! اب چہرے سے یہ تیوریاں ہٹاؤ اور آؤ مزے کا عشائیہ کرتے ہیں۔''
'' تمہاری حد تک تو یہ بات ِٹھیک ہے ڈِیلی'' جو نے ایک کندہ کاری والے چھری کانٹے سے مٹر کے کنستر پر دھاوا بولتے ہوئے کہا۔'' لیکن میرے متعلق کیا خیال ہے؟ کیا تم یہ سوچتی ہو کہ تمھیں روزی روٹی کے چکر میں پھنسا کر میں فن کی بلندیوں کو چھونے میں راحت محسوس کروں گا؟ ---میں بینوینوتو چیلینی کا جانشین تو نہیں لیکن امید ہے کہ پتھریلا فرش لگا کر یا کوئی اخبار وغیرہ بیچ کر میں بھی ایک دو ڈالر گھر لا سکتا ہوں۔ ''ڈیلیا اٹھی اور آکر اس کے گلے میں حمائل ہو گئی'' جو! میری جان احمق نہ بنو۔ تمھیں صرف اپنی پڑھائی پر دھیان دینا چاہئیے۔ایسا نہیں ہے کہ میں نے اپنی
موسیقی کی تعلیم چھوڑ دی ہے اور کہیں اور کام پر چلی گئی ہوں۔ سکھانے کے دوران انسان خود بھی تو سیکھتا ہے۔ میں ہمیشہ اپنی موسیقی کے ساتھ رہتی ہوں۔ اور ہم پندرہ ڈالر میں کسی بھی ارب پتی کی طرح خوش و خرم زندگی گزار سکتے ہیں۔ تمھیں مسٹر مجسٹر کو چھوڑنے کا خیال بھی دل میں نہیں لانا چاہئیے''''چلو ٹھیک ہے۔'' جو نے سبزی کی نیلی کنگری دار طشتری کو اپنی جانب کھسکاتے ہوئے کہا۔'' لیکن مجھے تمہارا سبق دینا پسند نہیں۔ یہ کوئی فن تو نہ ہوا۔ مگر تمہیں تو ہر بات میں مجھ پر بازی لے جانا پسند ہے تو جو جی چاہے کرو۔''
'' جب کوئی اپنے فن سے محبت کرتا ہے تو اسے کوئی کام بھی مشکل نہیں لگتا'' ڈیلیا نے جتایا۔
'' میں نے جو سکیچ پارک میں بنایا تھا مسٹرمجسٹر نے اس کے آسمان کی بہت تعریف کی ہے۔ '' جو نے بتایا'' ان میں سے دو تصاویر کو ٹنکلز ونڈو میں لٹکانے کی اجازت مل گئی ہے۔ اگر کوئی مناسب دام دینے والا گاہک مل جائے تو میں انھیں فروخت کر سکتا ہوں۔''''مجھے یقین ہے کہ ایسا ہی ہو گا۔'' ڈیلیا نے شیریں انداز میں کہا۔ '' اب ہمیں جنرل پنکنی اور اس بھنے مرغ کا شکر گزار ہونا چاہئے۔''
آئندہ پورے ہفتے کے دوران لارا بی کو جلدی ناشتہ کرنا پڑا تھا۔ جو صبح کے تاثرات لئے ہوئے ان سکیچز کے متعلق بہت پر جوش تھا جو وہ سنٹرل پارک میں بنا رہا تھا۔ ڈیلیا لاڈ بھرے انداز میں ایک بوسے اور تعریفی کلمات کے ساتھ سات بجے اسے ناشتہ باندھ کر دے دیتی۔ فن ایک مصروف رکھنے والی محبوبہ ہے۔ اس لئے'جو' اکثر شام سات بجے تک لوٹتا تھا۔
ہفتے کے اختتام پر ڈیلیا نے پر مسرت اور فاتحانہ مگر ناتواں انداز میں پانچ پانچ ڈالر کے تین نوٹ 10*8 فٹ کے کمرے میں 10*8 انچ کے وسطی میز پر دھر دئیے۔
کبھی کبھار ڈیلیا تھکاوٹ زدہ انداز میں کہتی، '' کلیمن ٹینا میرا امتحان لیتی ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ وہ کافی مشق نہیں کرتی۔ مجھے ایک ہی بات اسے بار بار بتانی پڑتی ہے۔ اور یہ کہ وہ ہمیشہ سفید لباس میں ملبوس ہوتی ہے۔ یہ بات بہت اکتاہٹ آمیز ہے۔ مگر جنرل پنکنی ایک اچھا بزرگ آدمی ہے۔ وہ ایک رنڈوا شخص ہے۔ میری خواہش ہے کہ تم اسے جانتے ہوتے۔ وہ
اکثر اس وقت آتے ہیں جب میں کلیمن ٹینا کے ساتھ پیانو پر ہوتی ہوں۔ اکثر کھڑے ہو کر اپنی سفید داڑھی کھجلاتے ہوئے سروں اور تاروں کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ وہ کیسے کام کرتی ہیں۔ جو! میری خواہش ہے کہ تم نے بیٹھک میں دیواروں پر تختے کے حاشیے دیکھے ہوتے اور استرا خان کے بنے ہوئے کپڑے کے پردے اور کلیمن ٹینا کی ہلکی سی کھانسی کی آواز تو بہت ہی مضحکہ خیز ہے۔ میرا خیال ہے وہ جتنی نازک دکھائی دیتی ہے اس سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ اف! میری انسیت اس سے بہت زیادہ بڑھ رہی ہے۔ وہ ایک اچھے اور اعلیٰ گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ جنرل پنکنی کا بھائی ایک مرتبہ بولیویا کا وزیر بھی رہ چکا ہے۔''اور تب جو نے مونٹی کرسٹو کے انداز میں دس، پانچ، دو اور ایک ڈالر کے نوٹ ڈیلیا کی کمائی کے برابر رکھ دئیے۔ '' وہ مخروطی مینار والی واٹر کلر پینٹنگ بک گئی ہے۔ پیوریا کے ایک باشندے نے اسے خرید لیاہے۔ '' جو پُر جوش انداز میں گویا ہوا۔ میرے ساتھ مذاق مت کرو۔ پیوریا کا تو نہیں ہوگا۔ ڈیلیا نے کہا۔'' ڈیلیا! سچ میں میری خواہش تھی کہ تم اونی مفلر لپیٹے اس موٹے شخص کو دیکھ سکتی۔ اس نے سکیچ '' ٹنکلز ونڈو'' (Tinkle's window)میں لٹکا ہوا دیکھا۔ پہلے پہل تو وہ اسے کوئی پن چکی سمجھا تھا۔ بہر حال اس نے اسے خرید لیا۔ بلکہ اس نے لیک اوانا کے مال گودام کا ایک اور سکیچ بنانے کا آرڈر بھی دیا ہے جسے وہ واپسی پر ساتھ لے کر جائے گا۔''
'' موسیقی کے اسباق کی طرح میرا خیال ہے اس میں بھی فن بدستور موجود ہے۔ ''
'' مجھے خوشی ہے کہ تم اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہو۔ '' ڈیلیا نے خوشدلی سے کہا۔ ''تم صرف جیتنے کے پابند ہو جانِ من! ''
33”ڈالر! ہمارے پاس خرچ کرنے کے لئے پہلے کبھی اتنی زیادہ رقم نہیں آئی۔ آج شام کے کھانے پر تو ہم کستورا مچھلی لیں گے''۔ ''گائے کی ران اور مشرومز بھی۔'' جو نے اضافہ کیا۔
اگلی اتوار کی شام جو پہلے گھر پہنچ گیا۔ اس نے کمرے کی میز پر اٹھارہ ڈالر پھیلا دئیے اور اپنے ہاتھوں پر سے دھبے دھو ڈالے۔ آدھے گھنٹے بعد ڈیلیا بھی پہنچ گئی۔ اس کا دایاں ہاتھ بے ڈھنگ طریقے سے کی ہوئی پٹیوں میں لپٹا ہوا تھا۔ '' یہ کیا ہوا؟'' معمول کے مطابق ملنے کے بعد جو نے استفسار کیا۔
ڈیلیا مسکرائی مگر اس میں خوشی کا عنصر مفقود تھا۔ ڈیلیا نے وضاحت کی۔'' آج کے سبق کے بعد کلیمن ٹینا نے ویلش خرگوشوں کی دعوت کی پیشکش کی۔ وہ بہت عجیب لڑکی ہے۔ سہ پہر کے پانچ بجے ویلش خرگوشوں کی بھلا کیسی دعوت۔ جنرل بھی وہیں موجود تھا۔ جو!تمھیں اس کو کھانا پیش کرتے ہوئے دیکھنا چاہئے تھا۔ یوں پیش پیش رہتی ہے جیسے کہ گھر میں کوئی ملازم نہ ہو۔ میں جانتی ہوں کلیمن ٹینا کی صحت اچھی نہیں۔ وہ بہت مضطرب رہتی ہے۔ خرگوش پیش کرتے ہوئے اس نے ابلتے ہوئے شوربے کی ایک بڑی مقدار میرے ہاتھ اور کلائی پر گرا دی۔ اس سے مجھے شدید تکلیف ہوئی جو! وہ پیاری لڑکی بہت ہی معذرت خواہ تھی۔ لیکن جنرل پنکنی۔ وہ بزرگ آدمی تو آپے سے ہی باہر ہو گیا۔ جو! وہ دوڑ کر نیچے گیا اور کسی ملازم کو بلا لایا، اسے پٹی کا سامان لانے دواخانے بھیجا۔ اب زیادہ تکلیف نہیں ہے۔''یہ کیا ہے؟'' جو نے اس کا ہاتھ نرمی سے پکڑ کر پٹی کے نیچے سفید پیڈ کے متعلق پوچھا۔ '' یہ روئی کا نرم پھاہا ہے۔ اس پر تیل لگا ہوا ہے۔ اوہ جو! تم نے کوئی نیا سکیچ فروخت کیا ہے؟'' اس نے میز پر پڑی رقم دیکھ لی تھی۔ ''کیا میں نے ایسا کیا؟ یہ تو پیوریا کے شخص سے ہی پوچھو۔ اس نے اپنا ڈپو کا سکیچ آج وصول کر لیا۔ اور اگرچہ یقینی نہیں مگر میرا خیال ہے کہ وہ مزید ایک پارک کا منظر بنوانا چاہتا ہے۔ ڈِیلی! دن کا بھلا کیا وقت تھا جب تم نے اپنا ہاتھ جلایا؟''
'' میرا خیال ہے پانچ بجے تھے۔'' ڈیلیا نے رنجیدہ انداز میں جواب دیا۔ '' استری میرا مطلب ہے کہ خرگوش ابھی ابھی آگ سے اتارا تھا۔ جو کاش تم نے جنرل پنکنی کی حالت دیکھی ہوتی۔ ''''ڈِیلی کچھ دیر کے لئے یہاں بیٹھو'' جو نے کہا اور ڈیلیا کو کاؤچ پر کھینچ لیا۔ وہ اس کے قریب بیٹھ گیا اور اپنے بازوؤں سے اسکے کندھے تھام لئے۔
'' تم گزشتہ دو ہفتوں سے کیا کرتی رہی ہو ڈیلیا؟'' جو نے دریافت کیا۔ وہ چند لمحے دلیری سے ضدی مگر محبت پاش نظروں سے جو کو تکتی رہی۔ اس نے مبہم انداز میں جنرل پنکنی کی ایک دو باتیں بڑ بڑائیں۔ آخر کار ڈیلیا نے سر جھکا لیا۔ اس کے منہ سے سچ اور آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ ''مجھے کوئی شاگرد نہیں ملی تھی۔'' اس نے اعتراف کیا۔ ''میرے لئے یہ قابلِ برداشت نہیں تھا کہ تم پڑھائی چھوڑ دو۔ چوبیسویں گلی کی ایک بڑی
لانڈری میں مجھے کپڑے استری کرنے کا کام مل گیا تھا۔ میں نے جنرل پنکنی اور کلیمن ٹینا کا کردار تراشنے کی بھر پور کوشش کی۔ کیا ایسا نہیں ہے جو؟ اور جب آج
ایک لڑکی نے گرم استری میرے ہاتھ پر لگا دی تو تمام راستے میں ویلش خرگوشوں کی کہانی گھڑتی آئی۔ تم ناراض تو نہیں ہو جو؟''''کیا تم ناراض ہو؟ اگر مجھے کام نہ ملتا تو تم اس پیوریا کے رہنے والے آدمی کے سکیچ کیسے بناتے۔'''' اس کا تعلق پیوریا سے نہیں تھا۔ '' جو نے آہستگی سے کہا۔ ''بہر حال اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کا تعلق کہاں سے تھا۔ جو تم کتنے ہوشیار ہو۔ مجھے ایک بوسہ دو اور بتاؤ کہ کس بات نے تمھیں شک میں ڈالا کہ میں کلیمن ٹینا کو موسیقی کی تعلیم نہیں دے رہی تھی؟''
''میں آج رات تک اس بات کے متعلق نہیں جانتاتھا۔ اور مجھے تب بھی پتا نہیں تھا جب اس سہ پہر میں نے انجن روم سے یہ روئی کا پھاہا اور تیل اوپر ایک لڑکی کے لئے بھجوایا تھا جس کا ہاتھ استری سے جل گیا تھا۔ میں اسی لانڈری کی بھٹی میں پچھلے دو ہفتوں سے آگ جھونکتا رہا ہوں۔''
''اس کا مطلب ہے کہ تم پینٹنگ نہیں کرتے رہے ہو۔۔''
''میرا پیوریا کا گاہک اور تمہارا جنرل پنکنی ایک ہی فن کی پیداوار ہیں۔ مگر تم اسے مصوری یا موسیقی کا فن نہیں گردان سکتی۔''
تب دونوں نے بلند قہقہہ لگایا اور جو پھر سے شروع ہو گیا۔ '' جب کوئی اپنے فن سے محبت کرتا ہے تو کوئی بھی کام۔۔۔'' مگر ڈیلیا نے اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر اسے خاموش کروا دیا اور بولی '' نہیں، بلکہ جب کوئی محبت کرتا ہے تو۔۔۔'
کوئی بھی مانتا نہ تھا میرے ہنر کو
خودی کے زور پہ منوایا گیا ہوں
امیرِ شہر سے جرمِ محبت پر
میں دیواروں میں چنوایا گیا ہوں
جامِ جم سے میرا جامِ سفال اچھا ہے
ٹوٹا ہوں تو کوزہ گر سے بنوایا گیا ہوں
جرم ثابت نہ کر سکے میرے دشمن جب
طالع آزما منصف سے مروایا گیا ہوں
زندہ گاڑنے والے سے پوچھا جائے گا اک دن
بتا وہ کونسا تھا جرم کہ دفنایا گیا ہوں
یزیدِ وقت اپنے جرم کو کیسے چھپائے گا
ہے وہ راز یہ جو نوک پہ سنوایا گیا ہوں
قسم میری سچائی کی زمانہ خود اٹھائے گا
نہیں پیتا تھا میں پیالہ، پلوایا گیا ہوں
ڈاکٹر اکرم رانا