دلہنوں كی بے غيرتی

مصنف : سعديہ كامران

سلسلہ : معاشرت

شمارہ : اگست 2024

معاشرت

دلہنوں كی بے غيرتی

سعديہ كامران

میں کئی بار شادی بیاہ کے فنکشنز پر دلہنوں کی ایبنورمیلٹی پر لکھ چکی ہوں۔ آج پھر اس مدعے پر انگشت شہادت کو تکلیف دے رہی ہوں۔ ممکن ہے کچھ سے بہت زیادہ تلخ لگے۔ لیکن کیا کروں مجھ سے نہیں ہوتا برداشت۔ وجہ یہ ہے کہ آج کل شادیوں میں دلہنیں بیغیرتی بیشرمی بدتمیزی کی انتہا پر پہنچی ہوئی ہیں۔ ایک تو لو میریج کریں گی پھر دنیا کو جتاتی بھی پھریں گی۔ کریں بالکل کریں میں نے بھی لو پلیس ارینج میریج ہی کی ہے الحمدللہ۔ لیکن ان بیشرموں کا واضح پتا چل رہا ہوتا ہے کہ یہ شادی سے قبل ہی شدہ ہوگئی ہیں جب ہی تو وہ کشمکش وہ انجانا احساس وہ کسسک وہ شرماہٹ وہ انتظار وہ مسکان کچھ گھبراہٹ دوردور تک نہیں دکھتی۔پھر سہلیؤں اور کزنز کی شادیوں میں ناچ ناچ کر اپنا ہنر دیکھا دیکھا کر ان لڑکیوں کی سب جھجک الگ ختم ہوجاتی ہے ۔سمجھ سے باہر ہے یہ لڑکیاں اپنے شوہر کو خود میں دلی طور پر مائل رکھنے میں کیسے سکھشم ہوتی ہونگی۔یاد کریں ہمیشہ سے دلہن کا تصور مکمل سجی اور شرمائی گھبرائی سی لڑکی کا ہی ہے ۔ جو گھٹری بنی جارہی ہو۔ شرمائی لجائی گھبرائی گلنار سی پرامید کچھ کنفیؤز سی ہو۔ لیکن بعض خاندان کی بیشرموں کو شرم حیا غیرت بھی نہیں آتی کہ باپ بھائی نانا دادا بہنوئی چاچا ماموں تایا خالو پھوپھا سب ہیں۔ کیا سوچیں گے۔ پھر سیکڑوں رشتے دار محلے والے تو دوست احباب وغیرہ سب کیا سوچیں گے کہ کیسی تیز طرار حرافہ لڑکی ہے ۔ یقیناً گل کھلائے بیٹھی ہوگی جب ہی تو اتنی بےجھجک ہے۔ لیکن یہ سب سسرالیؤں کو مٹھی میں بند کرنے کی فراق میں ہوتی ہیں اسی لئے جو جو حرافہ پنا کرسکتی ہیں کرکے ہی چھوڑتی ہیں اور والدین کو تو ہمت نہیں ہوا کرتی کچھ کہنے کی کہ منہ پھٹ اور بدتمیز ہی اتنی ہوچکی ہوتی ہیں ۔اﷲ کی قسم اب ضرورت ہے انتہائی چڑیل اور ڈائین قسم کی ساس کی جو طعنے مار مار کر کلیجہ چھلنی کردے کہ کیوں ری کلموئی ۔ تیرے میں تو رتی برابر جھجک نہیں۔ جیسی کہ ان سب چیزوں کی عادی ہے۔ کیا ابا مجرا کرواتا تھا تیرا یا اپنے یاروں کے سامنے مجرا کرتی رہتی تھی۔ مطلب اسی طرح کی گالیاں دے کر خوب زلیل کرے کیونکہ لٹرلی اب اسی کی ضرورت ہے۔ ایکچولی یہ سب بیشرم لڑکیاں فلموں ڈراموں سے متاثر ہوتی ہیں ان ہی سے انکی تربیت ہوئی ہوتی ہے تب ہی فینٹیسی میں جیتی ہیں۔ پھر اچانک ابا کے پاس پیسہ آگیا ہوتا ہے اور یہ لوگ کم و بیش پندرہ بیس سال سے ہی پیسے والے ہوتے ہیں تو مرے جارہے ہوتے ہیں کہ بتادیں کہ ہم بڑے " مااڈرن " ہیں ۔

بخدا ہم لوگ آج سے تیس پینتیس سال قبل ایسی شادیاں جب دیکھتے تھے یعنی اس وقت کافی چھوٹے تھے تو امی ابو کہتے تھے کہ ظاہر ہے سمگلر سب ہیں ایسے خاندان کی لڑکیاں لڑکے ایسے ہی آوارہ نکلیں گے۔اب بڑے ہوکر جب یاد آیا کہ فلانی کی شادی میں گئے تھے کیسے بیہودے تھے وہ لوگ تو واقعی وہ لوگ حرام خور یعنی سمگلر ہی ہوا کرتے تھے۔

اچھا ایک بات کلیئر کردوں کہ میں شادی کو شادی کی طرح ہی کرنے کے حق میں ہوں۔ ہر چیز کا اپنا وقت ہوتا ہے ۔ عبادت صدقہ خیرات غریبوں کی مدد وغیرہ وغیرہ وغیرہ جو کہ کرنا ہی ہے۔ لیکن شادی شادی ہو میت کا گھر نہیں یا ایسا نہ لگے کہ لڑکی بوجھ تھی پھینک دیا یا بھگاکر لے آئے ہیں۔ ہمارے خاندان میں بھی شادی بیاہ پر بہت پیسہ خرچ کرتے ہیں لیکن میں نے بخدا کسی لڑکی یا لڑکے کو بیغیرتی ناچ نچنیا کرتے نہیں دیکھا۔

لیکن ابھی اس سال یعنی جنوری کی بات بتارہی ہوں ہمارے جاننے والوں کی سب سے چھوٹی بیٹی کی شادی تھی ۔ وہ بھی ماشاءﷲ شدید پیسے والے ہیں۔ انکے یہاں مہندی مایوں کی تقریب میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا تھا۔ لٹرلی خوب ناچ گانا اور بدتمیزی اچانک ہی شروع ہوگئی۔ سب ہی لڑکیاں گھاگرا چولی پہنی اور سلیولیس اور ڈیپ بیک میں تھیں۔ پتا نہیں اچانک سب کا دماغ ہی خراب ہوگیا کہ آخری شادی ہے تو خوب ناچ گانا انجوائے کرو۔ مطلب ﷲ کی قسم ایسا لگا کہ ان کے گھر جیسے حرام مال نے جگہ بنالی ہے۔ یقین کریں مجھ سمیت سب ہی لوگوں نے اس مایوں مہندی کا بائیکوٹ کیا اور وہاں سے 95% لوگ لڑکی کے سسرالی سمیت اٹھ گئے ۔ سارا کھانا انکو غریبوں میں تقسیم کرنا پڑا۔ خوب باتیں ہوئی۔ لڑکے والے ہتھے سے اکھڑ گئے کہ لڑکی کیا ٹک ٹوکر وغیرہ ہے یا ناچنے گانے والا خاندان ہے کیا؟ خیر تیسرے دن سب لوگ اکھٹے ہوئے اور لڑکی اور انکی باقی کی بیٹیوں کو خوب سنایا گیا۔ خیر معافی تلافی ہوئی۔ لڑکے والوں کو میں نے بھی سمجھایا اور رشتہ ٹوٹنے سے بچا۔لیکن ہمیشہ کا سبق ہوگیا کہ خاندان اور میرے معاشرے کے باقی لڑکیوں اور لڑکوں کا دماغ ٹھکانے آگیا کہ ہمارے یہاں غیرت باقی ہے اس لئے ہماری بیغیرتی نہیں چلے گی۔ ورنہ یہ شادی اتنی گھٹیا مثال بننے جارہی تھی کہ الامان الاحفیظ ۔ یقین کریں ہمیں تو اپنی بچیؤں کی فکر لگ گئی تھی ( جب کہ ہم بچیؤں کو لیکر ہی نہیں گئے تھے ) کہ باہر کے لوگوں کے لئے تو ہم یہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں کہ یہ تو ہیں ہی غیرمسلم یا فلم ٹی وی والے نچنیا بیغیرت لوگ ۔ اور اپنے پاکستانی ایسا کریں تو معلوم ہی ہے کہ اچانک پیسہ آیا ہے جو کہ سنبھل نہیں رہا یا حرام کی آمیزش ہے یا موبائیلیا اماں نے بیٹی کی تربیت نہیں کی۔ وقت رہتے دو جوتے نہیں لگائے ۔ لیکن یہاں تو گھر کی ہی بات ہوگئی تھی۔حالانکہ وہ لوگ بڑے اچھے ہیں شرفاء پرچھے پڑھے لکھے اور دین دار بھی ہیں اور نسلی دولت مند بھی ہیں ماشاءﷲ۔لیکن ایسا زمانہ آگیا ہے کہ ﷲ رب العزت کی طرف سے یہ ایک زبردست دھچکا تھا جو ان شاءﷲ اس نسل اور انکی اولاد تک تو اسکا اثر ان شاءﷲ ان شاءﷲ سلامت رہے گا ہی۔ میرا لٹرلی مشورہ ہے ایسی کیسی بھی شادی میں جائیں جہاں دلہن بیغیرت کی طرح طوائف بنی مجرا کررہی ہو تو ایک سیکنڈ لگائے بغیر اٹھ جائیں اور اس طرح کی باتوں کو اچھی طرح کنڈیم کریں۔ بلکہ ہلکا سا طنز بھی مار آیا کریں۔اور ہوسکے تو اس نچنیا کلموئی دلہن کو ہی کان میں زلیل کردیں کہ بہن مانا شدہ ہوگئی ہو لیکن ابھی تو شادی ہورہی ہے آرام سے بیٹھ جاؤ۔اور ہاں اننت امبانی کی شادی کا پیچھا چھوڑ دیں کہ ایک تو وہ لوگ ک/افر ہیں ساتھ ہی انکا تو کلچر اور مذہب ہی ناچنے گانے والا قسم کا بتایا جاتا ہے تو ہمارا ان سے کیا لینا دینا۔

اپنی شادی پر برائیڈل شاور مہندی مایوں نکاح شادی ولیمہ چوتھی سب کریں لیکن ایک تو مردانہ اور زنانہ پردے داری کرلیں پھر اسمیں جو گھنگرو توڑنے ہیں توڑ لیں ۔ لیکن دلہن اپنی کھال میں رہے۔ اپنا فنکشن اور سب کو دیکھ کر انجوائے کرے اور اندر ہی اندر مستقبل کے خواب بنیں اور خوب خوش رہے۔ نہ کہ نچنیا بنی نظر لگواتی پھرے ۔ اور ہاں ایک اور بات ویڈیو بنوانے کے لئے خواتین مووی میکر اور فوٹو گرافر کا ہی انتخاب کیا کریں۔ اور جو چیییپک چیییپک کے تصویریں مروانی مطلب کھینچوانی ہے وہ کمرے میں کھینچوالیں یوں سب کے سامنے چھیچوری حرکتیں نہ کیا کریں۔ زہر الگ لگتی ہیں اور نظر الگ لگواتی ہیں۔ اور ہاں جو دلہن کے ساتھ سیلون جایا کرے وہ ایک نظر دلہنیا کو دیکھ لیا کرے کہ دوپٹہ ماسی کی طرح سر پر رکھ کر سارا پیچھے تو نہیں ڈالا ہوا۔ اگر ایسا ہو تو سیلون والی پالر والی یا پولر والی جو بھی ہو اسکو جھاڑ دیا کریں کہ یہ کیا بکرے والی یا ماسی کی طرح دوپٹہ اڑھادیا ہے۔ تمیز سے اوڑھاؤ۔ ایک سائڈ پر کور کرو بھلے دوسری طرف سے ایک ہاتھ میں دے کر شیپ کٹس اینڈ کروو شو کرو۔ لیکن موٹی بھدی استری پھیری جیسی تیسی ہو بس دوپٹہ ماسی والا اوڑھا کر ستیاناس مارنا فرض ہے۔