مسئلہ رضاعت اور رضاعت کبیر

مصنف : قاری محمد حنیف ڈار

سلسلہ : فہم حدیث

شمارہ : فروری 2024

حديث

مسئلہ رضاعت اور رضاعت کبیر

حنيف ڈار

رضاعت کے بارے میں قرآن کریم کا صاف ستھرا موقف آپ کے سامنے ہے، اب چلتے ہیں روایات کی طرف ، جہاں آپ کو ہر نامعقول بات ملے گی-ہر ناممکن بھی ممکن نظر آئے گا، ان کے نشتر سے نہ قرآن بچے گانہ سنت -روایات کی منڈی میں سب سے اعلی ریٹ سب سے اعلی سند کا تھا، جو روایات کو مارکیٹ میں لاتے تھے وہ جانتے تھے کہ حدیث میں برانڈڈ سورس کونسا ہے، لہذا قرآن پر وار کرنے والی تمام روایات آپ کو ام المومنین سیدہ عائشہ علیہا السلام ، عمر فاروق رضی اللہ عنہ، ابو موسی الاشعری ، عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ کے نام سے ملیں گی-یاد رکھیں محدثین کی ساری دوڑ راوی کا راوی سے ملاپ ثابت کرنا ہوتا ہے، فلاں نے فلاں سے سنا تھا، فلاں نے فلاں سے سنا ، اس نے اس سے سنا ،، جب سننا مکمل کر لیا تو پھر متن میں جو بھی نامعقول اور ناممکن ہو، کوئی اس کی طرف توجہ نہیں دیتا تھا، نہ آج دیتا ہے- اپنے اسلاف کی محنت ان کو اللہ کی کتاب سے زیادہ عزیز تر ہے، عیسی علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں مگر تورات کا ایک حرف نہیں ٹل سکتا، یہاں تو قرآن میں مصنوعی آیات شامل کی جاتی ہیں اور کئی آیات غائب کر دی جاتی ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں -

حضرت عائشہ سے منسوب ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ رضاعت کے بارے میں قرآن میں پہلے دس بار یا دس گھونٹ پر حرمت کی آیت نازل ہوئی تھی، جو پانچ گھونٹ یا پانچ بار والی آیت کے ساتھ منسوخ ہو گئی-  جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو قرآن میں پانچ گھونٹ یا پانچ بار کی رضاعت پر حرمت کی آیات پڑھی جا رہی تھیں - تعجب کی بات ہے کہ قرآن میں کون پڑھ رہا تھا، کہاں لکھی گئی تھیں اور کس نے حفظ کی تھیں ؟

لحديث عائشة قالت : كان فيما أنزل الله عشر رضعات معلومات يحرمن ، ثم نسخن بخمس معلومات ، وتوفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهن مما يقرأ من القرآن . مسلم قرآن میں گھسانے کے لئے جو بھی جعلی جعلی آیات بنائی گئیں ان کے الفاظ ہوں یا جملے کا بست و بند ،، دونوں پکار پکار کر کہتے ہیں کہ  اللہ کا کلام تو بہت اعلی و ارفع ہے، یہ کسی عربی کا کلام بھی نہیں ہو سكتا-مثال کے طور پر یہ جملہ دیکھ لیجئے ،، "عشر رضعات معلومات يحرمن" قرآن نے جہاں بھی معلومات کا لفظ استعمال فرمایا ہے وہ فی الواقعی سارے عرب کے لئے معلوم تھے ،، الحج اشھر معلومات ،، حج کے معلوم مہینے ہیں ،، اور شوال سے یہ شروع ہو جاتے تھے،، واذکرو اللہ فی ایام معلومات ،، یہ ذی الحج کے دس سے لے کر تیرہ تک دن تھے ،، رضاعت کے ساتھ معلومات کا کیا تعلق ہے ؟ دس معلوم چوسے ، یا دس معلوم گھونٹ ،، پھر فرمایا کہ پانچ معلومات پر بھی رضاعت لاگو ہو جائے گی- جب دیکھا کہ قرآن کی تفصیل کے سامنے بات نہیں بنے گی، تو اس جملے کو باقاعدہ منزل من اللہ قرآن کہہ کر پیش کر دیا ،، مگر ایسا قرآن جس کی نہ کسی نے جماعت میں تلاوت سنی ، نہ عرضہ اخیرہ میں پیش کی گئی ،، نہ قرآن جمع کرنے والوں نے جمع کی ، نہ حفظ کرنے والوں نے حفظ کی -نامعلوم وحی جو بکری کھا گئی ،، ہم رسول اللہ ﷺ کی تجھیز و تدفین میں لگے ہوئے تھے کہ بکری یہ آیتیں کھا گئ سنگسار والی آیت بھی کھا گئی اور ناسخ و منسوخ پانچ چوسے اور دس چوسے والی بھی بکری کھا گئی ،، جس قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالی نے لیا تھا ، حضرت عائشہ کی بکری نے وہ حفاظت کا دعوی اٹھا کر پھینک دیا - پھر کہتے ہیں کہ شیعہ قرآن کی تکمیل کے قائل نہیں ،، اھلسنت کب قرآن کی تکمیل کے قائل ہیں ؟ تو اب گمشدہ قرآن سے رضاعت ثابت کی جاتی ہے ، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے اپنے نبی پر وحی کے طور پر جو کچھ بھی نازل ہوا اس کا ایک ایک حرف اس قرآن میں موجود ہے، نہ اس میں سے کچھ گم ہوا ہے، اور نہ ہی کوئی اس میں کچھ داخل کر سکتا ہے، کہتے ہیں تلاوت منسوخ ہو گئ ہے حکم باقی ہے، یہ عقل سے بالاتر دعوی ہے - جب حکم باقی ہے تو تلاوت کی منسوخی کی حکمت ؟ اور جب تلاوت منسوخ ہو گئی تو حکم باقی رکھنے کی دلیل ؟

رضاعت کبیر ،،یعنی داڑھی مونچھ والے بالغ انسان کو دودھ پلا کر محرم بنانا -حضرت سالم مولی ابی حذیفہؓ آزاد کردہ غلام تھے-ابوحذیفہؓ کے گھر میں پلے بڑھے مگر اب یہ کڑیل جوان ہو چکے تھے اور ابوحذیفہ ان کے گھر میں بلاتکلف آنے جانے کو ناپسند کرتے تھے مگر مروت سے کہتے کچھ نہیں تھے، ان کی زوجہ سھلہ نے رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ پوچھا کہ سالم ہمارے گھر میں آتا جاتا ہے، مجھے ابوحذیفہ کے چہرے سے پتہ لگتا ہے کہ وہ سالم کے اس آنے کو ناپسند کرتا ہے- رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ پانچ چوسے اسے پلا دو تو تمہارا محرم ہو جائے گا اور ابوحذیفہ کا اعتراض بھی ختم ہو جائے گا، اس پر سھلہ نے کہا کہ اس کی تو داڑھی مونچھ نکلی ہوئی ہے؟ رسول اللہ ﷺ ہنس پڑے اور فرمایا کہ مجھے پتہ ہے اس کی داڑھی مونچھ نکلی آئی ہے، اس کے بعد سھلہ نے اس کو پانچ چوسے پلا کر محرم بنا لیا-

روایت کے متن پر اعتراض -ایک ٹین ایجر کے سامنے ایک خاندانی عورت اپنے آپ کو ننگا کیسے کر سکتی ہے؟ اپنا ستر اس کے سامنے کیسے کھول سکتی ہے ؟ پھر اپنا دودھ اس کے منہ میں رکھ کر چوسے کیسے لگوا سکتی ہے ؟ دودھ تو دوہ کر بھی پلایا جا سکتا تھا مگر حکم دودھ پلانے کا نہیں کہ برتن میں نکال کر پلا دو ،، پانچ چوسے گن کر بتایا جا رہا ہے،پھر اس روایت میں اس بات کا بھی اضافہ کیا جاتا ہے کہ حضرت عائشہ جس شخص کو محرم بنانا چاہتیں تو اپنی کسی عزیزہ کا دودھ پلا کر اس کو محرم بنا لیتیں -

تضادات ،، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر بتا دیا کہ الرضاعۃ بالمجاعہ ،، رضاعت اسی وقت ثابت ہے جب وہ بھوک کو مٹانے کے لئے ہو، یعنی بچہ جب ٹھوس غذا کھا کر بھوک نہیں مٹا سکتا اور صرف دودھ ہی اس کی خوراک کا ذریعہ ہے تو وہی عمر ہے یعنی دو سال یا اس سے کم ،، جس میں پلایا گیا دودھ رضاعت کہلاتا ہے، جب روٹی کھانے لگے تو اس کے بعد کسی کا دودھ پی بھی لے تو رضاعت کی حرمت ثابت نہیں ہوتی ،، پھر جوان سالم کا سھیلہ بنت سھل کا دودھ چوس کر سالم کیسے محرم بن گئے ؟ اور حضرت عائشہ کس دلیل سے جوان سالم بن عبداللہ کو اپنی بہن ام کلثوم کا دودھ پلانے کا حکم دے سکتی ہیں ؟ یہ روایت حضرت عائشہؓ پر تبرے کے سوا کچھ نہیں -

. وروي عنها أنها أمرت أختها " أم كلثوم " أن ترضع سالم بن عبد الله عشر رضعات

ایک صحابی کی بیوی نے اپنے شوہر کو لونڈی کا دودھ پیالے میں نکال کر پلا دیا ،، جب وہ پی چکے تو اس نے کہا کہ اب یہ آپکی امی جان ہے لہذا اسکے قریب مت جانا - وہ فریاد لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے تو رسول اللہ ﷺ ان کا قصہ سن کر ہنس پڑے اور فرمایا کہ لونڈی تیری لونڈی ہے تیرے لئے حرام نہیں ہوئی ،اس لئے کہ الرضاعۃ با لمجاعہ ،، حرمت اسی وقت تک ہے جب تک بچہ بھوک کی وجہ سے دودھ پیتا ہے اور تیری بیوی کے لئے لاٹھی ہے ،، رسول اللہ ﷺ نے سالم مولی ابی حذیفہ کو سھیلہ بنت سھل کا دودھ پلا کر محرم کیسے بنا دیا ؟ کوئی بتائے تو سہی کہ ہم بتائیں کیا!

سعودی عالم کا وہ فتوی سب کو یاد ہو گا جس میں وہ تمام دفاتر والوں کو حکم دیتے ہیں کہ وہ دفتر میں کام کرنے والی خواتین کا دودھ پی کر ان کو محرم بنائیں اور اگر وہ دودھ ابھی نہیں دیتیں تو ان کی کسی بہن کا دودھ پی لیں ،، اس پر خواتین کی طرف سے بہت میمز بنیں ،، یہ فتوی اور میمز سب نیٹ پر دستیاب ہیں-