علم و دانش
اللہ اور محمد ، كيا يہ نام قبل از اسلام بھی تھے؟
منصور نديم
ہمارے ہاں یہ غلط فہمی مذہب کے نام پر اتنی زیادہ عام ہے کہ ہم اس پر یقین رکھتے ہیں۔ بلکہ میں نے گاؤں دیہاتوں میں منبر سے بھی اس کا اظہار سنا ہے۔ایک تو خدا کا نام "اللہ" اسلام سے پہلے کوئی نہیں جانتا تھا۔ دوئم رسول ﷲﷺ سے پہلے دنیا میں کسی کا نام "محمد" نہیں تھا۔ یہ دونوں باتیں صرف اہل برصغیر کے مولویوں کی کہانیاں اور جوش خطابت کے خود ساختہ گھڑے ہوئے فسانے ہی ہیں۔
1-یہ تصور مطلقاً غلط ہے کہ "الہ" یعنی معبود یا عبادت کرنے والے خدا کے نام "اللہ" کی سب سے پہلے اسلام نے پہچان کروائی، حقیقتاً اہل عرب و حجاز میں اسلام سے پہلے بھی لوگ الہ کے لئے "اللہ" کے مخصوص نام سے بخوبی آشنا تھے، یہ الگ بات تھی کہ وہ قرب اللہ کے لئے اپنے نیک بزرگوں کے بت تراش کر ان کے توسط سے ہی قرب الٰہی چاہتے تھے، یعنی مکہ کے مشرکین خدا کا اعتقاد رکھتے تھے اور اس خدا کے لئے لفظ "اللہ" کے نام سے بھی بخوبی جانتے تھے، رسول اللہﷺ کے والد کا نام عبد اللہ اس کی ایک مثال ہے، مزید زمانہ قبل از اسلام کے معروف شاعر "لبید بن ربیعہ عامری" جن کے قصائد کو کعبہ میں سبعہ معلقات میں جگہ ملی تھی، بعد ازاں انہوں نے اسلام کا زمانہ بھی پایا تھا اور مسلمان ہوگئے تھے، ان کا قبل از اسلام کا ایک شعر بہت معروف تھا۔
الا کلّ شیء ما خلا اللہ باطل--وکلّ نعیم لا محالة زائل
ترجمہ :" وجود اللہ کے علاوہ ہر چیز باطل ہے--اور ہر نعمت ناچار زائل ہونے والی ہے۔"
علاوہ ازیں قرآن نے اس وقت مسلمانوں سے اس عہد مقام اور رائج روایات یا قوانین کے ساتھ ساتھ اس عہد کے رائج الفاظ و اصطلاحات میں ہی کلام کیا تھا۔جیسے قرآن میں سورہ زمر میں :" ولئن سالتھم مَن خلق السّماوات و الارض لیقولن اللہ" " ترجمہ : اور اگر آپ ان سے سوال کریں گے کہ زمین و آسمان کا خالق کون ہے تو کہیں کے کہ اللہ۔"
یعنی مشرکین مکہ بہت اچھی طرح سے اللہ کے خصوص لفظ کی الہیاتی تعبیر کے نام سے آگاہ تھے، مجھے حیرت ہے کہ کئی لوگ یہ دعویٰ کس بنیاد پر کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی قرآن نے کئی مقامات پر لفظ "اللہ" کے مخصوص نام سے مشرکین کی آگاہی کو بیان کیا ہے۔
2- دوسرا دعوی بھی صرف ہمارے ایشین مولویوں کا ہی ہے کہ رسول ﷲﷺ سے پہلے کسی انسان کا نام " محمد نہیں رکھا گیا، حالانکہ صرف عہد رسالت میں رسول ﷲﷺ کی پیدائش کے آس پاس کے عہد میں ہی مورخین کے ہاں سات افراد کے ناموں کا ذکر ملتا ہے جن کا نام "محمد تھا، اس کے ریفرنس کے لئے دو معروف کتب "لسان العرب" اور "تاج العروس" میں بھی ان سات ناموں کو دیکھا جاسکتا ہے، لیکن کچھ معروف لوگوں کی اس میں ایک الگ رائے یہ ہے کہ جن کے نام اس عہد کے دنوں میں رکھے گئے اس کی وجہ ان بچوں کے والدین نے چونکہ اہل کتاب سے یہ سن کر کہ جزیرۃ العرب میں ایک نبی ظاہر ہونے والا ہے اور اسکا نام محمد ہوگا ، اس لئے انہوں نے اس شرف کو حاصل کرنے کے لئے یہ نام رکھ دیا تھا۔ویسے تو قدیم مورخین نے اس عہد میں "محمد" نام کے سات افراد بتائے ہیں جنہیں عہد اسلام یا اس سے پہلے "محمد" کہا جاتا تھا۔ لیکن اہل حجاز کے مورخین کے پاس اب تک اسلام سے پہلے کے چودہ افراد کے نام موجود تھے، لیکن اب ماضی کے ان ناموں میں ایک اور نیا تاریخی اضافہ ہوچکا ہے۔ ابھی حال ہی میں سعودی عرب میں چونکہ بہت زیادہ آثار قدیمہ پر کام ہورہا ہے، اسی ضمن میں سعودی عرب کے شمالی علاقے حائل میں موجود جلف کے پہاڑوں میں ملنے والے نوشتہ جات میں ایک ایسا نوشتہ بھی ملا ہے جس پر ’محمد‘ نام موجود ہے۔ یہ علاقہ ثمودی باقیات کے حوالے سے جانا جاتا ہے اور یہاں پر قدیم عربی رسم الخط میں کئی چٹانوں پر خاکے موجود ہیں۔ مقامی سعودی محققین نے ان پہاڑوں سے یہ نوشتہ دریافت کیا ہے، جس میں ’محمد‘ کا نام ذکر ملا ہے، حالیہ دریافت ہونے والے نوشتہ ’محمد بن تبعہ‘ کے مکمل نام کے ساتھ ہے، اس سے پہلے کے معلوم چودہ ناموں میں محمد بن تبعہ موجود نہیں تھا، ماہر آثار قدیمہ کے مطابق یہ اسلام سے قبل عہد کی تحریر ہے، اس لئے اسے اسلام کے عہد سے پہلے کے موجود انسانوں میں "محمد نام کے پندرہویں فرد کا اضافہ کہا جاسکتا ہے۔
نوٹ : اردو زبان میں عرب عہد کے "زمانہ قبل از اسلام" کو صرف ایک کتاب میں پڑھنا چاہیں، جس سے اس عہد کی پوری تہذیبی سماجی شناخت کو ادبی حوالے سے سمیٹا گیا ہو، وہ لوگ شاد مردانوی کی شذرات ضرور دیکھ لیں، Abdul Rasheed کی یہ کتاب سبعہ معلقات کی ایک تاریخی دستاویز کی ایک ایسی اردو شرح ہے، جس کا ایک کمال یہ ہے کہ آپ اسے آج کے عہد کی اردو میں سمجھ سکتے ہیں، شاد مردانوی کا یہ کام اردو زبان پر سبعہ معلقات کے ذوق رکھنے والوں کے لئے ایک احسان کی حیثیت رکھتا ہے، اس کا ایک کمال یہ ہے کہ انہوں نے اس عہد کے شعراء کے اشعار کی تشریح کو اردوزبان کے شعراء کے اشعار یا انہوں نے اپنی کلام سے اس کی تشریحات سے اس کام کو دوبالا کیا ہے۔ شاد مردانوی نے یہ کتاب اپنے دستخط کے ساتھ مجھے تحفتاً دی تھی، جو یقینا ًزیادتی ہے، اس گئے گزرے دور میں صاحب کتاب سے بطور کتاب تحفہ لینا میرے نزدیک جرم کی حیثیت رکھتا ہے، خاص طور پر جب کوئی آپ سے تعلق بھی رکھتا ہو، کیونکہ صاحب کتاب کی کتاب کا خریدنا شائد اس دور میں فرض کی حیثیت رکھتا ہے، میرا خیال ہے شاد مردانوی کی اتنی اعلی کتاب "شرح سبعہ معلقات مع قصیدہ نونیہ" جو آپ کو عرب قبل از اسلام کے عہد میں لے جانے والی ایک دستاویز ہے، جو اپنے اسلوب میں آج کے عہد کے مطابق ہے۔