علم و دانش
منصور نديم
مسیحی علماء کی عربی زبان کی خدمت
خطہ عرب میں ایک عرصہ حکمرانی ترکوں کی عثمانی سلطنت کے زیر سایہ قائم رہی تھی، اس عہد میں مقامی عرب ترک سلطنت سے کئی معاملات میں نالاں رہے، ایک بڑی وجہ ترکوں کی اس خطے میں اپنے پسندیدہ افراد کو گورنری دے کر ہر معاملے سے بے خبری اور ترکوں کی Civilization کو زبردستی نافذ کرنے کی وجہ سے عربوں میں نیشنلزم کی تحاریک اٹھی تھی۔ جس میں عرب ثقافت کے تحفظ اور زبان کے فروغ شامل رہا، عرب ثقافت و زبان کے تحفظ کے لئے جہاں بہت سے مسلمان عربوں کی اس عہد میں خدمات کو سراہا جاتا ہے ان میں چند معروف عیسائی اہل علم کی خدمات کو بھی عرب دنیا میں ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے، ان عیسائی اہل علم کی عربی زبان کے لیے خدمات نے بعض ایسے باریک نکات بھی نکالے ہیں جس سے قرآن کریم کی معرفت میں مدد ملتی ہے، چونکہ قرآن کریم کو علم نحو اور لغت کا اولین مآخذ قرار دیا جاتا ہے۔ عربی کے لغوی علوم میں دسترس رکھنے کے لئے قرآن کریم کو وسیع پیمانے پر جاننے کا تقاضہ کرتا ہے۔ آج بھی قرآن کریم عربی زبان کے قواعد کا حوالہ دینے کے لحاظ سے پہلا مصدر ہے اور اس کے بعد دوسرا اہم ترین مصدر حدیث ہے۔
دورِ حاضر میں آج بھی کلاسیکل عربی زبان کی احیاء کے افق پر جہاں مسلمانوں عربوں کا گرانقدر کام موجود ہے وہیں پر بعض عیسائی اہل علم کے نام بھی دمکتے ہیں جنہوں نے عربوں کے لیے قرآن کی زبان کی حفاظت کی تھی اور ان مسیحی اہل علم نے عربی زبان کی حفاظت کا کام اس وقت سر انجام دیا، جب بیشتر مشرق وسطی کا حصہ (شام، عراق، اردن، سعودی عرب، لبنان اور اسرائیل) عثمانی ترکی خلافت میں شامل تھا۔ اور سنہء 1914 میں پہلی جنگ عظیم چھڑی جس میں جرمنی اور عثمانی ترکی اتحادی تھے اور ان کے مقابل برطانیہ و فرانس تھے۔ برطانوی اور فرانسیسی اتنے طاقتور نہیں تھے کہ وہ مشرق وسطی میں لشکر کشی کرسکتے۔ اس مسئلے کا حل مشرق وسطی میں موجود ’’عربسٹوں‘‘ نے نکالا۔ یہ اصطلاح ان عیسائی دانش وروں اور ادباء کے لیے استعمال ہوتی ہے، جنہوں نے مغربی استعمار کی مدد سے مشرق وسطی میں انیسویں صدی کے دوران عرب قوم پرستی کا ساتھ دیا۔ اس تحریک کے ذریعے عربوں کو ترکوں کے خلاف ابھارا گیا۔
مگر یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ عثمانی ترک حکومت کی نا انصافیوں نے بھی عرب قوم پرستی کو پنپنے میں مدد دی تھی ان کے نزدیک عثمانی ریاست عربوں پر تُرکوں کی ثقافت کو مسلط کرنے یعنی انہیں تُرک زبان کا پابند بنانے کے لیے کوشاں تھی۔ ان چند چنیدہ اہل علم میں سے ابتدائی چار شخصیات اپنی تالیفات کے ذریعے عثمانیوں کے سامنے ڈٹ گئے تھے اور انہوں نے قرآن کی زبان کو محفوظ کرنے میں حصہ لیا۔ انہی عیسائی علماء کی عربی زبان کی خدمات پر آج کے ہمارے دینی مدارس کے بنیادی نصاب کی لسانیات کی صرف و نحو کا دارومدار موجود ہے۔ آخری اور پانچویں شخصیت عثمانی دور کے اواخر میں پیدا ہوئی تھی جن کے تعارف اور علمی کام کا مختصر جائزہ یہ ہے۔
ناصيف اليازجی (Nasif al-Yaziji)
لبنانی مصنف، زبان داں اور شاعر ناصیف بن عبد اللہ بن جملات بن سعد ال یزجیجس کے بارے میں مشہور تھا کہ
"یہ وہ عیسائی اہل علم تھا جو قرآن کریم کی ایک کے بعد ایک آیت یاد کیا کرتا تھا, اور انہیں قرآن حفظ تھا، متنبی کے اشعار زبان ازبر تھے، عربی کہاوتیں، محاورے لطیفے و کہانیاں ہر گفتگو میں اس کی زبان پر ہوتی تھیں، عربی محاوروں کی اصل، عرب اشعار کے شعراء کے ریفرنسز اس کے کمال حافظے کا خاصہ تھے"۔
ناصیف الیازجی ۲۵ مارچ سنہء ۱۸۰۰ (25 مارچ سنہء 1800) میں لبنان کے ساحل کے ایک دیہات کفرشیما میں پیدا ہوا۔ وہ مطالعے کا بے پناہ شوق رکھتا تھا، حوران سے تعلق رکھنے والے ناصیف الیازجی کے یزگی خاندان نے سترہویں صدی میں مغربی لبنان حمص میں ہجرت کی تھی، ان کے خاندان کے بہت سے افراد نے فکر و ادب میں عبور حاصل کیا تھا۔ ناصیف الیازجی کے والد عبداللہ الیازجی کفرشیما کے حاکم خاندان "شہابی خاندان" (Shehabite Family) کے خاندانی مصنف کی حیثیت سے کام کرتے تھے، عبداللہ الیازجی ڈاکٹرین آف ابن سینا Doctrine of Ibn e Sina کے ماہر اور ادبی ذوق رکھتے تھے ، اسی بنیادوں پر ناصیف الیازجی کی ابتدائی تعلیم کے محرک عبداللہ الیازجی ہی تھے جس کی بنیاد پر انہوں نے صرف و نحو Morphology ، گرائمر Grammar، فصاحت Eloquence ، زبان اور شاعری Language and Poetry کے علاوہ منطق Logic میں مہارت حاصل کی، بلکہ طب Medicine، فلسفہ Philosophy, موسیقی Music اور فقہ Jurisprudence میں بھی اپنے عہد میں کمال حاصل کیا۔
سولہویں برس سے ہی ناصیف الیازجی نے اپنا علمی رنگ دکھانا شروع کردیا تھا، ناصیف الیازجی کی شہرت کی بنیاد پر اس وقت لبنان کے مقامی حکمران شہزادے بشیر الشہابی نے اسے اپنے محل میں علمی اسکالر متعین کیا۔ شہابی خاندان کے ملک چھوڑنے کے بعد سنہء ۱۸۴۰ (سنہء 1840) میں ناصیف الیازجی بیروت چلے آئے، جہاں American Missionaries کے ساتھ کام کیا، اسی عرصے میں اپنی شاعری کا دیوان لکھا، بطرس البستانی اور میخائل میثاقہ کی ہمراہی میں ناصیف الیازجی نے سنہء ۱۸۴۷ (1847) میں شام کی انجمن برائے سائنس اور آرٹس Syrian Association for the Sciences and Arts کو تشکیل دیا۔ یہ عرب دنیا کی پہلی ادبی سوسائٹی The Arab world's First Literary Society تھی، اس حلقے نے خواتین کے حقوق ، تاریخ اور مقامی توہم پرستی کے خلاف اور ان جیسے کئی متفرق موضوعات کو اپنے مباحث میں شامل کیا اور جرائد کی شکل میں ابلاغ کے لئے شائع کیا۔ اس سوسائٹی کو سنہء ۱۸۵۲ (1852) میں تحلیل کردیا گیا تھا، لیکن اس کا اندرونی دائرہ چند سال بعد شام کی سائنسی ایسوسی ایشن Syrian Scientific Association کے قیام کے سلسلے تک بالآخر پہنچ گیا، اس وقت عرب کے اہل علم اور دانشوروں کا ایک بہت بڑا ، کثیر المکاتیب فکر Multi School of Thought معاشرہ بن گیا تھا۔جس نے عثمانیوں کے مقابل عربوں کی آزادی کے لئے راہ ہموار کی تھی۔
اسی عہد میں امریکن ڈاکٹر اسمتھ Dr. Eli Smith اور ڈاکٹر کارنیلیس وان ڈیک Dr. Cornelius Vandyk بائبل کے عربی ترجموں پر کام کررہے تھے, ناصیف الیازجی کی عربی فصاحت و بلاغت پر دسترس دیکھ کر انہیں American School میں نوکری دے دی گئی، سنہء ۱۸۶۳ (1863) میں ایک اور اہل علم عیسائی بطرس البستانی Butrus Al-Bustani انہیں بیروت میں اپنے قائم کردہ اسکول قومی مدرسہ National School میں لے آئے، جہاں اس نے بطرس البستانی کی کتاب "محیط المحیط" پر بھی معرکتہ آلآرا کام کیا، اس کے علاوہ عیسائی مذہب کی مقدس کتاب بائبل کا اصل زبان سے عربی زبان میں ترجمہ کرنے میں ناصیف الیازجی نے ڈاکٹر کارنیلیس وان ڈیک، بطرس البستانی اور شیخ یوسف الاسیری الاظہری کے ساتھ مشترکہ کام کیا اور بالآخر بائبل کا پورا ترجمہ ۲۳ اگست سنہء ۱۸۶۴ (23 اگست 1864) کو مکمل ہوا، ناصیف الیازجی نے بائبل کے پہلی مرتبہ عبرانی زبان سے عربی زبان میں ترجمے کے عمل میں اپنا حصہ ڈالا تھا اور یہ ترجمہ ۲۹ مارچ سنہء ۱۸۶۵ (29 مارچ 1865) کو مکمل طور پر چھاپا گیا تھا۔ ناصیف الیازجی نے بائبل کے انڈیکس کی تکمیل میں حصہ لیا تھا، عربی میں بائبل کا پہلا ایڈیشن ۲۹ مارچ ۱۸۶۵ کو شائع ہوا تھا، اور بائبل کا اشاریہ ۱۸۷۵ (1875) میں پہلے ایڈیشن میں شائع ہوا۔ جسے بعد میں بیروت کی جامعات میں نصاب کا حصہ بنایا گیا۔
انیسویں صدی میں عربوں میں عربی کلاسیکل زبان کے احیاء میں ناصیف الیازجی کا کردار کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا، ناصیف الیازجی نے عربی زبان سے محبت اور لگاؤ میں جو قابل ذکر کام کیا اس کی وجہ سے وہ النھضہ تحریک کے ایک بڑے محرک کردار بن گئے، عربی کلاسیکل زبان کے ادبی نشات ثانیہ کے ورثے کے احیاء اور فروغ کے لئے انیسویں صدی کے ایک بڑے نام کی حیثیت سے ابھرنے والے ناصیف الیازجی سنہء ۱۸۷۱ (1871) میں انتقال کرگئے، ان کی مشہور تصنیفات میں
مجمع البحرين، مقامات
فصیل الخطبات ( عربی قواعد Arabic Grammar پر مشتمل کتاب)
الجوهر الفرد ( عربی صرف Arabic Morphology )
نار القرى في شرح جوف الفرا (عربی نحو پر)
مختارات اللغة ( لسانیات لغت Language Anthology)
العرف الطيب في شرح ديوان أبي الطيب ( ابو طیب المتنبی کے دیوان کی شرح جسے بعد میں ناصیف الیازجی کے بیٹے ابراہیم الیازجی نے مکمل کیا تھا), ابراہیم الیازجی بھی النھضہ تحریک کے ایک سرگرم کارکن کے طور پر مشہور رہے تھے۔
اس کے علاوہ ناصیف الیازجی کے تین شعری مجموعے
النبذة الأولى (بمعنی اردو ترجمہ خلاصہ اول)
نفحة الريحان
ثالث القمرين (بمعنی اردو ترجمہ دو چاندوں میں سے تیسرا)
"الشيخ ناصيف اليازجی" جسے عیسی میخائیل صبا نے ناصیف الیازجی کی ادبی و سوانح عمری پر لکھا ہے۔
=======================
بطرس البستانی Butris Al-Bustani
دو صدیاں بیت جانے والے اس شخص کا تعارف وہ لقب ہے جو اسے عربی زبان کی خدمت میں استاد کی حیثیت سے ملا، جب عرب ثقافت ڈوب رہی تھی تو انہیں وہاں "روشن خیالی کا باپ" اور "عرب نشاتہ ثانیہ کے علمبرداروں کے علمبردار" کہا گیا، بطرس البستانی لبنانی مصنف، تاریخ دان عرب دنیا کے ادبی حلقوں میں "المعلم بطرس" کے خطاب سے معروف ہونے والا ، عرب نشاتہ ثانیہ کے سب سے بڑے ستونوں میں سے ایک تھا، سنہء ۱۸۱۹ (1819) لبنان کے گاؤں دیبیہ میں پیدا ہونے والا بطرس البستانی کا لبنان کے ادبی خاندان مارونائیٹ سے تھا، اپنی ابتدائی تعلیم اس عہد کے سب سے بڑے اسکول "عین ورقہ" سے حاصل کی، اس نے متعدد زبانیں سیکھیں، جن میں سریانی، عبرانی، لاطینی، انگریزی اور اطالوی شامل تھیں۔ اس کے علاوہ فلسفہ، الہیات اور قانون پر دسترس حاصل کی، سنہء ۱۸۴۰ (1840) میں بطرس البستانی بیروت چلا گیا اور امریکی سفیروں سے رابطے رکھے، انہیں عربی سکھائی اور انہیں لبنان میں پرنٹنگ پریس کے کاروبار کی ترغیب دی۔ سنہء ۱۸۶۰ (1860) میں اوبایا سکول میں پروفیسر مقرر ہوا دو سال تک اوبایا اسکول سے منسلک رہے، بطرس البستانی پروٹسٹنٹ فرقے کا عیسائی تھا، یہاں وہ مشنری اسکول سے اپنے مذہبی اغراض سے بھی وابستہ رہا، وہیں وہ کچھ عرصہ امریکی قونصل خانے میں بحیثیت مترجم رہا۔
بطرس البستانی نے سنہء ۱۸۶۰ (1860) میں ہی اپنے ملک میں لوگوں کو تعلیم و شعور دینے کے لئے ایک قومی ہائی اسکول "الوطانیہ" National High School قائم کیا، اس اسکول کا معیار اتنا بہتر رہا کہ بغیر مذہب و فرقے کے امتیاز کے آس پاس کی تمام عرب ریاستوں اور علاقوں کے طلباء یہاں تعلیم کے لئے آتے تھے، اسی دور میں بطرس البستانی نے ناصیف الیازجی کو اس اسکول میں بلوایا تھا، اور "نفير سوريۃ" کے نام سے ایک اخبار بھی نکالا تھا۔ یہ اخبار اس عہد کا اعلی درجے کا قومی اخبار بنا، اس اخبار کے علاوہ اپنے بیٹے سلیم کی مدد سے مختلف ہفتہ وار و ماہانہ سیاسی و تجارتی چار اخبارات کا مزید اجراء بھی کیا تھا۔ اس نابغہ روزگار شخصیت نے بہت سے شعبوں میں ترجمے اور تالیف کا کام کیا۔ بطرس البستانی نے کئی کتابوں کو ریاضی، گرائمر، مورفولوجی، لسانیات و ادب میں درجہ بندی کی، اس کے کئے گئے کام نے اپنے عہد کی ثقافت پر بہت ان مٹ نشان چھوڑے اور اس وقت کی ثقافت پر اثرانداز ہوا۔ بطرس البستانی کے کئی خطبات، لیکچرز، مضامین بھی اس کے علاوہ ہیں مگر بطرس البستانی کی وجہ شہرت اور انقلابی کاموں میں سب سے بڑا کام "دائرة معارف البستاني" ہے ۔
دائرة معارف البستاني:
یہ اس عہد کے مطابق جدید عربی زبان کا انسائیکلوپیڈیا تھا، یہ عربی زبان کا پہلا انسائیکلوپیڈیا ہے، جسے حروف تہجی کے مطابق ترتیب دیا گیا، اس انسائیکلوپیڈیا کے لئے بطرس البستانی نے اس وقت کے بہترین ادباء، مشاہیر، مترجم، نامہ نگار، محققین کی ٹیم تشکیل دی تھی جس میں اس کے دو بیٹے سلیم، نجیب اور بھتیجے سلیمان البستانی کو بھی شامل کیا تھا، اس کی ابتدائی چھ جلدیں بطرس البستانی نے خود لکھی اور ساتویں کے آغاز میں بطرس البستانی کا انتقال ہوگیا تھا، جسے سلیم البستانی نے مکمل کیا پھر آٹھویں جلد کے بعد نویں جلد کے آغاز میں سلیم البستانی کا بھی انتقال ہوگیا، اس کے بعد دوسرے بیٹے نجیب نے نویں جلد مکمل کی، پھر سلیمان البستانی نے نجیب کے ساتھ مل کر دسویں اور گیارہویں جلد بھی مکمل کی، بارہویں کا بھی ارادہ تھا مگر سنہء ۱۹۰۰ (1900) میں اس پر کام رک گیا۔ مگر یہ کتاب آج بھی جدید اور کلاسیک عربی کا بہترین انسائیکلو پیڈیا مانا جاتا ہے۔
معجم محيط المحيط، (قاموس عصری مطول اللغة العربية):
یہ بھی بطرس البستانی کی ایک شاہکار تخلیق تھی، جسے پہلے سے موجود لغت "اول قاموس عصري في اللغة العربية" کو بھی شامل کیا اور مزید غیر ملکی سائنس، ادب اور آرٹس کے علاوہ جدید سیاسی و معاشرتی الفاظ کے علاوہ نئے عربی کے قواعد و ضوابط بھی شامل کئے۔ جو اس سے پہلے قدیم لغات میں موجود نہ تھے، سنہء ۱۸۶۹ (1869) میں یہ لغت مکمل ہوئی، اسے ابتداء میں دو بڑی جلدوں میں شائع کیا گیا، آج کل یہ نو جلدوں پر مشتمل سیٹ کی صورت میں دستیاب ہے۔ اس لغت کی تالیف میں ناصیف الیازجی کی معاونت بھی شامل رہی۔ یہ لغت عثمانی سلطان کو بھی پیش کی گئی تھی، جس پر بطرس البستانی کو عثمانی اعزاز "مجیدی" سے بھی نوازا گیا تھا ۔ یہ لغت آج بھی عربی زبان کی نئی اور مستند لغات میں گنی جاتی ہے۔ آج بھی عربی طلباء اور دانشور اس لغت کو استعمال کرتے ہیں، باوجود کہ اس کتاب کو لکھے سو سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے، کیونکہ لغت کو حروف تہجی کے مطابق ترتیب دیا گیا ہے، اس میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی بہت سی اصطلاحات کے علاوہ، ہر لفظ کی مکمل وضاحت اور تشریح کی گئی ہے جو کہ اصل میں عربی سے تھی یا عربی زبان میں داخل ہوئی تھی اور اس سلسلے میں بیرونی زبانوں کے الفاظ کے اصولوں کی وضاحت بھی دی گئی ہے۔ یہ ایک ضخیم لغت ہے۔ جس میں روزمرہ معمولات میں مستعمل عام الفاظ بھی ہیں۔
بائبل عھد نامہ عربی :
بطرس البستانی نے عھدنامہ ( بائبل ) کو عبرانی زبان سے عربی میں ترجمہ کرنے میں حصہ لیا، ڈاکٹر کارنیلیس وان ڈیک ، بطرس البستانی اور شیخ یوسف الاسیری الاظہری، کے ساتھ مشترکہ کام کیا اور بالآخر بائبل کا پورا ترجمہ ۲۳ اگست سنہء ۱۸۶۴ (23 اگست 1864) کو مکمل ہوا، جو Van Dyck Version کے نام سے مشہور ہے، جو سیرین مشنری اور امریکن بائبل سوسائٹی American Bible Society کی مدد سے ہوا۔ یہ دنیا میں پہلا بائبل کا عربی ترجمہ ہے۔
قطر المحیط:
اس کے علاوہ عربی زبان پر "قطر المحیط" جو " محیط المحیط" سے مشہور ہے، جسے عربی زبان کو سمندر سے تشبیہ دے کر اس کو سمندر کے طواف سے ایک دائرے کے قطر اور اس کے احاطے جانچا گیا ہے ۔
کشف الحجاب فی علم الحساب:
ریاضی کے اصولوں پر لکھی گئی کتاب جو نصاب کا حصہ بھی رہی ۔ اس کے علاوہ مسک الدفاتر :
تاریخ نابلیون: عربی میں نپولین کی تاریخ
المصباح: کتاب فی النحو
مفتاح المصباح: کتاب فی النحو
معارک العرب فی الاندلس:
أدباء العرب في الجاهلية وصَدر الإسلام:
اس میں اسلام سے پہلے کے معروف عرب مصنفین اور اسلام کے آنے سے پہلے ادوار کے عرب مصنفین کی افکار و زندگی کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔
أدباء العرب في الأعصر العباسية.
اس میں عہد عباسی کے عرب مصنفین کا تذکرہ و افکار ہیں۔ معجم محیط المحیط جیسی عربی کی گرانقدر خدمت پر عثمانی سلطان کی طرف سے انہیں تیسرا "ماجدی ایوارڈ" دیا گیا تھا، بلاشبہ عربی زبان کے ہر فن و ضرورت کے لئے ایک عمومی لغت کے علاوہ آج تک کہ جدید ترین عربی لغت ہے ۔ جس نے اس سے پہلے کی تمام لغات کی ضرورت کو ختم کردیا تھا۔ بطرس البستانی کی عربی زبان کی خدمات میں لا تعداد لیکچرز، عملی فورمز، ان کا اسکول، ان کی شاعری اور ماضی کے مصنفین و عربی پر گہری نظر نے انہیں عرب دنیا کا ہیرو بنادیا تھا۔ بطرس البستانی کا انتقال لبنان میں سنہء 1883 (سنہء ھجری ۱۳۰۱) میں ہوا۔ بطرس البستانی کی پیدائش کی دو صد سالہ سالگرہ کے موقع پر لبنان کی National authority نے بیروت میں ایک اجلاس منعقد کیا تھا، جس میں اس عہد کے اس روشن خیال انسان کی خواتین کے مسائل اور علم کی آگاہی کی خدمات، وطن کے لئے خدمات اور سوانح عمری کو دوبارہ یاد گار بنانے کے لئے ایک تقریب رکھی گئی ۔ اس کے علاوہ ۲۶ دسمبر سنہء ۱۹۱۹ (26 دسمبر سنہء 1919) میں امریکن کالج اسکول کلب میں بھی انہیں بطور سماجی خدمات انعام و اعزاز دیا گیا۔
لوئس معلوف Louis Maalouf
لوئس بن نکولس ظاہر نجم معلوف الیسوعی عرب کا ایک نامور عیسائی ادیب و ماہر لسانیات جو لبنان کے شہر زحلہ میں سنہء 1867 میں ایک عیسائی مذہبی گھرانے میں پیدا ہوا، اس کا والد چرچ کے مذہبی عہدے پر تھا، لوئس ملفوف ایک با اثر، پر اعتماد و مالی وسعت والی زندگی گزارنے والے گھرانے میں پیدا ہوا تھا، ابتدائی تعلیم بیروت کے الیسوعیہ کالج Jesuit Collage سے اور پھر تعلیم کے حصول کے لئے تین بار یورپ گیا، پہلے برطانیہ England سے فلسفے کی تعلیم اور چونکہ مذہبی گھرانے کی نسبت کی وجہ سے فرانس France سے الہیات Theology کی تعلیم حاصل کی، یورپ میں دس برس رہنے کی وجہ سے مغربی و مشرقی کئی زبانوں عربی، انگریزی، فرانسیسی، لاطینی، سریانی، یونانی اور عبرانی سے اچھی واقفیت حاصل کی، یورپ کے قیام کے دوران دنیا بہترین لائبریریوں لندن بڑش میوزیم London British Museum، نیدرلینڈ کی لیڈن لائیبریری Netherland Leiden Library, اور فرانس میں قومی لائیبریری Paris National Library میں کتابیں پڑھنے کا موقع ملا اور ان لائبریریوں سے کئی نایاب عربی کتابوں کے ترجمے نقل کئے۔ یورپ میں لوئس معلوف نے فلسفہ و الہیات کے علاوہ زبان اور ادب کے علوم کو بھی سیکھا۔
لوئس معلوف نے یورپ سے واپسی کے بعد تعلیم کے شعبے میں ہی کام کیا، لوئس معلوف مصر اور لبنان میں تعلیم کے شعبے میں کام کرتے رہے، پھر بیروت کی الیسوعیہ یونیورسٹی Jesuit University of Beirut میں عربی زبان و اسباق کے نگران Directorate of Arabic Lessons کی ذمہ داری سونپی گئی، انہی دنوں وہ سنہء 1906 سے سنہء 1933 تک مقامی اخبار "البشیر" کے بھی چیف ایڈیٹر رہے، لوئس ملفوف کی دلچسپی اس وقت تک صرف فکر و ادب تک محدود نہ تھی بلکہ لوئس معلوف زراعت میں بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ لبنان میں وہ بکفایہ کے علاقے میں کھیتی باری میں بھی دلچسپی لیتے رہے اور لوئس معلوف نے باغات کی کھیتی کی تجدید کے لیے ایک تنظیم بھی قائم کی۔ لوئس معلوف عیسائی مذہبی اسکالر بطور پادری بھی شہرت رکھتا تھا، لیکن عرب زبان اور کلچر کی بنیاد پر عرب نیشنلزم سے بھی متاثر رہا، اس نے اپنی فکری اثرات اور ادبی افکار پر یہ کتابیں تصنیف کیں۔ لوئس معلوف کی اہم ترین تالیفات میں یہ کتب ہیں ۔
"المُنجد فی اللغۃ"
سنہء 1908 میں بیروت کے کیتھولک پریس سے شائع ہونے والی یہ کتاب اس عہد سے لے کر آج تک عربی زبان کی لغت میں ایک شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے۔ عربی زبان میں اس کے ہزارہا ایڈیشن چھپ چکے ہیں، بلکہ پوری دنیا کی کئی زبانوں میں اس کے تراجم بھی چھپ چکے ہیں، خصوصا پاکستان کے کئی علماء بطور لغت طلباء کے لئے "المنجد" کو ہی اپنی کچھ ترمیمات سے شائع کرتے ہیں. یہ کتاب ایک نمایاں ترین لسانی لغت ہے، جس میں لفظوں کی تفہیمات تشریحات کے علاوہ محاورے اور کہاوتوں کی وضاحت کے ساتھ تبصرے موجود ہیں، عربی لغات میں ایک بھرپور اضافہ ہے۔
"تاريخ آداب اللغۃ العربيۃ":
عربی لغت کی تعریف و تاریخ پر مشتمل یہ کتاب بھی نصاب کا حصہ بنی۔
"كتاب فی تاريخ حوادث الشام ولبنان":
اس کتاب میں سنہء 1782 سے سنہء 1841 تک شام اور لبنان کے مختلف واقعات کی تاریخ ہے۔
سیاسیۃ ابن سینا:
یہ لوئس معلوف کی ابن سینا کی سیاسی زندگی پر مشتمل کتاب ہے۔ لوئس مالوف کو اس کے سائنسی اور تعلیمی صلاحیتوں کی بنیاد پر مشرق کے ممالک میں چمکے، اور اس نے نصف صدی سے زیادہ عرصہ تک سائنس کی خدمت کی جو اس نے تعلیم اور تصنیف میں گزاری۔ .لوئس مالوف کی علمی خدمات کو سراہنے کے لئے لبنان نے حکومتی سطح پر لبنانی میڈل آف آنر برائے میرٹ Lebanese Medal of Honor for Merit سے نوازا, لوئس معلوف کی وفات سنہء 1946 میں ہوئی۔
مارون عبود۔ Maroun Abboud
لبنان میں جدید عہد کے ادبی نشاة ثانیہ کا علمبردار کہلانے والا، مارون بن حنا بن الخوری یوحنا عبود سنہء 1885 لبنان کے علاقے جبیل کے ایک گاؤں "عین کفا" میں پیدا ہوا، مارون عبود نے عرب دنیا میں بطور صحافی، طنزیہ ناول نگار، نقاد، تجزیہ کار، استاد، مصنف ناول نگار اور شاعر کی حیثیت سے مقبول ہوا۔ پہلی ابتدائی تعلیم گاؤں میں۔ ہی بلوط کے درختوں کے نیچے بیٹھ کر حاصل کی، پھر سینٹ سسائن Saint Sassine School, اور پھر عیسائی مشنری اسکول سینٹ جان مارون عبود اسکول Saint John Maron's School سے ہی حاصل کی، یہ ان کے خاندان کا فیملی اسکول تھا، اسکول کے ابتدائی سالوں میں ہی مارون نے اپنے ادبی رحجان کے میدان میں شاندار کارکردگی دکھائی، مارون عبود نے اسکول کے زمانے میں ہی نظمیں لکھنا شروع کر دی تھیں اور اس وقت کے مشہور اخبار "جریدہ الروضہ" میں شائع بھی ہونے لگیں۔ مارون کے والد کی خواہش تھی کہ مارون عبود عیسائی مذہبی تعلیم کا عالم بنے، کیونکہ مارون عبود کے دادا پادری جان عبود، اور مارون کے نانا بھی پادری موسیٰ عبود تھے، اور والد کی خواہش بھی تھی کہ وہ بھی ان کی طرح ایک مذہبی آدمی بنے۔ مگر مارون کو یہ اپنی طبیعت کی وجہ سے قبول نہ تھا، اس نے یہ اسکول چند سال بعد چھوڑ دیا، مارون عبود کی طبیعت مذہبی فرقہ واریت کے خلاف تھی۔مارون عبود نے مزید تعلیم کے لئے بیروت کے مشہور اسکول The School of Wisdom کو چنا، ایک ایسی درسگاہ جس میں مختلف مذاہب اور فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے۔ مارون کو یہاں اپنی ادبی صلاحیتوں کے لئے سازگار ماحول میسر آیا، یہیں سے گریجویشن کیا، پھر بیروت کے متعدد علاقوں میں تدریس اور صحافت میں کام کیا، ایک طالب علم کی حیثیت سے مارون عبود نے اپنے سادہ ذرائع سے ایک ابتدائی تنقیدی اشاعت شائع کرنے کی کوشش کی جسے مارون عبود نے "الصاعقة" کا نام دیا۔ پھر وہ جلد ہی 20 سال کی عمر میں "الرودہ" اخبار کے ایڈیٹر بن گیا۔ سنہء 1906 سے سنہء 1914 تک مختلف اسکولوں میں تدریس کے ساتھ ساتھ ، سنہء 1910 میں صرف بیس سال کی عمر میں "الحکمہ" اخبار اور "الناصر" اخبار کے قیام میں حصہ لیا اور اس میں ایڈیٹر بنا۔ "الحکمہ" کے ساتھ پہلی جنگ عظیم کے آغاز تک جڑا رہا۔سنہء 1913 میں، وہ سب کچھ چھوڑ کر اپنے گاؤں واپس چلا گیا تاکہ وہ اپنے خاندان سے مل سکے اور ان کے ساتھ رہ سکے، یہاں گاؤں میں رہ کر ماروں عبود نے عملی طور پر سلطنت عثمانیہ کے خلاف جدوجہد شروع کی۔مارون عبود کی عثمانی سلطنت کے خلاف جدوجہد کی وضاحت اس کے پوتے ولید ندیم عبود نے اپنے دادا کی درجنوں تصاویر کی مدد سے کی ہے، مارون عبود کی ذاتی البم واقعی ایک نادر دستاویز ہیں، جو ان کے خاندان کے پاس ہے، جن سے بہت سی معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں، خاص طور پر مارون عبود کی وفات کے بعد اس کے پوتے ولید ندیم مارون نے کتابوں کی اشاعت میں کردار ادا کیا تھا۔ اس نے اس کے بارے میں ایک مقالے میں بھی شرکت کی تھی، اگرچہ وہ دادا کے ساتھ نہیں رہتے تھے، لیکن ان کے والد ندیم، دو نسلوں کے درمیان ایک وفادار کڑی تھے، کیونکہ انہوں نے یہ وراثت ان تک پہنچا دی تاکہ یادداشت موجود رہے اور معلومات تازہ رہیں۔ پچھلی صدی کے پہلے نصف میں مارون عبود پورٹریٹ بنانے والے پہلے لبنانیوں میں سے ایک ہیں، مارون عبود نے اپنے گھر کی چھتوں اور دیواروں کو اپنی ڈرائنگ سے سجایا، جس میں اسے تین سال لگے، کیونکہ ہال کو تاریخی شخصیات کے چہروں سے سجایا گیا تھا۔ جیسے صلاح الدین ایوبی، فخر الدین ثانی اور بشیر الثانی، حیرام اور زینوبیا، چاول کے فصلوں کی کاشت کے قدرتی مناظر، بعلبیک قلعہ، دریائے بردہ، پالمیرا قلعہ، اموی مسجد، اور عراق و حجاز، مصر کی معروف مساجد جیسے عظیم مسجدقرطبہ، اور اندلس میں الحمرا قابل ذکر ہیں۔ اس کی پینٹنگ میں لبنانی رسم و رواج کی پوری تہذیب نظر آتی تھی، مارون عبود ایک ایسا ادیب، شاعر، نقاد اور مترجم تھا، جس نے لکھنے کی اصناف کو تبدیل کیا، مارون پیدائشی تخلیق کار تھا اور یہی اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا، اس کا گھر مجسمہ سازی اور پینٹنگ سے بھرا پڑا تھا، جہاں مارون عبود اپںے ملنے والوں کا استقبال کرتا تھا۔ مارون عبود کو جس بات پر بہت فخر تھا وہ اس کی لائبریری تھی، جسے وہ ادب اور مخطوطات کی تمام اقدار کے ساتھ تیار کرنے اور اس کی تکمیل کا خواہشمند تھا۔ وہ اپنی سردیاں ایلی میں گزارتا تھا، جہاں وہ ایک استاد کے طور پر کام کرتا تھا، اور اس کی گرمیاں عین کفا میں گرمیوں کی تعطیلات میں ایک یا دو کتابیں لکھنے میں صرف ہوتی تھیں۔ مارون عبود پچھلی صدی میں لبنان میں مختلف مذاہب و فرقوں سامراجی سازشوں کے عہد میں پیدا ہونے والا ایسا شخص تھا جو خود فرقہ واریت کے خلاف بردبار سوچ کا حامل تھا، وہ مذاہب کے مابین نفرتوں کے لئے کھلے دل سے باغی تھا، مارون عبود فرقہ پرستی کے خلاف وہ پہلا مسیحی تھا جس نے اپنے بیٹے کا نام محمد رکھا۔ اس وقت لوگوں کے نزدیک "محمد مارون" ایک انوکھا ترین نام ہے، نہ صرف اس نے اپنے بیٹے کا نام "محمد" رکھا بلکہ اپنی بیٹی کا نام "فاطمہ" رکھا. مارون عبود کی بیٹی فاطمہ کو لبنان میں مذہبی شناخت میں درج نام پر فرقہ واریت کی بنیاد پر قتل تک کردیا گیا تھا۔ اس شخص نے اپنی بیٹی کا درد مذہبی منافرت کے مقابل سہا تھا۔
مارون عبود نے جب اپنے بیٹے کا نام محمد رکھا، تب اسے اپنے مذہبی حلقوں کی جانب سے شدید اعتراض اور تمسخر کا نشانہ بنایا گیا، اس نے ان کی پرواہ نہ کی، مارون کے خاندان و حلقہ احباب کے لوگ اسے پادری کی صورت دیکھنا چاہتے تھے مگر اس نے ان مذہبی نفرتوں کی وجہ سے اپنے بیٹے کا نام محمد رکھا۔ مارون عبود نے اس واقعے پر اپنی ایک نظم لکھی اور اس کا اظہار یوں کیا کہ
"میں نے ایک بیٹے کو جنم دیا, جب میں نے اس کا نام محمد رکھا تو لوگوں میں قیامت برپا ہوگئی، میرے مقابل ایک گروہ نفرت کرنے والا تھا، مگر کچھ محبت کرنے والے فاتح عالم بھی تھے، میرے دوست آمین الریحانی نے سب سے پہلے اس کی تعریف کی ، اسی لئے میں نے یہ نظم لکھی۔
عشت يابني، عشت يا خير صبي ولدته أمه في «رجبِ»
فهتفنا واسمُهُ محمدٌ أيها التاريخ لا تستغربِ
خَفّفِ الدهشةَ واخشعْ إن رأيتَ ابنَ مارونٍ سميّاً للنبي
اُمّه ما ولَدتْهُ مسلماً أو مسيحياً ولكن عربي
والنبيُّ القرشيُّ المصطفى آية الشرق وفخر العربِ
يا ربوع الشرق اصغي واسمعي وافهمي درساً عزيز المطلبِ
زرع الجهل خلافاً بيننا فافترقنا باسمنا واللقبِ
«فالأفندي» مسلمُ في عرفنا والمسيحيُّ «خواجه» فاعجبي
شغلوا المشرق في أديانةِ فغدا عبداً لأهل المغربِ
يا بني اعتزَّ باسمٍ خالدٍ وتذكّرْ إن تعشْ، أوفى أبِ
جاء ما لم يأِتهِ من قبلهِ عيسويٌّ في خوالي الحقبِ
فأنا خصم ُالتقاليد التي ألقتِ الشرقَ بشرّ الحَرَبِ
بخرافاتِهِِمِ استهزئ وقلْ: هكذا قد كان من قبلي أبي.
وغداً يا ولدي، حين ترى اثري متبَّعاً تفخر بي
بكَ قد خالفتُ يا ابني ملّتي راجياً مطلعَ عصر ذهبي
عصر حرية شعبٍ ناهضٍ واتحادٍ لبقايا يَعرُبِ
حبّذا اليوم الذي يجمعنا من ضفافِ النّيل حتى يثربِ
ونحيّي علمَاً يخفقُ فوقَ منارات الورى والقبَبِ
ليته يدرك ما صادفته عندما سمّيته، من نصبِ
لو درى في المهدِ أعمال الألى حركتهم كهرباء الغضبِ
لأبى العيش وشاءَ الموت في أمّةٍ عن جِدّها في لعبِ
كم وكم قد قيلَ ما أكفرَه سوف يصلى النارَ ذات اللهبِ
إن يشنّع بابنهِ لا عَجَبٌ فهو غرٌّ كافرٌ لا مذهبي
لا تصدّق قولَهم يا ولدي إن فيما قِيل كلَّ الكذبِ
إنّ حبّ الناس ديني وحياةَ بلادي باتحاد أربي
فكتابي العدلُ ما بين الورى في بلادٍ هيَ أمُّ الكتب
فاتّبع يا ابني أباً ابغّضَهُ وجفاهُ كلُّ ذي دينٍ غبي
فهمُ آفةُ هذا الشرقِ مذ حكموهُ بضروبِ الرعبِ
جعلوا الأديانَ معراجَ العلى ومشَوا في زهوهم في موكبِ
شرّدوا«أحمد» عن مضجعه فسرى ليلتَهُ في كربِ
ودّهوا عيسى لما علَّمهُ وهو لولا كيدهم لم يُصلبِ
فإذا ما متُّ يا ابني في غدٍ فاتبع خطوي تفزْ بالأربِ
وعلى لحديَ لا تندب وقُلْ آيةً تزري بأغلى الخطبِ
عاش حراً عربياً صادقاً وطواه اللحدُ حراً عربي ۔
ترجمہ :
زندہ باد میرا بیٹا، زندہ باد سب سے اچھا لڑکا جو اس کی ماں نے رجب میں پیدا کیا۔
ہم نے نعرہ لگایا، اور اس کا نام محمد ہے، اے تاریخ حیران نہ ہو۔
حیرانی کو کم کرو اور عاجزی اختیار کرو اگر تم مارون کے بیٹے کو پیغمبر کے نام پر دیکھو
اس کی ماں نے اسے مسلمان یا عیسائی نہیں بلکہ ایک عرب پیدا کیا۔
اور وہ قریشی نبی، برگزیدہ، آیت مشرق اور عربوں کا فخر ہے
اے مشرق کے خطوں، ایک سبق سنو، سنو اور سمجھو، عزیز طالب علمو!
جہالت نے ہمارے درمیان جھگڑا بویا تو ہم نے اپنے نام اور لقب سے علیحدگی اختیار کرلی
ہماری روایت میں "آفندی" ایک مسلمان ہے، اور عیسائی "خواجہ" ہے، تو مجھے یہ پسند ہے۔
انہوں نے مذاہب میں مشرق پر قبضہ کر لیا تو یہ اہل مغرب کا غلام بن گیا۔
اے میرے بیٹے خالد کے نام کی قدر کرنا اور یاد رکھنا اگر زندہ رہو گے تو زیادہ وفادار ہو گے۔
جو پرانے زمانے میں اساوی سے پہلے اس کے پاس نہیں آیا تھا۔
میں ان روایات کا مخالف ہوں جنہوں نے مشرق کو جنگ کی برائی میں جھونک دیا۔
ان کے توہمات کا مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں: مجھ سے پہلے میرا باپ ایسا ہی تھا۔
اور کل، میرے بیٹے، جب تم میری پگڈنڈی کو دیکھو گے، تمہیں مجھ پر فخر ہو گا۔
تیرے ساتھ، میرے بیٹے، میں نے اپنے ایمان کو توڑا ہے، ایک سنہری دور کی صبح کی امید
ایک زندہ لوگوں کی آزادی اور عربوں کی باقیات کے اتحاد کا دور
وہ دن جو ہمیں دریائے نیل کے کنارے سے یثرب تک اکٹھا کرتا ہے۔
اور ایسے جھنڈے کو سلام جو بکن اور گنبد پر پھڑکتا ہے۔
کاش وہ جانتا کہ جب میں نے اس کا نام ایک یادگار سے رکھا تو مجھے کیا سامنا کرنا پڑا
اگر جھولے میں روبوٹ کی حرکتیں معلوم ہوتیں تو غصے کی بجلی سے وہ حرکت میں آجاتے۔
اس نے جینے سے انکار کر دیا اور ایک کھیل میں اس کے دادا کی طرف سے قوم میں موت چاہتا تھا۔
کتنا اور بارہا ہی کہا گیا ہے کہ جس کا میں کفر کرتا ہوں وہ آگ میں شعلوں کے ساتھ نماز پڑھے گا۔
اگر وہ اپنے بیٹے کو گالی دے تو کوئی تعجب نہیں کہ وہ کافر ہے، کافر ہے، فرقہ نہیں ہے۔
ان کی باتوں پر یقین نہ کرنا بیٹا کہ سب جھوٹ بولا گیا۔
عوام کی محبت میرا دین ہے اور میرے وطن کی زندگی عرب اتحاد میں ہے۔
میری کتاب انصاف اس ملک میں قہر کے درمیان ہے جو کتابوں کی ماں ہے۔
تو بیٹا، ایک ایسے باپ کی پیروی کرو جس سے وہ نفرت کرتا ہے اور ہر احمقانہ مذہب کو خشک کر دیتا ہے۔
وہ اس مشرق کی لعنت ہیں جب سے انہوں نے اس پر دہشت کے ساتھ حکومت کی۔
انہوں نے مذاہب کو اللہ تعالیٰ کی معراج بنا دیا اور وہ اپنے غرور میں جلوس نکال کر چل پڑے
انہوں نے احمد کو اس کے بستر سے ہٹا دیا، اور اس کی رات تکلیف میں گزر گئی۔
جب انہوں نے عیسیٰ کو سکھایا تو انہوں نے ہل چلا دیا، اور اگر یہ ان کی سازشوں میں نہ ہوتا تو وہ مصلوب نہ ہوتے
اگر میں کل مر گیا تو میرے بیٹے میرے نقش قدم پر چلو تو جیتو گے۔
اور میری طرف سے، ماتم نہ کرو، اور ایک ایسی آیت کہو جو انتہائی قیمتی تقریروں کو متاثر کرتی ہے۔
وہ ایک آزاد زندگی جیا، دیانت دار عرب، اور وہ ایک آزاد عرب کی طرح قبر تک پہنچ گیا۔
مارون عبود کا اپنے بیٹے کا نام محمد رکھنے کے نتیجے میں اسے عیسائی مذہبی درس گاہوں سے شدید تنقید کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی جانب سے مختلف افراد سے شدید تنقید کا بھی سامنا رہا، لیکن اس نے بغاوت جاری رکھی، جس کے بعد وہ بخود ایک "The School of Wisdom" سے مشہور ہوا جس میں مختلف مذاہب اور فرقوں سے تعلق رکھنے والے دوست شامل ہوئے۔۔ مارون نے اس پر بھی بس نہیں کیا، اس نے اپنی بیٹی کا نام فاطمہ رکھا، اور اس کی قیمت اس نے اپنی بیٹی کے قتل کی صورت میں ادا کی۔ سنہء 1932 میں اس کی بیوی کو اس سے اغوا کر لیا گیا، مارون عبود کے بچے ابھی چھوٹے تھے، اس لیے اس نے محمد کو گاؤں میں اپنی خالہ کے سپرد کر دیا اور اپنے ساتھ باقی بچوں کو لے کر اپنے گاؤں کا رخ کیا تھا۔ اپنی زندگی کے آخری حصے میں مارون عبود کو پانی کی کمی، چکر آنے اور تھکن کی وجہ سے اپنی کتاب "فارس آغا" کو مکمل کرنے کے لیے بہت تکلیفیں اٹھانا پڑیں۔ مارون عبود امید سے جڑے رہنے والا اور ہمیشہ مسکراتا رہتا تھا، اپنے خاندان کے ساتھ رہنے کا خواہشمند تھا۔ مارون عبود کی مہربان روح، اور خوش مزاج شخصیت نے اسے ہمیشہ طاقت بخشی۔ لیکن آخری مہینوں میں جب اس کی کمزوری اپنی حد تک پہنچ گئی تو اس نے اپنے بچوں کو نصیحت کی کہ وہ اپنے کمرے میں کسی کو کمزور، بیمار دیکھنے کے لیے داخل نہ ہونے دیں۔ مارون عبود نے سنہء 1923 سے ایک استاد کے طور پر کام کیا جب تک کہ وہ بیماری سے تھک نہیں گیا، اور وہ 77 برس کی عمر میں سنہء 1962 میں فوت ہوا۔
متعدد ادبی اصناف کے درمیان بے ساختہ اور مہارت کے ساتھ منتقل ہونے والے پولی میتھ مارون عبود کی وفات کے ساٹھ سال گزر جانے کے بعد بھی ایک عرب کے علماء میں زندہ ہے۔ مارون عبود کی طنزیہ نگاری، اس کی نقش نگاری، اس کے گاؤں کے کردار اور اس کی زبان سے ملتی جلتی کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو عربی ادب میں نہ ملتی ہو، جسے عام بول چال سمجھا جائے، ایک ایسا اسلوب جو ممکنہ حد تک عام موجودہ عرب بول چال کے قریب ہونے کے باوجود اس بات کو باور کرواتا تھا اسے عظیم کلاسیک عربی کے درمیان وقف کیا جائے، اور یہ تصنیفات لبنانی ادبی اسکول کے نصاب کا لازمی حصہ بن جائیں۔ مارون عبود ایک باصلاحیت، متنوع، ایک سچا فنکار، اور ایک قابل مصنف تھا جس نے ساٹھ کے قریب کتابیں چھوڑیں، جن میں عربی روانی کی فراوانی، اس کی انسانی گہرائی، اور اپنے عہد کے ماحول میں اس کے اصل میں ڈوبی ہوئی ہو۔ اپنی ادبی قدر کے علاوہ مارون عبود ایک محنتی ادیب، ایک محنت کرنے والا دیہاتی، ایک عقیدت مند استاد کا نمونہ رہا، جس نے اپنی بہت سی تحریریں اپنے طلباء کی خدمت میں لکھیں، اور ایک باپ جس نے اپنے بچوں کی پرورش کرنے کے لیے ماں کا کردار بھی ادا کیا۔ مارون عبود کے تمام چہرے چمک رہے ہیں، عرب کے انٹرنیٹ پر یہاں کے انسائیکلوپیڈیا معلومات کے مطابق مارون عبود کی 60 کے قریب تالیفات ہیں۔ ان میں مشہور ترین الرؤوس ، على المحك ، مجددون و مجترون ، اقزام جبابرہ اور اشباح و رموز ہیں۔
"منير البعلبکی"
منير عبد الحفیظ البعلبکی ایک لبنانی مصنف اور مترجم تھا، جسے عربی ترجمے کا ترجمان کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا، جب ہم منیر البعلبکی کے بارے میں بات کرتے ہیں، تو ہم اس شخص کی تعریف کرتے ہیں۔ جو ایک ایسے ادبی و علمی رجحان اور ذہانت کے بارے میں ہے، جو ہر عرب دانشور، محقق اور طالب علم کے لیے ایک رول ماڈل ہے۔ منیر البعلبکی نہ صرف مصنف اور مترجم تھا، بلکہ اس کا اصل کارنامہ اس کے بیروت میں اشاعتی ادارے "دار العلم للملايين" یعنی (دار العلم فار ملینز) کا بنانا تھا، منیر البعلبکی ایک ایسے اشاعتی ادارے کا بانی تھا جس نے اس سماج میں کتاب دوستی کا حق ادا کیا تھا، منیر البعلبکی کی دوسری خدمت "قاموس المورد" تھی یہ عربی زبان کی ایک بہترین اور آج کے عہد میں عربی زبان کی بہترین لغات میں سمجھی جانے والی "المورد لغت" ہے, "المورد" ایک "انگریزی سے عربی لغت" اور ایک "المورد: "عربی سے انگریزی ڈکشنری" ہے یہ اور دو الگ لغات ہیں۔ اور عربی زبان کے لئے یہ للغات میں بہت مشہور ہیں۔ اس لیے اہل عرب میں ان کی لغات کو "بشيخ القواميس"شیخ آف دی ڈکشنریز اور منیر البعلبکی کو "شيخ المترجمين العرب" عرب مترجم کا شیخ" کہا گیا۔
منیر البعلبکی سنہء 1918 میں لبنان کے دارلحکومت بیروت میں پیدا ہوئے اور ان کی جڑیں بعلیک شہر میں واپس جڑ گئیں۔ یہی نسبت ان کے نام میں ہونے کی وجہ رہی، ان کی پیدائش ایک عام سے گھرانے میں ہوئی، ان کے والد کپڑوں کی سلائی کا کام کرتے تھے، اور بیروت میں مقیم تھے، ان کے آباء و اجداد کا تعلق بعلبک سے تھا جہاں سے انہوں نے روزگار کے لئے بیروت نقل مکانی کی تھی، مگر منیر البعلبکی نے پھر البعںک واپس نقل مکانی کی۔ منیر البعلبکی نے لبنان کے دارالحکومت بیروت میں امریکی یونی ورسٹی سے عربی ادب اور اسلامی تاریخ کے شعبہ سے گریجویشن کیا، باوجود یہ کہ ان کے مخصوص کے علوم یا زبان میں انگریزی شامل نہ رہی، مگر لیکن اس کے باوجود منیر البعلبکی نے انگریزی ادب و لسانیات کے دونوں شعبوں میں مہارت حاصل کی، اور اس میدان میں اپنے آپ کو منوایا، اسی یونیورسٹی میں بطور پروفیسر ملازمت بھی کی، پھر شاہ فیصل کالج سعودی عرب، اور دمشق میں نیشنل کالج سائنٹیفک اور اس کے لعاوہ بیروت کے مکاسڈ اسلامک چیریٹیبل کالج میں بھی استاد کے فرائض انجام دئیے۔ اس کے بعد عراق کی یونیورسٹی سے بھی مزید تعلیم حاصل کی، منیر البعلبکی نے سنہء 1945ء میں اپنے درس و تدریس کے شعبے سے باقاعدہ ہٹ کر اپنے ایک دوست بہیج عثمان کے ساتھ مل کر "دار العلم للملايين" نامی اشاعتی ادارے کی بنیاد رکھی، جہاں کتابیں چھاپنے اور کتابیں شائع کرنے کے کاروبار کا آغاز کیا۔
دار العلم للملايين
دار العلم للملايين سنہء 1945 میں ایک نجی اشاعتی ادارے کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔ لیکن اسے آج عرب دنیا میں قائم ہونے والے پہلے اشاعتی اداروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، آج دار العلم برائے ملینز اپنے پریس اور ملازمین کی ایک بڑی تعداد کا مالک ہے اور کئی موضوعات خصوصاً تعلیمی مواد پر سالانہ 40 لاکھ سے زیادہ کتابیں شائع کرتا ہے، یہ عربی زبان میں الیکٹرانک انٹلیکچوئل میڈیا تیار کرنے کے لیے بھی مشہور ہے۔ سنہء 1993 میں دار العلم للملايين نے انگریزی کتابوں کی درآمد اور تقسیم کے لیے ایک سسٹر کمپنی قائم کی جو بچوں کی کنڈر گارڈن نصابی کتب سے لے کر گریجویشن کے طلباء تک کا نصاب اشاعت کرتی ہے۔ سنہء 1998 تک پورے عرب ممالک کے تمام بڑے شہروں میں اس کے آؤٹ لیٹس بن چکے تھے۔ جن میں لغات، انسائیکلوپیڈیا، ککنگ کی کتابیں، بزنس مینجمنٹ، لسانی کتابیں، درسی کتابیں، ادبی کتابیں، طبی کتابیں، فلسفیانہ اور مذہبی کتابوں کے علاوہ بچوں کی کتابیں شامل ہیں۔ اس وقت عرب دنیا کا یہ سب سے بڑا اشاعتی ادارہ ہے۔
المورد لغت
منیر البعلبکی نے سنہء 1967 میں اپنی معرکتہ الآرا لغت "المورد" تصنیف کی، سنہء 1967 کی اس کی پہلا اشاعت ہوئی میں ہوئی جس کے بعد یہ تسلسل سے 41 مرتبہ شائع ہوتی رہی، آخری بار یہ سنہء 2007 میں شائع ہوئی، جس میں آخری 10 مرتبہ منیر البعلبکی کی وفات کے بعد بھی شائع ہوتی رہی، اس کے بعد منیر البعلبکی کے بیٹے رمزی بن منیر البعلبکی نے اسے کچھ ترمیمات اور جدید اضافے کے ساتھ المورد الاكبر" کے نام سے اضافہ شدہ لغت جس کا مقدمہ البعلبکی کے بیٹے رمزی البعلبکی نے تحریر کیا، اسے سنہء 2008 سے اب تک مزید 7 ایڈیشن شائع کئے۔ اس کی آخری بار اشاعت سنہء 2016 میں ہوئی۔ المورد سنہء 1967 سے لے کر سنہء 2022 تک لاکھوں کی تعداد میں شائع ہونے والی لغت زبان کے حوالے سے زبان، انداز اور انداز میں مختلف تھی، جس میں عربی، انگریزی، اطالوی اور جرمن لغات شامل ہیں۔ بجائے کہ یہ اساتذہ کے لئے ہو اس میں زیادہ تر عوام کے لیے آسانی رکھی گئی، اس کے کئی شائع ہونے والے مسودے مڈل اور ہائی اسکولوں اور اس طرح کے طلباء کے لئے وقف کیے گئے تھے اس لئے وہ طلباء کےلئے ایک مثالی لغت بن گئی۔
منیر البعلبکی جسمانی طور پر سنہء 1997 بیمار ہوئے، پہلے وہ کومے میں چلے گئے، ڈیڑھ سال سے زائد عرصہ تک کونہ کی حالت میں رہے بلآخر جون 1999 ء میں اس دنیا سے رخصت ہوئے، مگر پنے گرانقدر علمی کاموں کی وجہ سے آج بھی اہل عرب میں زندہ ہیں، منیر البعلبکی کی کئی کئی انگریزی کتابوں کا عربی میں ترجمہ بھی ان کا عملی کارنامہ ہے ان کی عربی زبان میں تراجم شدہ کتب یہ ہیں۔
قاموس المورد
موسوعة المورد
قصة تجاربي مع الحقيقة ، للمهاتما غاندي.
الإسلام والعرب ، لروم لاندو.
تاريخ الشعوب الإسلاميّة ، لكارل بروكلمان بالإشتراك مع د. نبيه أمين فارس.
دفاع عن الإسلام ، لفاغليري.
حياة محمد ورسالته ، لمولانا محمد علي.
البؤساء ، لفيكتور هيغو ، في خمسة مجلدات.
قصة مدينتين ، لتشارلز ديكنز.
كوخ العم توم ، لهارييت ستاو.
المواطن توم بين ، لهوارد فاست.
العجوز والبحر ، لإرنست همنگواي.
رواد الفكر الإشتراكي ، للبرفسور ج . د . هـ . كول.
كيف تفكر ، للدكتور جبسون.
منیر البعلبکی کی خدمات کے نتیجے میں انہیں سراہا گیا، منیر البعلبکی کو ان کی خدمات کے بدلے عرب دنیا سے بہت سے اعزازات ملے۔انہیں بہترین لبنانی مصنف کے طور پر "سعید اکل ایوارڈ" سے نوازا گیا
انسائیکلوپیڈیا آف ریسورس لکھنے پر انہیں "کویت فاؤنڈیشن فار ایڈوانسمنٹ آف سائنسز ایوارڈ" سے بھی نوازا گیا۔وہ قاہرہ میں عربی زبان کی اکیڈمی کے رکن کے طور پر بھی منتخب رہے۔سوشلسٹ تھیٹ کے علمبردار کتاب کے ترجمے پر انہیں فرینڈز آف بُکس ایوارڈ بھی ملا۔
نوٹ:
1- اس موضوع کے لئے دو سال پہلے عرب میں العربیہ اخبار میں دو دو لائنوں کا تعارف دیکھا تھا، ان شخصیات کے حالات زںدگی پر مزید ریسرچ کے لئے عرب ویکیپڈیا، بہت ساری عرب ویب سائٹس، شخصیات کو پڑھا، تب جاکر یہ مضمون مکمل ہوسکا، ریفرنسز اس لئے نہیں لکھ سکتا کہ صرف اس مضمون کے لئے سو سے زائد ویب سائٹس سے استفادہ لیا گیا ہے، اور ذاتی وجوہات کی وجہ سے اسے مکمل کرنے میں قریب دو سال کا ہی عرصہ لگا۔
2- یہ پانچ افراد ہی نہیں بلکہ ان کے علاوہ بھی بہت سارے مسیحی علماء و ادباء کی عربی زبان کی ترقی کی خدمات موجود ہیں، حتی کہ ان تعارف کردہ شخصیات کی اولادوں نے بھی عربی زبان کی خدمت میں حصہ ڈالا ہے۔ ان افراد کا خصوصی ذکر سلطنت عثمانیہ کے عرب میں تسلط کے دوران یا اس عہد میں اس تسلط کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انتشار کے جواب میں عرب نیشنلزم میں ان کی دلچسپی یا مزاحمت کا ایک رنگ عربی زبان کو ترکوں کی جانب سے معدوم کرنے کی سازش کے خلاف حیرت انگیز علمی خدمات کا ادراک ہے۔
3- اس مضمون کا ایک حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ ان تمام مسیحی علماء کی علمی تصنیفات ہمارے پاک و ہند سے لے کر پوری دنیا کے مذہبی روایتی مدارس عربی زبان کی لغات و اصطلاحات کی بنیادی تعلیم میں ان کتب سے فائدہ اٹھاتے ہیں، مگر کثرت سے طلباء یہ نہیں جانتے کہ ان لغات و انسائیکلوپیڈیا کی ان تصنیفات کے مصنفین مسیحی ہیں، پاکستان میں ان مسیحی علماء کے حوالے سے بالکل بھی اردو میں کسی معقول فورم پر کبھی تعارف بھی نہیں کروایا گیا۔
4- ہمارے ہاں خصوصا برصغیر میں مذہب کی محبت میں ہم نے عرب خطے میں عثمانیوں کی سلطنت کے وسعت کو خلافت کی محبت میں قبول کیا، حالانکہ جزائر عرب یا بلاد الشام کے خطوں میں ترک سلطنت کا پھیلاؤ صرف و صرف سلطنت کے پھیلاؤ کا حصول تھا، سلطان سلیمان القانونی کے عہد تک جب عرب خطوں میں جارحیت کی گئی، تب تک عثمانی سلطنت کا دعویٰ خلافت بھی موجود نہیں تھا، مزید کہ پہلے سے عرب میں موجود قبائل یا محدود ریاستی شکلوں میں موجود عرب مسلمان بہرحال ہر طور پر ترکوں سے زیادہ مسلم روایات، تقافت، اور اقدار پر عمل پیرا تھے، تب ترکوں کی یہ جارحیت ترکوں سے بہتر تشکیلی، ثقافتی و اقدار کی صورت عرب مسلمانوں پر زمینی یلغار کسی طور پر بھی مذہب کے نام پر نہیں ہوسکتی تھی۔ یہی وہ وجہ رہی جس کی بنیاد پر ترکوں کے خلاف ان کی جارحیت و تسلط کے بعد تسلسل سے عرب قبائل بغاوت کرتے رہے۔ اور اسی جارحیت کی روک تھام کے لئے مسلمانوں سے ہمدردی و حمایت لینے کے لئے بعد میں ترک سلطان سلیم نے اپنے دور حکومت میں ترک سلطنت سے ترک خلافت کی بنیاد رکھی, جبکہ ترک عرب مسلمانوں کو ہمیشہ بے وقوف و کم تر سمجھاتے رہے، یہی تصور برصغیری مسلمانوں نے ان عربوں کے لئے قائم رکھا۔ اسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ عرب میں تمام مذاہب کے عربوں نے مل کر ترک عثمانیوں کے خلاف ہر سطح پر مزاحمت کی۔ یہ الگ بات ہے کہ سلطنت عثمانیہ میں مسلمانوں کو کئی مقامات میں مسلم سلاطین حکمرانوں کی وجہ سے عزت و تکریم ملی، سلطنت عثمانیہ کے کئی حکمرانوں نے لگان اور ٹیکسز میں اپنی رعایا کو اس عہد کی غیر مسلم ریاستوں کے مقابل بہت حیرت انگیز طور پر رعایت دی، حتی کہ کئی عیسائی کاشتکاروں نے اس عہد میں سلطنت عثمانیہ میں ان روایات کی وجہ سے ہجرت کی، سلاطین نے عوام کی آسائش کے لئے کئی آسان ٹیکسز متعارف کروائے، علم و ہنر کے حکماء و فضلاء کو بھی بھرپور کام کرنے کے مواقع دئیے، مگر تاریخ میں سلطنتوں کی اصل حقیقت ماضی میں ہمیشہ اختیار کی وسعت ہی رہی ہے۔ ترکوں کے عربوں کی ثقافت کو معدوم کرنے کے روئیے نے ہی عربوں کو بلا تخصیص مذہب ایک پلیٹ فارم بنا دیا، اور عربوں میں مسیحی حتی کہ یہودی بھی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ترک مزاحمت کا حصہ بنے، اس تحریک نے زبان کے احیاء میں بہت اہم بڑا کردار مسیحیوں سے بھی لیا۔
5- دنیا میں فرانسیسی، روسی اور کئی یورپین ممالک کا ادب ہمارے ہاں مقبول ہوا، عرب ادب بھی کسی طور ان خطوں کے ادب سے کم نہیں رہا، مگر بدقسمتی رہی کہ ہمارے ہاں کسی طبقہ فکر سے اس پر کام نہ ہوسکا، ماسوائے نجیب محفوظ ، نزار قبانی و خلیل جبران جنہیں جب اہل مغرب نے پزیرائی دی تب ان کی کتب کے ترجمے ہمارے ہاں اردو میں مقبول ہوئے۔ ان کے علاوہ بھی عرب سے کثیر بہترین ادبی ذخائر آج بھی ترجمے کے لئے موجود ہے مگر شائد اس پر ہماری نگاہ الفت ابھی تک نہیں پہنچی۔