سائنس و ٹيكنالوجي
ڈارون کا نظريہ ارتقا دلچسپ انداز ميں
– میثم عباس علیزئی
مولوی صاحب: ڈارون صاحب، میں نے سنا ہے کہ آپ کہتے ہيں کہ انسان بندروں سے ارتقا پذیر ہوا ہے اور یہ کہ انسان بندر کی اولاد ہے، کیا یہ صحيح ہے ؟
ڈارون: جی نہیں آغا صاحب، میں نے یہ کبھي نہیں کہا ہے کہ انسان بندر کی اولاد ہے، یا بندر سے ارتقاء پذیر ہوا ہے، میرا نظریہ یہ وضاحت کرتا ہے کہ قدرتی انتخاب یعنی (natural selection) کے ذریعے وقت کے ساتھ ساتھ کس طرح انواع (species) میں تبدیلی آتی ہے، اور میری تحقیق سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ انسان اور بندر ایک ہی آباؤآجدا سے ہيں۔ یعنی تمام جاندار، بشمول انسان اور بندر، ایک مشترکہ نسب رکھتے ہیں اور قدرتی انتخاب کے عمل کے ذریعے وقت کے ساتھ ساتھ ارتقا پذیر ہوئے ہیں۔
مولوی صاحب: خوب، ڈارون صاحب، میں نے آپ کے نظریہ ارتقاء میں قدرتی انتخاب (natural selection) کے تصور کے بارے میں پڑھا ہے۔ کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ یہ اس کا مطلب ہے کیا ؟
ڈارون: قدرتی انتخاب ایک ایسا عمل ہے جو جانداروں کو ان خصلتوں کو پسند کرتے ہوئے اپنے ماحول کے مطابق ڈھالنے میں مدد کرتا ہے جو ان کے زندہ رہنے اور تولید (reproduction) کے امکانات کو بڑھاتے ہیں۔
مولوی صاحب: خوب، کیا آپ کچھ مثالوں سے اسکی وضاحت کرسکتے ہو ؟
ڈارون: جی بالكل۔ آپ تصور کریں کہ ایک جنگل میں خرگوشوں کا ایک گروہ رہتا ہے۔ کچھ خرگوش دوسروں کے مقابلے میں تیز ہو سکتے ہیں، اور کچھ کی کھال ہو سکتی ہے جو درختوں اور جھاڑیوں کے ساتھ اچھی طرح مل جاتی ہے۔ اب آپ کو کیا لگتا ہے امام صاحب وحشی جانور جیسے بھیڑے سے بچنے کے امکانات کن خرگوشوں کے زیادہ ہونگے ؟
مولوی صاحب: جی ظاہر ہے تیز رفتار خرگوش اور بہتر چھلاورن کے ساتھ بھیڑے سے بچنے کے امکانات زیادہ ہونگے۔
ڈارون: جی صحيح، یعنی سست خرگوش اور کم موثر چھلاورن والے پکڑے جانے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ تیز رفتار اور بہتر چھلاوے والے خرگوشوں کے زندہ رہنے اور بچے پیدا کرنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، وہ اپنے جینز (genes) کو رفتار اور اچھی چھلاورن کے لئے اپنی اولاد میں منتقل کریں گے اور یہی نیچرل سیلکشن ہے۔یا ایک اور آسان مثال میں دیتا ہوں، زرافے کی مثال لیتے ہيں، وقت گزرنے کے ساتھ، لمبی گردن والے زرافے درختوں میں خوراک کے ذرائع تک پہنچنے میں بہتر طور پر کامیاب ہو گئے تھے، جس سے انہیں اپنی چھوٹی گردن والے ہم منصبوں پر ایک فائدہ ملتا تھا۔ نتیجے کے طور پر، ان کے زندہ رہنے اور دوبارہ پیدا ہونے کا زیادہ امکان تھا، ان کے لمبی گردن والے جین (genes) اگلی نسل میں منتقل ہوتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ، یہ زرافے کی لمبی گردن کے ارتقاء کا باعث بنے، جو کہ اب انواع کی ایک مشہور خصوصیت ہے۔
مولوی صاحب: اچھا، بہت خوب آپ نے وضاحت کی۔ اچھا ڈارون صاحب یہ بتائے، کہ یہ قدرتی انتخاب ہمارے خدا اور اسلامی عقیدے کے خلاف کیسے ہیں ؟
ڈارون: نہیں جی، قدرتی انتخاب کے تصور کا مقصد مذہبی خدا کے خوامخواہ خلاف جانا نہیں ہے، بلکہ یہ سائنسی وضاحت کرنا ہے کہ کس طرح مختلف جانداروں کي مختلف شکلیں تیار ہوئی ہیں۔ اور تو اور، آغا صاحب بہت سے آپکے اور مختلف مذاہب کے مذہبی افراد قدرتی انتخاب کو کائنات کے ذہین ڈیزائن کے ثبوت کے طور پر بھی دیکھتے ہیں، جیسا کہ یہ بتاتے ہیں کہ زندگی کی شکلیں الہی اور خدا کی طرف سے ہی اس انداز میں ڈھال لی گئی ہیں جو ان کی بقا اور تولید کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔
مولوی صاحب: صحيح، لیکن کیا قدرتی انتخاب کا تصور یہ ظاہر نہیں کرتا ہے کہ زندگی کی کچھ شکلیں یا کچھ انواع (species) فطری طور پر دوسروں سے برتر ہیں یعنی ایک دوسرے پر فوقیت رکھتے ہیں ؟
ڈارون: جی نہیں، ضروری نہیں ہے۔ قدرتی انتخاب ان خصلتوں کی حمایت کرتا ہے جو کسی حیاتیات کو ایک خاص ماحول میں زندہ رہنے اور دوبارہ پیدا کرنے میں مدد کرتے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک زندگی کی شکل فطری طور پر دوسری سے بہتر ہے۔ زندگی کی ہر شکل کی اپنی منفرد طاقتیں اور کمزوریاں ہوتی ہیں، اور ہر ایک قدرتی دنیا کے تنوع میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔
مولوی صاحب: لیکن یہ قدرتی انتخاب (natural selection)کا تصور زمین پر زندگی کی شکلوں کی پیچیدگی (Complexities) اور تنوع (Diversity) کی وضاحت کیسے کرتا ہے ؟
ڈارون: اصل میں، قدرتی انتخاب کا تصور ہمیں یہ سمجھنے میں مدد کرتا ہے کہ زمین پر زندگی کی شکلوں کی پیچیدگی اور تنوع وقت کے ساتھ کس طرح تیار ہوئے ہیں۔ قدرتی انتخاب ایک ایسا عمل ہے جو ان خصلتوں کی حمایت کرتا ہے جو حیاتیات کو کسی خاص ماحول میں زندہ رہنے اور دوبارہ پیدا کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، یہ فائدہ مندخصلتیں آبادی میں زیادہ عام ہو جاتی ہیں، جس سے نئی نسلوں کی نشوونما اور زندگی کی شکلوں میں تنوع پیدا ہوتا ہے۔
مولوی صاحب: جی معاف کیجئے گا متفق نہیں ہوں ؟ اگر آپ ایک مثال سے وضاحت کریں.
ڈارون: جی ضرور۔ ایک جزیرے پر رہنے والے پرندوں کے گروپ کا تصور کریں۔ کچھ پرندوں کی چونچ لمبی ہوتی ہے، جبکہ کچھ کی چونچ چھوٹی ہوتی ہے۔ اگر اس جزیرے پر پرندے زمین میں گہرائی میں دبے ہوئے بیجوں کو کھاتے ہیں تو لمبی چونچ والے پرندے کی زندہ رہنے اور دوبارہ پیدا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ وہ بیج تک پہنچنے کے قابل ہوتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر، اس جزیرے پر پرندوں کی آبادی لمبی چونچوں والے پرندوں کا غلبہ بن جاتی ہے۔ کئی نسلوں کے دوران، ان پرندوں کی چونچیں تیار ہوتی رہتی ہیں اور اس سے بھی لمبی ہو سکتی ہیں، جس ماحول میں وہ رہتے ہیں اس کے مطابق ہو سکتے ہیں۔
مولوی صاحب: اچھا یہ بتائے، ڈارون، آپ کے نظریہ کی ضرورت کیوں پیش آئی جب کہ ہمارے پاس تخلیق کا نظریہ الٰہی موجود ہے؟
ڈارون : آغا صاحب، قدرتی انتخاب کے ذریعے ارتقاء کے میرے نظریہ کا مقصد کسی مذہبی عقائد یا الہٰی نظریات کو بدلنا یا اس سے تصادم نہیں تھا۔ بلکہ، یہ ایک سائنسی وضاحت ہے کہ زمین پر زندگی کی شکلیں وقت کے ساتھ کس طرح پروان چڑھی اور متنوع ہوئیں۔ یہ ان فطری عمل کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے جو سائنسی تحقیقات کے ذریعے جمع کیے گئے۔ ایک سائنسدان کے طور پر، میرا مقصد قدرتی دنیا کو سمجھنا شواہداور اور بار بار تجربات کی بنیاد پر وضاحتیں فراہم کرنا تھا۔ میرا نظریہ ارتقاء کسی خدائی خالق کے وجود یا فطرت کی وضاحت کرنے کی کوشش نہیں کرتا اور نہ ہی کسی کے امکان کی نفی کرتا ہے۔ یہ ایک سائنسی نظریہ ہے جو ہمیں ان فطری عمل کو سمجھنے میں مدد کرتا ہے جنہوں نے زمین پر زندگی کی نشوونما میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
مولوی صاحب: میرے خیال میں آپ کی وضاحتیں محض ایک تھیوری کی حیثیت رکھتی ہے اور تھیوری کی اتنی کوئی مسلّم قانون کی طرح حیثیت نہیں رکھتی۔ صحيح کہہ رہا ہوں ڈارون صاحب۔
ڈارون: آغا، اگر چہ کہ قدرتی انتخاب کے ذریعے ارتقاء کو ایک تھیوری کی حیثیت حاصل ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ قیمتی یا مفید نہیں ہے۔ سائنس کی دنیا میں تھیوری مشاہدہ شدہ حقائق کے مجموعے کے لئے ایک وضاحت ہے جس کا بار بار تجربہ کیا گیا ہے اور ثبوت کے ذریعے اس کی تائید کی گئی ہے۔ میری ارتقاء کی تھیوری کا وسیع پیمانے پر تجربہ کیا گیا ہے اور مطالعہ کے بہت سے مختلف شعبوں کے شواہد سے اس کی تائید کی گئی ہے، جیسے جینیات (genetics) اور (paleontology) کے شعبوں میں باقاعدہ میری تھیوری ثابت ہوئی ہے۔
مولوی صاحب: اچھا یہ بتاؤ آپ کا یہ نظریہ عملی زندگی میں ہماری کیا مدد کرسکتا ہے ؟
ڈارون: جی، میرا ارتقاء کے بارے میں کام کے بہت سے عملی اطلاقات ہیں جنہوں نے متعدد طریقوں سے زندگی کو سمجھنے اور بہتر بنانے میں ہماری مدد کی ہے۔
چند مثالیں عرض کرسکتا ہوں، آغا صاحب ؟
مولوی صاحب: جی ضرور، سن لیتے ہیں ۔
ڈارون: صحيح، جیسے؛
1) ادویات (medicines):
میرے کام نے بیماریوں کے لیے نئی دوائیں اور علاج تیار کرنے میں ہماری مدد کی ہے۔ یہ سمجھنے سے کہ بیکٹیریا اور وائرس کیسے تیار ہوتے ہیں اور اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحم بنتے ہیں، ہم نئے علاج تیار کر سکتے ہیں جو ان پیتھوجینز کا مقابلہ کرنے میں زیادہ موثر ہیں۔
2) زراعت (Agriculture):
ميرے ارتقاء کے کام نے فصلوں کی نئی اقسام تیار کرنے میں ہماری مدد کی ہے جو کیڑوں اور بیماریوں کے خلاف مزاحم ہیں۔ یہ سمجھ کر کہ پودوں کی انواع کس طرح تیار ہوتی ہیں اور اپنے ماحول سے مطابقت رکھتی ہیں، ہم فصل کی نئی قسمیں تیار کر سکتے ہیں جو کہ مخصوص بڑھتے ہوئے حالات کے لیے بہتر طور پر موزوں ہیں۔
3) تحفظ (Conservation) :
نظریہ ارتقاء نے ہمیں حیاتیاتی تنوع کی اہمیت اور ماحولیاتی نظام میں مختلف انواع کے باہمی ربط کو سمجھنے میں مدد کی ہے۔ اس بات کا مطالعہ کرنے سے کہ مختلف انواع و جاندار کی نشوونما کیسے ہوتی ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ کیسے تعامل کرتے ہیں، ہم تحفظ کی حکمت عملی تیار کر سکتے ہیں جو خطرے سے دوچار انواع اور جاندار کے تحفظ اور قدرتی رہائش گاہوں کو محفوظ رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔
4) فرانزک سائنس (Forensic science):
اور سب سے ضروری میرے نظریہ ارتقاء نے ڈی این اے کا تجزیہ کرنے اور ان کے جینیاتی مواد سے افراد کی شناخت کے لیے نئے طریقے تیار کرنے میں ہماری مدد کی ہے۔ یہ سمجھنے سے کہ ڈی این اے کس طرح تیار ہوتا ہے اور وقت کے ساتھ تبدیل ہوتا ہے، ہم فرانزک تجزیہ کے لیے زیادہ درست اور قابل اعتماد طریقے تیار کر سکتے ہیں۔لہذا زمین پر زندگی کے تنوع کو تشکیل دینے والے قدرتی عمل کو سمجھ کر، ہم نئی ٹیکنالوجیز اور حکمت عملی تیار کر سکتے ہیں جو صحت مند، زیادہ پائیدار زندگی گزارنے میں ہماری مدد کرتی ہیں۔
مولوی صاحب: اچھا یہ بتائيے کہ آپکا نظریہ ارتقاء زندگی کی ابتدا کی وضاحت کیسے کرتا ہے؟
ڈارون: آغا صاحب، میرا نظریہ ارتقاء کا مقصد زندگی کی ابتداء کی وضاحت کرنا نہیں ہے، بلکہ یہ کہ قدرتی انتخاب یعنی (natural selection) کے ذریعے جانداروں کی شکلیں وقت کے ساتھ ساتھ کس طرح تبدیل ہوئیں۔
مولوی صاحب: اچھا میرا آخری سوال یہ ہے کہ صحيح ہے کہ آپ کے کام نے ہمیں بہت نئے طریقے سیکھائے، ہم ترقی بھی کرسکتے ہیں مگر میرا خیال ہے آپ کی اس تھیوری نے انسان کو جانور کی حیثیت دی تو ہماری انسانیت اور اخلاقیات کا کیا ہوگا، اسکا بیڑا تو آپ کي تھیوری اور کام نے غرق کردیا ؟
ڈارون: نہیں مولوی صاحب، یہ واقعی ایک غلط فہمی ہے، میں نے خود انسانی معاشروں میں اخلاقیات اور اخلاقیات کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے، اور میں نے اپنی بعد کی تصانیف میں اس موضوع پر تفصیل سے لکھا ہے۔ میں نے درحقیقت یہ دلیل دی کہ انسانوں نے اخلاقی اور اخلاقی رویے کی صلاحیت کو تیار کیا ہے، اور یہ کہ ان خصلتوں نے ایک نسل کے طور پر ہماری کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگرچہ کچھ لوگ نظریہ ارتقاء کی یہ تشریح کر سکتے ہیں کہ انسان دوسرے جانور ہی کی طرح ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہمیں اپنے اخلاقی اور اخلاقی اصولوں کو ترک کر دینا چاہیے۔ بلکہ، ہمیں قدرتی دنیا میں اپنے مقام کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیئے جو ہم نے بہت مشقت کی بعد حاصل کی ہے اور انسانوں اور غیر انسانی جانوروں سمیت تمام جانداروں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا چاہیئے۔
مولوی صاحب: بہرحال، شکریہ ڈارون، بہت اچھا لگا، بہت سے چیزوں کی مجھے وضاحت ہوئی۔
ڈارون: شکریہ آغا صاحب، مجھے بھی خوشی ہوئی۔