سکول ٹیچر انیس ‘دی پرل آف دی اورینٹ ‘ میں داخل ہوئی جو اس وقت بالکل ویران تھا ۔سیدھی کاؤنٹر پر پہنچی جہاں ریاض حلابی شوخ پھولوں والے کپڑے کا تھان لپیٹ رہا تھا ۔سکول ٹیچر نے اسے بتایا کہ اس نے اپنے مہمان سرائے میں ایک مہمان کا سر کاٹ دیا ہے ۔تاجر نے اپنا سفید رومال نکالا اور زوردار آواز کے ساتھ منہ پر لپیٹا ۔ تم نے کیا کہا انیس ؟ ۔”وہی جو تم نے سنا ،ترک “"کیا وہ مر گیا ؟ "“یقینا‘‘تو اب تم کیا کرنا چاہتی ہو ؟ "“ یہی پوچھنے تو تمھارے پاس آئی ہوں ۔” وہ بالوں کی لٹ سنوارتے ہوے بولی ۔’’ میرا خیال ہے کہ میں سٹور بند کر لوں ۔ریاض حلابی نے آہ بھری ۔
دونوں اتنے عرصے سے ایک دوسرے کو جانتے تھے کہ دونوں کو یاد نہیں تھا کہ کتنے سال بیت گئے ہیں ۔اگرچہ دونوں اس دن کی ہر تفصیل دہرا سکتے تھے جس دن ان کی دوستی شروع ہوئی تھی ۔اس وقت حلابی گلی گلی گھوم پھر کر اپنی اشیاء بیچتا تھا ۔وہ ایسا تاجر تھا جو سمت یا راستہ مقرر کئے بغیر گھومتا تھا ۔ وہ ایک عرب مہاجر تھا ۔جعلی ترک پاسپورٹ پر آیا تھا ۔تنہا ،تھکا ماندہ ،کسی خرگوش جیسا کٹا ہوا تالو ،کسی درخت کے سائے میں بیٹھنے کا خواہشمند ۔انیس مضبوط کولہوں اور سیدھے کندھوں والی جوان عورت تھی ۔وہ قصبے کی واحد سکول ٹیچر تھی۔اس کا بارہ سال کا بیٹا تھا ۔جو وقتی محبت کی پیداوار تھا ۔لڑکا اس کی زندگی کا محور تھا ۔وہ اس کا خیال غیر متزلزل خلوص و عقیدت سے رکھتی تھی ۔ جو نظم و ضبط وہ سکول کے دوسرے بچوں پر نافذ کرتی تھی اپنے بیٹے سے بھی ان کی پابندی کا تقاضا کرتی- وہ نہیں چاہتی تھی کہ کسی کو بھی یہ کہنے کا موقع ملے کہ اس نے بچے کی اچھی تربیت نہیں کی ساتھ ہی وہ لڑکے کو باپ کی طرف سے ملنے والی موروثی بے راہروی سے بچانا چاہتی تھی وہ اپنے بیٹے کو پاکیزہ ذہن اور رحمدل بنانا چاہتی تھی ۔جس شام ریاض حلابی اگوا سانتا میں ایک سرے سے داخل ہوا ،اسی شام دوسرے سرے سے لڑکوں کا ایک گروہ سکول ٹیچر کے بیٹے کی لاش دیسی ساخت کے سٹریچر پر ڈالے قصبے میں داخل ہوا سکول ٹیچر انیس کا لڑکا کسی شخص کی جائیداد پر درخت سے گرے آم اٹھانے کے لئے داخل ہوا تھا ۔جائیداد کے مالک نے جسے قصبے میں کوئی بھی اچھی طرح نہیں جانتا تھا ،لڑکے کو ڈرانے کے لئے رائفل سے فائر کیا ،لیکن اس فائر نے لڑکے کے ما تھے میں سوراخ کر دیا ۔اور لڑکا موقع پر ہی مر گیا اسی لمحے اس اجنبی سوداگر ریاض حلابی کو اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا اندازہ ہوا ۔بغیر کچھ جانے وہ سارے معاملے کا روح رواں بن چکا تھا ۔ایک طرف ماں کو تسلی دے رہا تھا تو ساتھ ہی جنازے کے انتظامات خاندان کے رکن کے طرح سنبھال رہا تھا ۔اس کے علاوہ ہجوم کو مجرم کے اعضاء چیرنے سے روکنے اور پرسکون رکھنے کی کوشش کر رہا تھا اس دوران مجرم نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ یہاں رہنے سے اس کی جان کو خطرہ ہے وہاں سے ہمیشہ کے لئے بھاگ گیا ۔
اگلے دن ریاض حلابی کی سربراہی میں ہجوم قبرستان سے سیدھا اس جگہ پہنچا جہاں لڑکا مرا تھا ۔اگوا سانتا کے تمام رہائشی اس دن آم توڑتے رہے ،کھڑکیوں سے پھینکتے رہے ،یہاں تک کے گھر فرش سے چھت تک آموں سے بھر گیا ۔کچھ ہفتوں بعد سورج نے پھلوں کو خمیر کر دیا اور وہ پھٹ گئے ، جن سے بدبودار رس نکل کر پھیلنے لگا دیواریں سنہری خون سے بھر گئیں ۔میٹھی پیپ سے رہائشی مکان قبل از تاریخ کے طول و عرض کا وحشی جانور گلنے سڑنے کے عمل میں مچھروں کا گڑھ بن چکا تھا ۔
لڑکے کی موت ،ریاض حلابی کا کردار ،اور اگوا سانتا میں اس کا استقبال ،اس سب نے ریاض حلابی کی زندگی کا راستہ متعین کر دیا- وہ اپنا خانہ بدوش حسب نسب بھول کر اس قصبے میں ہمیشہ کے لئے ٹھہر گیا ۔وہیں کاروبار شروع کردیا ۔شادی کی ،رنڈوا ہوا دوسری شادی کی اور تجارت جاری رکھی اس دوران اس کی شہرت میں بطور انصاف پسند شخص کے اضافہ ہوا ۔اس دوران انیس نے بچوں کی کئی نسلوں کو اتنے ہی پیار اور توجہ سے تعلیم دی جتنی کہ وہ اپنے بچے کو دیتی ۔اس ساری محنت کے دوران انیس کی ساری توانائیاں خرچ ہو گئیں ۔تب شہر سے آنے والی اساتذہ کے لئے اس نے اپنی جگہ چھوڑ دی اور ریٹائر ہو گئی ۔اس نے محسوس کیا کہ وہ یکدم بوڑھی ہو گئی ہے- جیسے وقت پر لگا کر اڑ رہا ہے ۔دن اتنی تیزی سے گزرنے لگے کہ اسے سمجھ نہ آتی کہ گھنٹے کدھر جا رہے ہیں ۔ میں بولائی بولائی پھرتی ہوں ۔ ترک ،میں مر رہی ہوں اور مجھے پتہ بھی نہیں - تم ہمیشہ کی طرح صحت مند ہو۔ریاض حلابی نے جواب دیا ، مسلۂ صرف اتنا ہے کہ تم بور ہوتی ہو ،تمہیں بے کار نہیں رہنا چاہیے-ساتھ ہی حلابی نے اسے مشورہ دیا کہ وہ اپنے گھر میں کچھ کمروں کا اضافہ کر لے اور مہمان ٹھہرانے شروع کر دے ۔ہمارے قصبے میں کوئی ہوٹل نہیں ہے ۔انیس نے بات آگے بڑھاتے ہوے کہا ہمارے ہاں سیاح بھی نہیں آتے ۔صاف ستھرا بستر اور گرم گرم ناشتہ مسافروں کے لئے کسی بھی نعمت سے کم نہیں ۔تب سے نیشنل پٹرولیم کے ٹرک ڈرائیور جب ان کے دماغ تھکاوٹ اور تناؤ سے فریب نظر کا شکار ہو جاتے ،اس کے مہمان خانے میں شب بسری کے لئے آنے لگے ۔انیس پورے اگوا سانتا کی سب سے باعزت بوڑھی عورت تھی ۔اس نے بہت ساری دہائیوں تک قصبے کے بچوں کو پڑھایا تھا ۔جس سے اسے ان کی زندگی کے تمام معاملات میں مداخلت کا حق مل گیا تھا ۔اور جب ضرورت ہوتی وہ ان کے کان بھی کھینچتی ۔لڑکیاں اس کی رائے جاننے کے لئے اپنے بوائے فرینڈ اس سے ملو انے لاتیں ۔خاوند اور بیویاں اپنے خانگی مسائل میں اس سے مشورے مانگتے ۔ وہ انہیں مطمئن کرتی ۔ان کے درمیان تصفیہ کراتی ۔سارے قصبے کے مسائل میں منصف بنائی جاتی ۔اس کا اختیار کسی بھی پادری ،ڈاکٹر یا پولیس سے بڑھ کر تھا ۔کوئی بھی اسے ان اختیارات کے استعمال سے روکتا نہیں تھا ۔ ایک دفعہ وہ جیل میں گھس گئی ،وہاں پر تعینات آفسر کے پاس سے بغیر کوئی بات چیت کئے گزر گئی ۔دیوار پر کیل کے ساتھ لگی چابیاں اٹھائیں ،اور جیل کی ایک کوٹھڑی سے اپنے ایک طالبعلم کو جسے شراب کے نشے میں ہلڑ بازی کرتے پکڑا گیا تھا ‘چھڑا کر لے گئی ۔آفسر نے اس کے راستے میں آنے کی کوشش کی لیکن اس نے اسے پرے دھکیلتے ہوے لڑکے کو گریبان سے پکڑ کر باہر دھکیل دیا ۔سڑک پر پہنچ کر اسے چند تھپڑ مارے اور اسے یقین دلایا کہ اگر اگلی دفعہ اس نے یہ حرکت کی تو وہ اس کی پینٹ اتارے گی اور اس کے چوتڑوں پر جوتے مارے گی جو وہ کبھی نہیں بھولے گا جس دن انیس نے ریاض حلابی کو بتایا کہ اس نے اپنے مہمان کو قتل کر دیا ہے ،تو اسے ایک لمحے کے لئے بھی اس کی بات پر شک نہیں ہوا ،کیوں کہ وہ اسے اچھی طرح جانتا تھا ۔اس نے انیس کا ہاتھ پکڑا ،اسے دی پرل آف دی اورینٹ سے دو عمارتیں پرے اس کے گھر کے پاس لے گیا ۔یہ قصبے کی سب سے بڑی عمارت تھی ۔ایک کھلا برآمدہ تھا ،جہاں جھولے کھٹولے لٹکے ہوئے تھے گرم دوپہر وں کے قیلولہ کے لئے ۔ہر کمرے میں چھت کے پنکھے تھے اس وقت گھر بالکل خالی دکھائی دیتا تھا صرف ایک مہمان دیوان خانے میں بیٹھا ہوا بئیر پیتے ہوے ٹیلی ویژن سے لطف اندوز ہو رہا تھا ۔عرب تاجر نے سرگوشی میں پوچھا ،”وہ کہاں ہے ؟ “ ۔ پچھلے کمروں میں سے ایک میں ۔ انیس نے اپنی آواز آہستہ کئے بغیر جواب دیا ۔وہ حلابی کو کمروں کی اس قطار کے پاس لے گئی جو اس نے کرائے پر اٹھائےہوئے تھے ۔سب ایک محرابی چھت والے رستے سے ملے ہوئے تھے ۔جہاں نیلوفر کی بیلیں ستونوں ،گملوں اور شہتیروں پر چڑھی ہوئی تھیں ۔صحن میں لگے کیلے اور سندس کے درختوں کو علیحدہ کرنے کے لئے باڑ کا کام دے رہی تھیں انیس نے آخری دروازہ کھولا ،حلابی کمرے میں داخل ہوا .پردے گرے ہوئے تھے بستر پر ایک بے ضرر دکھائی دیتے شخص کی لاش دیکھی ۔ایک خستہ حال اجنبی ،جس کے پاجامے اس کے فضلے سے لتھڑے ہوے تھے ۔اس کا سر گوشت کی پٹی سے لٹک رہا تھا ۔اس کے چہرے پر تکلیف کے خوفناک تاثرات تھے ۔جیسے وہ اس ساری پریشانی ،خون اور خود کو قتل کرنے کی اجازت دینے کے لئے معذرت کر رہا ہو ۔ریاض حلابی کمرے میں موجود اکلوتی کرسی پر بیٹھ گیا آنکھیں فرش پر جمی تھیں اپنے معدے سے اٹھنے والی ابکائی کو روکنے کی کوشش کر رہا تھا انیس بازو سینے پر باندھے کھڑی رہی ۔دل ہی دل میں حساب کتاب کر رہی تھی کہ یہ سارے داغ دھبے دھونے میں کتنے دن لگیں گے،اور پھر مزید دو دن اس کمرے سے بد بو اور خوف دور کرنے میں لگ جائیں گے ۔تم نے یہ سب کیسے کیا ۔ ؟ آخر کار حلابی نے پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے کہا۔ ناریل کی کٹائی میں استعمال ہونے والے چاقو کے ساتھ ۔میں اس کے پیچھے سے آئی اور ایک ہی وار میں اس کا سر قلم کر دیا ۔اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ اسے کے ساتھ کیا ہوا - لیکن کیوں۔ ؟ مجھے یہ کرنا پڑا ،یہی قسمت میں تھا ۔بہت بدقسمت بوڑھا تھا ۔وہ اگوا سانتا رکنے نہیں آیا تھا- وہ گاؤں کے اندر سے گزر رہا تھا ۔ایک پتھر اس کی گاڑی کے شیشے (wind shield) کو لگا وہ یہاں کچھ گھنٹے گزارنے آیا تاکہ اس دوران گاڑی کی نئی ونڈ شیلڈ ّڈھونڈی جا سکے ۔وہ بہت بدل گیا تھا ۔ہم سب بوڑھے ہو گئے ہیں ۔لیکن میں نے اسے فوراً پہچان لیا ۔میں ان تمام سالوں میں اس کا انتظار کرتی رہی تھی ۔میں جانتی تھی کہ جلد یا بدیر ضرور آئے گا ۔یہ آموں والا شخص ہے ۔ اللہ ہمیں اپنے حفظ و امان میں رکھے - ریاض حلابی بڑ بڑایا - تمھارا کیا خیال ہے ہمیں جیل کے افسر کو بلانا چاہیے ؟
نہیں تم ایسا کیوں کہ رہی ہو ؟ اس لئے کہ میں حق پر ہوں ۔اس نے میرا بیٹا قتل کیا تھا
افسر یہ بات نہیں سمجھے گا ،انیس -آنکھ کے بدلے آنکھ ،دانت کے بدلے دانت ،ترک کیا تمھارے مذہب میں ایسا نہیں ہے ؟ لیکن قانون کا طریق کار مختلف ہے ۔ اگر ایسا ہے تو ہم اسے ذرا ٹھیک کر دیتے ہیں ،اور کہہ دیتے ہیں کہ اس نے خود کشی کی ہے
اسے چھونا مت ۔ گھر میں اس وقت کتنے مہمان ہیں۔؟ بس وہی ایک ٹرک ڈرائیور وہ بھی ذرا گرمی کم ہو تو چلا جائے گا ۔اسے دارالحکومت تک پہنچنا ہے ۔ ٹھیک ،مزید مہمان نہ آنے دینا ۔اس کمرے کو تالا لگا دو اور میرا انتظار کرو ۔میں رات کو واپس آؤں گا ۔ تم کیا کرنا چاہتے ہو ؟ میں اپنے طریقے سے اس معاملے کو نبٹاؤں گا ۔
ریاض حلابی پینسٹھ سال کا تھا ۔لیکن اس نے اپنی جوانی والی طاقت بحال رکھی ہوئی تھی اور اس کے حوصلے بھی جوان تھے اسے اس گاؤں میں آمد پر ہجوم کا لیڈر بنا دیا گیا تھا ۔وہ سکول ٹیچر کے گھر سے نکلا ،اس سہ پہر اس نے جن بہت سارے لوگوں سے ملنا تھا ،ان میں سے پہلے کے پاس پہنچا ،جلد ہی ایک مسلسل بھنبھناہٹ پورے گاؤں میں پھیلنے لگی ۔اگوا سانتا کے لوگ بہت عرصے کی سستی سے جاگ اٹھے تھے گھر سے گھر تک پھیلائی جانے والی ناقابل یقین خبر سے جوشیلے ہو رہے تھے ۔ اس سرگوشی میں ایسی اطلاع تھی جسے اونچی آواز سے بتانے سے منع کیا گیا تھا، خاص مقام حاصل کر چکی تھی ۔شام تک پورے قصبے میں بے قرار سی خوشی محسوس کی جا سکتی تھی ۔جو سالوں تک یاد رہنے والی تھی ۔جو اجنبیوں کے لئے ناقابل فہم تھی ۔شام کو لوگ شراب خانہ پہنچنا شروع ہو گئے ۔ عورتوں نے اپنی باورچی خانے کی کرسیاں باہر فٹ ہاتھ پر نکال لیں اور شام کی ٹھنڈی ہوا سے لطف ہونے کے لئے بیٹھ گئیں نوجوان پلازہ میں اکھٹے ہوگئے جیسے کہ آج اتوار ہو ۔جیل آفسر اور اس کے ساتھیوں نے لاپرواہی سے چکر لگایا اور پھر طوائف خانے میں لڑکیوں کی دعوتیں قبول کر لیں جو ایک سالگرہ پارٹی منا رہی تھیں ۔کہا جاتا ہے کہ اس رات سڑکوں پر راہبوں کو خراج تحسین پیش کرنے والے دن سے بھی زیادہ لوگ تھے ۔سب بڑے انہماک سے اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے ۔یوں لگتا تھا کہ سب کسی فلم میں اپنے اپنے کردار کی ریہرسل کر رہے تھے ۔کچھ ڈومینو کھیل رہے تھے ۔کچھ شراب پی رہے تھے ، کچھ گلی کی نکڑ پر کھڑے سگریٹ پی رہے تھے کچھ جوڑے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے چہل قدمی کر رہے تھے ۔مائیں اپنے بچوں کے پیچھے بھاگ رہی تھیں ۔نانیاں دادیاں کھلے دروازوں سے جھانک رہی تھیں پادریوں نے کلیسائی علاقے میں لیمپ جلا لئے تھے گھنٹیاں بجائی جا رہی تھیں لیکن کوئی بھی عبادت کے موڈ میں نہیں تھا ۔نو بج کر تیس منٹ ہر سکول ٹیچر انیس کے گھر میٹنگ تھی جس میں ترک ،قصبے کا ڈاکٹر اور چار جوان لڑکے جنہیں سکول ٹیچر نے گریڈ اوّل سے پڑھایا تھا اور اب وہ فوجی خدمات کی ادائیگی سے فارغ بھاری بھرکم فوجی تھے ،موجود تھے ۔ریاض انہیں پچھلے کمرے میں لے گیا ۔جہاں لاش مچھروں سے بھری پڑی تھی ۔کھڑکی کھلی تھی اور مچھروں کا وقت تھا .انہوں نے زور لگا کر لاش کینوس بیگ میں ٹھونسی ،اسے گھسیٹ کر سڑک تک لائے اور پھر اسے ریاض حلابی کے ٹرک کے پچھلے حصے میں پھینک دیا ۔قصبے سے ڈرائیو کرتے نکلے ،سیدھے مرکزی سڑک پر پہنچے ،رستے میں جو بھی نظر آیا معمول کے مطابق اسے ہاتھ ہلایا ۔کچھ رہائشیوں نے معمول سے ہٹ کر زیادہ جوش و خروش سے سلام کیا ۔جب کہ کچھ نے ایسے ظاہر کیا جیسے انہوں نے کچھ نہیں دیکھا ۔چمکدار چاند کی روشنی میں اس جگہ پہنچے جہاں سالوں پہلے سکول ٹیچر انیس کا بیٹا آخری بار آم اٹھانے کے لئے کھڑا ہوا تھا ۔ وہ وقت اور غفلت سے بڑھی جنگلی گھاس پھونس میں گھری بہت بڑی عمارت تھی ،جہاں آم کے درخت مرجھا گئے تھے اور کچھ گرے ہوے آموں نے زمین میں جڑیں پھیلا کر نئے
پودوں کے جھنڈ کھڑے کر دیے تھے تھے ۔
مردوں نے اپنی مٹی کے تیل کی لالٹینیں جلا لیں اور گھنی جھاڑیوں میں گھس کر اپنے چاقؤوں سے رستہ بنانے لگے ۔جب محسوس کیا کہ کافی دور نکل آئے ہیں تو ایک بہت بڑے درخت کی جڑوں میں ایک گہرا گڑھا کھودا اور لاش والا کینوس بیگ اس میں ڈال دیا ۔مٹی ڈالنے سے قبل ریاض حلابی نے کوئی مختصر سلامی دعا پڑھی ،کیوں کہ اسے اور کچھ یاد نہیں تھا ۔آدھی رات کو جب واپس گاؤں پہنچے تو دیکھا کہ ابھی تک کوئی سونے کے لئے نہیں گیا ۔ہر کھڑکی سے روشنی نظر آ رہی تھی ۔لوگ سڑکوں پر چل پھر رہے تھے ۔اس دوران سکول ٹیچر انیس نے پچھلے کمرے میں دیواریں اور فرنیچر صابن اور پانی سے رگڑ رگڑ کر دھو ڈالے تھے ۔بستر کی چادریں جلا دیں تھیں اور مزیدار ڈنر اور شراب اور لائین ایپل جوس سے بھرے گھڑے کے ساتھ دوستوں کی واپسی کا انتظار کر رہی تھی ۔خوش گپیوں کے ساتھ کھانا کھایا گیا ۔ریاض حلابی سب سے آخر میں رخصت ہوا ۔اس رات اس نے پہلی بار اپنے آپ کو بوڑھا محسوس کیا ۔ دروازے کے پاس سکول ٹیچر انیس نے اس کا ہاتھ پکڑا اور کچھ دیر پکڑے رکھا ۔
شکریہ ،ترک ‘ اس نے کہا ۔ انیس تم مجھے ہی بتانے کیوں آئیں ؟ اس لئے کہ تم ہی وہ شخص ہو جس سے میں دنیا میں سب سے زیادہ محبت کرتی ہوں ۔ تمہیں میرے بیٹے کا باپ ہونا چاہیے تھا ۔
اگلے دن اگوا سانتا کے رہائشی شاندار ملی بھگت سے سرفراز اپنے روزمرہ کے معمول کی زندگی کو لوٹ گئے ۔اس راز کی وجہ سے جو اچھے ہمسایوں نے چھپا لیا ۔ ایسا راز جس کی مکمل جاں فشانی سے حفاظت کی گئی ۔جو انصاف کے روایت کے طور پر کئی سالوں تک نسلوں میں منتقل ہوتا رہا ۔ جب تک سکول ٹیچر کی موت نے ہمیں اس سے آزاد نہ کردیا ،اور اب میں یہ کہانی سنا سکتا ہوں ۔
(انگریزی سے اردو ترجمہ)
بشکریہ : مترجم : عقیلہ منصور جدون (راولپنڈی)