یہ نو مارچ انیس سو پینتالیس کا واقعہ ہے کہ اتفاق سے عجیب بات ہوئی کہ جس وقت ایک بڑا ہوائی حملہ ہوا اس وقت گوما کا آسمان بہت صاف تھا اور شفاف تھا ایک جہاز جو شاید اوٹا کے علاقے سے اٹھا تھا، شمالی ہواؤں کے ساتھ اڑتا ہوا گزر گیا۔
میں جو ایک ایسا دانش ور تھا، جس نے پیشہ کے طور پر کھیتی باڑی کا کام اختیار کیا تھا، اسی صبح ناشی کی کے راستے کوہ اگاکی سے نیچے اتر کر آیا تھا۔ اگاکی ایک ایسا پہاڑ ہے جس پر برف جمتے جمتے یخ ہوجاتی ہے۔ اگاکی سے اترکر میں نے کامی کمبارا سے آشنیو لائین گرین ٹرین پکڑی تھی اور پھر ریل بدلنے کے لیے تاکا ساکی پر اترا تھا۔ مجھے ایک مرتبہ اور گاڑی بدلنا تھی تاکہ شنگو لائن کی ریلوے لائن کے ذریعہ اوای نو پہنچ سکوں۔یہ تقریباً سہ پہر کے ساڑھے چار کا وقت تھا۔ اگرچہ آسمان اب تک شفاف تھا۔ لیکن آسمان کے نیچے مشینیں تیار کرنے والے کارخانے کے اس قصبہ کی چھتوں پر دھول اور سدا بہار درختوں کے پتوں اور ڈالوں کے درمیانی خلا سے نظر آنے والے آسمان پر جیسے سیاہ اندھیرا سا اترتا محسوس ہورہا تھا۔پلیٹ فارم پر واقع ویٹنگ روم میں بھی اندھیرا گھپ ہورہا تھا۔ لوگوں کا ایک جم غفیر اس میں گھسا ہوا تھا۔ ہر شخص کو اپنے اپنے سامان کی پڑی تھی۔ لوگ بانس کے بڑے بڑے صندوق سبزیوں کے ٹوکرے کندھوں پر اٹھائے یا زمین پر اپنے پاس رکھے بیٹھے تھے۔ شور، وحشت اور سراسیمگی سے سارا کمرہ گونج رہا تھا۔ عجیب ہل چل سی مچی ہوئی تھی۔ میں نے اپنے سامنے دیوار پر ٹنگے بڑے سے گھنٹے کی طرف دیکھا۔ میں ویٹنگ روم سے نکلنے ہی کو تھا کہ پولیس کا ایک دستہ داخل ہوا۔ ان کی ٹھوڑیوں کے نیچے ان کی ٹوپیوں کے تسمے کسے ہوئے تھے۔ وہ اسٹیشن کے ایک پل کو طے کرکے پلیٹ فارم پر پہنچے تھے۔ اس دستے میں پولیس کے افسراعلیٰ اور ان کے ماتحت شامل تھے۔ ان کے لوہے کی ہیلمٹس ان کے پیچھے لٹک رہے تھے۔ انہوں نے ہاتھوں پر سفید دستانے چڑھا رکھے تھے۔ وہ اسٹیشن کے ایک ماتحت اہل کارسے کسی معاملے پر بات چیت کررہے تھے جوان کے ساتھ ہی آیا تھا، پھر ایسا معلوم ہوا کہ پولیس چیف نے مداخلت کر کے بات ختم کردی۔ پھر وہ کلرک ایک مرتبہ پھر پل طے کرکے پلیٹ فارم کی دوسری طرف گیا اور دفتر سے سفید چاک کا ایک ٹکڑا لیے ہوئے ہوئے واپس آگیا اور اس نے پلیٹ فارم کی زمین پر ایک سفید لکیر کھینچی۔
میں زینہ کے ساتھ ایک ٹانگ ٹیڑھی کیے کھڑا تھا۔ میرے پیر میںموچ آگئی تھی۔ مسافروں کے ہجوم میں سے لوہے کی کیلوں سے بھرا ہوا تھیلا کسی نے میرے پیر پر پٹخ دیا تھا۔ کلرک میرے قریب آیا تو اس نے مجھے سختی سے دھکیل کر ایک طرف کردیا۔ اور پلیٹ فارم پر سفید لکیر کھینچنا شروع کردی۔ ان دنوں عام طور پر ریلیں بہت دیر سے آتی تھیں اور مسافر اس کی تاخیر کے ساتھ ساتھ کلرکوں کی جھڑکیوں کے بھی عادی ہوگئے تھے۔ سب کے سب بڑے تجسس سے دیکھتے رہے۔ کچھ ہی دیرمیں برف سے ڈھکی ہوئی ریل پہنچی۔ قبل اس کے کہ میں اس کو پوری طرح دیکھ پاتا، سارے پولیس والے ایک دم اکٹھے ہوگئے۔ وہ ایک کالے ڈھیر کی مانند نظر آرہے تھے۔ اب وہ دوگرپوں میں تقسیم ہوگئے۔ وہ گاڑی کے اس ڈبے کے دونوں دروازوں میں کھڑے ہوگئے جس میں‘میں سوار ہونے والا تھا۔ سفید لکیر اسی ڈبے کے سامنے نکالی گئی تھی۔ کمپارٹمنٹ بالکل خالی معلوم ہورہا تھا۔ لیکن جوں ہی میں نے اس میں گھسنا چاہا، ایک پولیس والے نے زبردستی مجھے چڑھنے سے روک دیا۔ تب مجھے پتہ چلا کہ اس کے اندر ایک نوجوان بیٹھا ہے یقیناً اس کا خدمت گار ہوگا۔ اس کی مخصوص ناک کو دیکھتے ہی جان گیا کہ یہ شہزادہ تاکاماتسو ہے۔
شہزادے کو دیکھ کر مجھ پر ایک ناقابلِ بیان جذباتی کیفیت طاری ہوگئی۔ آپ خود سوچیں کہ اگر آپ کی نظر کسی ایسی شخصیت پر پڑ جائے جس کو خیال و خواب سمجھا جاتا رہا ہو اس کو جعلی اور خیالی شخصیت خیال کیا جاتا ہو اور پھر اچانک وہ شخصیت آپ کی نظر کے سامنے بیٹھی ہو تو آپ کے جذبات کا کیا حال ہوگا، سو وہی میرا حال ہوا۔ میں اس خوبصورت نوجوان کو دیکھتا رہ گیا۔ فطرتاً میرا جی چاہا کہ لوگوں کو چلا چلا کر چیخ چیخ کر بتاوٗں کہ لوگو دیکھو وہ رہا شہزادہ۔ یہ تو ایک حقیقت ہے کوئی جعلی یا فرضی نہیں بلکہ ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے۔ لیکن اس حرکت کے لیے یہ وقت مناسب نہ تھا۔ نہ میں اور نہ ہی کوئی دوسرا مسافر یہ حرکت کرسکتا تھا۔ ڈبے میں بیٹھنا تو اسی وقت ممکن تھا کہ کسی نہ کسی طرح کوئی جان کا خطرہ مول لے کر ڈبے میں چڑھ جائے اور پھر وہاں بیٹھ کر گاڑی چھوٹنے کا گھنٹوں انتظار کرے۔
میں ایک درمیان والے ڈبے کی طرف لپکا لیکن ابھی تک میرا ذہن شہزادے کو دیکھنے کی وجہ سے حیران اور اتنا ماؤف ہورہا تھا کہ میں نقل و حرکت بمشکل کرسکتا تھا۔ میں ابھی تک مسافروں کی قطار کے آخر میں ہی کھڑا تھا۔ اور منہ اٹھا اٹھا کر ڈبے کی طرف کی طرف یہ معلوم کرنے کو دیکھ رہا تھا کہ اندر گھسنے کی کوئی جگہ ہوسکتی ہے۔
ڈبے پر نگاہ ڈال کر اس کے خوشگوار اور شفاف ماحول کا اندازہ ہوا۔ اس کے نیلے کشن اور صفائی کو دیکھ کر تو بقیہ پوری گاڑی کی گندگی اور بدنظمی کا خیال کرکے وحشت ہونے لگی۔ کھڑکیوں کے ٹوٹے ہوئے شیشے اور دروازے میں شیشے کی جگہ ایک کھردرا سا لکڑی کا تختہ کیلوں سے ٹھکا ہوا، روتے ہوئے بچوں کی چیخیں، اپنے سامان پر آکر بیٹھی ہوئی بڑھیا، ایک دروازوں والی الماری، ایک بڑی سی گٹھڑی بندھی ہوئی کھلی ہوئی جھاڑو۔۔۔ ایک ملڑی پولیس کا آدمی۔۔۔ چلاتا ہوا آیا۔" ابھی بیچ والے ڈبے میں کافی جگہ ہے ادھر۔" مگر اس کی آواز نقارخانے میں طوطی کی صدا بن گئی۔ کسی نے بھی اس کی آواز پر کان نہ دھرا۔ میں یہ سنتے ہی پہلے ڈبے میں چڑھنے کے خیال کو چھوڑ کر آخری ڈبے کی طرف لپکا۔ اس طرف ایک بھی مسافر موجود نہ تھا۔ ایک سپاہی شاید آفس کا کوئی جونیئر آفیسر تھا، سر کے اشارے سے سادہ کپڑوں میں اترنے والے مسافروں کو گن رہا تھا۔ یہ مسافر وہی بے دردی سپاہی تھے۔ ان کے کمبل ان کے کندھوں پر تھے۔ ان کے ہاتھوں اور چہرے پر میل اور چیکٹ اتنی جمی تھی کہ کوئی چاہے تو آسانی سے اتاری جاسکتی تھی۔
میں دروازے کے پاس کھڑا ہوا تو پتہ چلا کہ یہ سب کے سب اندھے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک اپنا لرزتا ہوا ہاتھ بڑھا کر اپنے آگے والے کی پیٹھ کو پکڑے کی کوشش کررہا تھا۔ وہ بے حد تھکے ہوئے اور پیلے نظر آرہے تھے۔ ان کی جھپکتی ہوئی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑیاں رواں تھیں۔ ان کے بال بڑھے ہوئے تھے۔ ان کے چہروں سے ان کی عمروں کا اندازہ لگانا محال تھا۔ لیکن جہاں تک میرا اندازہ تھا کہ وہ پینتس سے پچاس تک کی عمروں کے ہوں گے۔ زیادہ غور سے دیکھنے پر محسوس ہوا کہ ان میں سے ہر پانچ آدمیوں کے پیچھے ایک نارمل آنکھوں والا شخص موجود تھا۔ آنکھوں والے نارمل لوگ فوجی وردیوں میں تھے۔ ان کی وردیوں کا تقریباً وہی رنگ تھا جو جاپانی سپاہیوں کی وردیوں کا ہوتا ہے۔ بس رنگ میں ایک خفیف سا فرق تھا۔ ان کے ہاتھوں میں چھڑیاں تھیں، مجھے لگ رہا تھا کہ یہ ان لوگوں کے نگران ہیں۔یہ لوگ راستہ کا اندازہ لگاتے ہوئے نابینا سپاہیوں کو جھڑکیاں دیتے ہوئے اور قطار درست رکھنے کی تاکید کرتے ہوئے چل رہے تھے۔چلو۔ جلدی! جلدی! ۔۔" جس کے ہاتھ چھڑی تھی وہ زور سے چلاتے ہوئے اپنے سامنے والے سپاہی کو چھڑی سے کچوکتا جارہا تھا۔ اب پتہ چلا کہ اس دستے میں سارے کے سارے چینی سپاہی تھے۔ اور قطع نظر اس سلوک کے ان کی گندگی سے بھی یہی اندازہ ہوا۔ پھر یہ کہ ان کا قیافہ بھی یہی بتاتا تھا کہ وہ مختلف لوگ ہیں۔ریل کے ڈبے سے جتنے سپاہی اترے تھے ان کو پلیٹ فارم پر ایک قطار میں کھڑا کردیا گیا تھا یہ تعداد میں پانچ سو تھے، مجھے اپنی آنکھوں پر اعتبار نہ آرہا تھا۔ ایک دفعہ پھر غور سے دیکھا ان سب کی آنکھیں چندھیائی ہوئی تھیں، آدھی کھلی اور آدھی بند جیسے روشنی ان کو ناگوار لگ رہی ہو۔ ان میں سے ہر ایک کی آنکھ سے آنسو ٹپک رہے تھے یقیناً یہ سب کے سب اندھے تھے۔مگر ان سپاہیوں نے جو نابینا نہیں تھے، اچانک کسی کو دیکھتے ہی سلیوٹ مارا۔ ایک جاپانی افسر جس کی کمر کے ساتھ خنجر لٹک رہا تھا ایک ڈبے سے نکل کر باہر آکھڑا ہوا تھا۔اچھا اور باقی کہاں ہیں۔" اس نے ایک سپاہی سے پوچھا جو اندھے سپاہیوں کی گنتی کرنے میں مصروف تھا۔
جناب وہ بعد میں پہنچیں گے۔ فلاں فلاں ٹرین سے۔" ماتحت نے جواب دیا۔ حتیٰ کہ ایک ادھیڑ عمر خاتون نے تو رومال آنکھوں پر رکھ کر باقاعدہ رونا شروع کردیا۔ ایک بات ظاہر تھی کہ کمانڈر اور اس کے ماتحت افسر کی کوشش تھی کہ مسافروں کی اندھے سپاہیوں پر نظر نہ پڑے لیکن ابھی ریل چھوٹنے میں دیر تھی اور جنگلے کے پیچھے کھڑے مسافروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا تھا، جو ان کو گھور گھور کر دیکھ رہے تھے اور جنگلے کے پیچھے جمع ہورہے تھے۔آخرکار جو قطار میں سب سے آگے کھڑے تھے انہوں نے اسٹیشن کے زینے چڑھنے شروع کردیے اور گاڑی آہستہ آہستہ چل پڑی۔ میں کمپارٹمنٹ کے دروازے کے پائیدان پر کھڑا ہوا تھا۔ اسی ڈبے کے سامنے جو ابھی ابھی خالی کیا گیا میں نے اس کا ڈنڈا پوری قوت اور مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔ میں پولیس والوں کو بخوبی دیکھ سکتا تھا جو ان سپاہیوں کا پہرہ دے رہے تھے اور آپس کی سرگوشیوں میں کہہ رہے تھے۔ "میرا خیال ہے کہ یا تو ان کو کسی زہریلی گیس کے تجربے میں استعمال کیا گیا ہے یا پھر کسی دھماکے کی زد میں آگئے ہیں۔" لوہے کی ٹوپی والے سپاہی نے کہا جو مجھ سے چار پانچ آدمیوں کے فاصلے پر کھڑا ہوا تھا۔اس کے ساتھی نے اس کی بات پر اعتراض کیا۔
ارے بھئی۔۔ یہ اپنے وطن میں ایسے تجربے نہیں کرتے ہیں۔"اس شخص کی بات سن کر میں نے ایک عورت سے جس کی عمر تقریباً چالیس سال تھی، پوچھا۔یہ سپاہی ریل پر کب سوار ہوئے تھے؟"میرا خیال ہے شی نوانوامی کے قریب سے کسی جگہ سے سوار ہوئے تھے۔"
پھر تو یقیناً ناگویا کے علاقے سے آئے ہوں گے۔ میں نے سوچا۔ لیکن اس سے مجھے کوئی سراغ نہ ملا۔ نہ ہی صحیح بات کا پتہ چلا۔
جلد ہی مسافر اس منظر کو بھول کر آپس کی بات چیت میں مصروف ہوگئے۔ وہ خاتون جس سے میں نے یہ سوال کیا تھا، مجھ سے بے تکلفی سے باتیں کرنے لگی۔ "میں ایچیگو کی رہنے والی ہوں۔ اس وقت اپنی بیٹی کے ساتھ چیبا جارہی ہوں۔" اس نے مجھے بتایا کہ اس کی بیٹی فوجی رضاکاروں کی خواتین کی تنظیم میں کام کرتی ہے اور وہ اپنی بیٹی کو پہنچانے جارہی ہے۔ اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ ہماری روانگی میں ایک ہفتہ کی تاخیر ہوگئی ہے۔ وجہ یہ تھی کہ لڑکی کے گلے پر پھوڑا نکل آیا تھا اور چونکہ ان کو چیبا کا براہِ راست ٹکٹ نہیں مل سکا تھا، اس لیے اب جہاں تک سفر جاری رکھ سکیں گی، اس ٹکٹ سے اسی جگہ اتر جائیں گی۔ اور وہاں قیام کرکے ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش کریں گی۔ اب یہاں تک تو انہوں نے سفر کرلیا ہے مگر کس مشکل سے۔ یہ وہی جانتی ہیں۔اس خاتون نے ابھی کچھ دیر پہلے چینی سپاہیوں کے بارے میں میرے سوال کا جواب ایسی لاتعلقی سے دیا تھا کہ
میرا دل اس سے برا ہوگیا تھا لیکن اب یوں معلوم ہوتا ہے کہ جاپانیوں کے اپنے معاملات اتنے الجھے ہوئے ہیں کہ ان کو دوسروں کے بارے میں سوچنے کی مہلت بھی نہیں اور نہ ہی وہ ایسے واقعات سے متاثر ہوسکتے ہیں۔
ٹرین اسٹیشن سے باہر نکلی تو میں اس ڈبے میں چلا گیا جس میں اب سے کچھ دیر پہلے چینی سفر کررہے تھے۔ میرا خیال تھا ڈبہ خالی ہے اور میں وہاں سے آرام سے لیٹ بیٹھ سکوں گا، لیکن میرے لیے وہاں ٹھہرنا مشکل تھا۔ ڈبے میں ناقابلِ برداشت تعفن اور بدبو بسی ہوئی تھی۔ میں وہاں سے اٹھ گیا۔ٹرین کا کنڈکٹر اس کے آخری سرے سے اعلان کرتا ہوا آیا۔ "اسٹیشن جمبوہارا ۔۔ اگلا اسٹیشن جمبوہارا۔"
جب وہ مسافروں کے درمیان سے یہ اعلان کرتا گزررہا تھا تو میں نے اپنا منہ نکال کر باہر کر طرف دیکھا۔ ڈوبے سورج کی کرنوں نے مغربی کھڑکیوں پر جیسے آگ سی لگا دی تھی۔ سرخ سورج کا گولہ بڑے وقار و تمکنت اور دیوتاؤں جیسے تقدس کے ساتھ آہستہ آہستہ غروب ہورہا تھا۔ پھر مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ چینیوں والا ڈبہ کاٹ کر علیحدہ کردیا گیا ہے اور اب اس کی جگہ آخری ڈبہ وہ ہے جس میں میں بیٹھا ہوں۔
ہاں، وہ شہزادہ اب بھی اگلے ڈبے میں بیٹھا ہوا تھا۔ لیکن میں اتنا تھک چکا تھا کہ میں کسی کو بھی یہ بات نہ بتا سکا۔
جنگ کے خاتمے کے بعد ایک بار ادھر جانا ہوا تو میں نے تاکاساکی اسٹیشن کے باہر والے دکان داروں سے پوچھا کہ پھر کبھی تمہیں وہ چینی سپاہی جو اس دن سفر کررہے تھے۔ نظر آئے کہ نہیں۔ انہوں نے بیک زبان یہی جواب دیا کہ "نہیں جناب ہم نے تو کبھی نہیں دیکھا اور شاید جہاں ان کو بھیجا گیا تھا وہ وہاں سے کبھی لوٹ کر آئے ہی نہیں۔"
بشکریہ : مترجم : الطاف فاطمہ (لاہور)