میں اسپین کے مغرب میں موجود ایک چھوٹی سی بستی جسے اسٹپونا میں پلا بڑھا۔ایک صبح میرے والد صاحب نے مُجھ سے درخواست کی کہ میں اُنھیں 18 میل دور ایک گاؤں گاڑی پر مجاس لے جاؤں ۔ میری عمر اُس وقت سولہ سال تھی۔والد صاحب نے ساتھ یہ شرط بھی رکھی کہ میں گاڑی کو قریبی سروس اسٹیشن لے جاؤں گا اور اُسے سروس کرواؤں گا۔میں نے چونکہ ڈرائیونگ نئی نئی سیکھی تھی اور مُشکِل سے ہی کار چلانے کا موقع ملتا تھا اِس لئے میں فوراً تیار ہو گیا۔میں نے والد صاحب کو مجّاس چھوڑا اور وعدہ کیا کہ میں اُنھیں شام چار بجے لینے آ جاؤں گا۔میں نے کار کو ساتھ گیریج میں پارک کیا اور سوچا چونکہ میرے پاس کافی وقت ہے اس لیے کیوں نہ میں فلم دیکھنے چلا جاؤں۔لیکن میں فلم دیکھنے میں ایسا مگن ہوا کہ وقت بجلی کی تیزی سے گزر گیا۔جب آخری فلم ختم ہوئی تو شام کے چھ بج چکے تھے۔اور میں مقررہ وقت سے دو گھنٹے زیادہ لے چکا تھا۔میں جان گیا والد صاحب کو اگر میرے کارنامے کا علم ہوا تو وہ ضرور غصہ کریں گے۔اور شاید مجھے پھر کبھی گاڑی چلانے کا موقع نہ مل سکے۔میں نے جھوٹ بولنے کا منصوبہ بنایا۔میں نے فیصلہ کیا کہ میں والد کو بتا دوں گا کہ گاڑی کو چونکہ کُچھ مرمت کی ضرورت تھی سو مجھے اِس لیے زیادہ وقت لینا پڑا۔میں یہ سوچ کر مقررہ جگہ کی طرف روانہ ہوا وہاں پہنچ کر میںنے والد کو سکون سے انتظار کرتے ہوئے پایا۔مجھے شدید رنج ہوا اور میں نے اُنہیں باور کرایا کہ میں جلد سے جلد پہنچنا چاہتا تھا لیکن گاڑی کی مرمت کی وجہ سے دیر ہو گئی۔میں اُس تاثر کو کبھی نہیں بھول سکتا جو انہوں نے پہلی بار دیا تھا۔
تُم نے یہ محسوس کیا کہ تُم مجھ سے جھوٹ بول کر جان بچا لو گے مُجھے اِس بات کا شدید دُکھ ہے جیسن تُم نے مجھ سے جھوٹ بولا"
کیا مطلب ہے آپ کا،میں سچ کہہ رہا ہوں" والد صاحب نے مُجھ پر ایک اور نگاہ ڈالی"جب تمہیں آنے میں دیر ہوئی تو میں نے گیریج کال کر کے معلوم کیا کہیں کار کے ساتھ کوئی مسئلہ تو نہیں ہے انہوں نے مُجھے بتایا تُم ابھی کار لینے نہیں آئے۔مُجھے تب معلوم ہو گیا کہ کار میں کوئی مسئلہ نہیں ہے"
ندامت کا ایک شدید احساس میرے اندر سرایت کر گیا،مجھے کافی شرم محسوس ہوئی ۔ اُن کے چہرے پر پریشانی اور اُداسی کے آثار دیکھ کر مجھے اپنے کیے پر بہت پشمانی ہوئی۔
مجھے تُم سے کوئی شکایت نہیں ہے جیسن ، مجھے خود سے گِلہ ہے۔مجھے گِلہ ہے میں ایک ناکام باپ ثابت ہوا ہوں۔اتنے سالوں میں‘ میں اپنے بیٹے کو سچ بولنا نہ سکھا سکا۔میں نے ایک ایسے بیٹے کو پال پوس کر بڑا کیا جو اپنے ہی باپ کے سامنے دروغ گوئی سے کام لیتا ہے۔میں یہ سارا سفرپیدل طے کروں گا اور اس بات پر غور کروں گا اِن تمام سالوں میں میں کہاں غلط تھا-
’’لیکن بابا،۱۸ میل کا فاصلہ ہے بابا،اور تاریکی بھی چھا رہی ہے‘‘میری التجائیں ، میری معافیاں سب دھواں ہو گئیں، میرے تمام اصرار خاک ہو گئے۔میں نے اپنے والد کو مایوس کر دیا تھا۔میں نے اُنہیں دُکھ پہنچایا اور زندگی کا سب سے تلخ سبق سیکھا۔بابا گرد آلود سڑک پر گھر کی طرف چل رہے تھے۔میں فوراً کار میں بیٹھا اور اُنکے پیچھے پیچھے چلنے لگا میں نے اُن کو قائل کرنے کی بہت کوشش کی لیکن بے سود۔۱۸ میل تک میں نے اُن کے پیچھے پیچھے ۵ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کیا۔
اپنے والد کو شدید ذہنی اور جسمانی تکلیف میں دیکھنا میری زِندگی کا سب سے تلخ اور دردناک تجربہ تھا۔لیکن یہ ایک ایسا تجربہ تھا جس نے مجھے ایک ایسے شخص میں تبدیل کیا جس نے آخری دم تک اپنے والد سے جھوٹ نہ بولا۔
بشکریہ : مصنف۔۔۔Jaosn Bocarro