مصنف کا تعارف :۔
نجیب محفوظ سر زمین مصر کے شہرہ آفاق نوبل انعام یافتہ ادیب۔ آپ ۱۹۱۱ء میں قاہرہ کے مضافاتی علاقے میں تولد ہوئے۔ ۱۹۳۴ء میں قاہرہ یونیورسٹی سے فلسفے میں گریجوایشن کی۔ زمانہ طالب علمی ہی میں قلم سے رشتہ اُستوار کر لیا تھا، تاہم ان کی مختصر کہانیوں کا پہلا مجموعہ ۱۹۳۸ء میں شائع ہوا جس سے ادبی اور عوامی حلقوں میں بطور افسانہ نگار انہیں پذیرائی ملی۔ بعد ازاں ان کی طویل و مختصر کہانیوں کے کئی مجموعے منظرِ عام پر آئے اور ہر نئی رونمائی کے ساتھ ان کی شہرت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ نجیب محفوظ نے افسانے کے میدان ہی میں طبع آزمائی نہیں کی بلکہ نصف درجن سے زائد ناول بھی تصنیف کیے۔ عالمی سطح پر ان کی شہرت کا سبب ان کے ناولوں ہی کو گردانا جاتا ہے۔ ان ناولوں پر اسٹیج، ریڈیو اور ٹیلی وژن کے ڈراموں کے علاوہ فلمیں بھی بنائی گئیں۔ قابلِ ذکر فلموں میں ہالی وڈ کی فلم ’’اے بگننگ اینڈ این انڈ‘‘ بھی شامل ہے جس میں عمر شریف نے لازوال اداکاری کی تھی۔ یہ فلم ان کے ناول ’’بدایہ و نہایہ‘‘ پر مبنی ہے۔ نجیب نے بہت لکھا اور ہر موضوع پر لکھا، تاہم معاشرے میں بسنے والے مختلف طبقوں کی نفسیات اور ان کے رویے ان کا پسندیدہ موضوع ہیں۔ زیر نظر کہانی ان کے اسی مرغوب موضوع کی عکاس ہے۔ اسے ان کی طویل و مختصر کہانیوں کے مجموعے ’’دنیا ء اللہ‘‘ (خدا کی دنیا) سے منتخب کیا گیا ہے جو ۱۹۶۴ء میں شائع ہوا۔ ان کی عظیم ادبی تخلیقات نے انہیں نوبل انعام یافتہ مصنفین کی صف میں جگہ دلوائی اور سب سے بڑھ کر شائقین ادب کے دلوں میں انہیں دنیا بھر کے مرغوب ادیب ہونے کا اعزاز ہمیشہ حاصل رہے گا۔
ملعون
یہ عصر کے بعد درس کا وقت تھا اور آج حسبِ معمول مسجد کے باہر سے صرف ایک سامع ہی درس سننے کے لیے موجود تھا۔ جب سے چالیس سالہ شیخ عبد ا لربہ نے اس جامع مسجد کے امام کا منصب سنبھالا تھا، صرف چچا حسنین ہی اس کا درس سننے کے لیے آتا تھا۔ چچا حسنین مسجد سے ملحقہ بازار میں گنے کا رس بیچتا تھا۔ امام کی تعظیم اور درس کی ناقدری نہ کرنے کے خیال سے ، مسجد کا خادم اور موذن دونوں بھی درس سننے کے لیے آ بیٹھتے تھے۔ یوں شیخ کے جملہ سامعین کی تعداد تین تھی۔شروع شروع میں شیخ عبد ا لربہ کو درس میں سامعین کی کمی سے سخت کوفت ہوئی تھی مگر آہستہ آہستہ اس نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا تھا۔ در حقیقت جب اسے بازارِ حسن کے قلب میں واقع اس مسجد کا امام مقرر کیا گیا تھا تو اسی وقت اسے اس امر کا اندازہ ہو گیا تھا کہ مسجد میں جماعت اور درس کے دوران حاضری برائے نام ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اس گندے علاقے میں اپنی تعیناتی پر سخت احتجاج کیا تھا اور اپنا تبادلہ منسوخ کروانے کی حتی المقدورکوشش بھی کی تھی، مگر پھر بادلِ نخواستہ یہ تعیناتی قبول بھی کر لی تھی ........ یہ الگ بات کہ اس پر اسے دوستوں کے ٹھٹھے اور بد خواہوں کے طنز کے تیر بھی سہنا پڑے تھے! درس پر کوئی کیوں کر آتا؟ مسجد ان دو گلیوں کے چوراہے پر واقع تھی جن میں سے ایک میںناچ گانا اور جسم فروشی کا دھندا ہوتا تھا جبکہ دوسری میں
1
جرائم پیشہ افراد، دلال، منشیات فروش اور تماش بین رہتے تھے۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اس محلے میں صرف ایک ہی شریف انسان رہتا ہے اور وہ تھا چچا حسنین!
عرصہ تک شیخ کی یہ حالت رہی تھی (یا کم از کم اس نے یہ تاثر دیا تھا) کہ جب وہ بازار کی گلی میں نکلتا تو گہری سانس لینے سے بھی اجتناب برتتا کہ کہیں گلی کی مسموم ہوا اس کے باطن کو آلودہ نہ کر دے۔ اول تو اس کی نگاہ اوپر چوباروں کی طرف اُٹھتی ہی نہ تھی، تاہم اگر کبھی غلطی سے ایسا ہو جاتا تو اس کے جسم کا رُواں رُواں کانپ اُٹھتا۔ اسے یوں محسوس ہوتا جیسے اس کی روح کی پاکیزگی داغدار ہو گئی ہو لیکن پھر آہستہ آہستہ اسے اس ماحول کی عادت ہو گئی تھی۔ اب اس نے ان برائیوں سے صرف نظر کر کے اپنا ذہن ان اچھائیوں کی طرف متوجہ کر لیا تھا جن میں اس کے قلب کا سکون موجود تھا ۔ ان میں ، جیسا کہ اس نے حسنین کو بتایا تھا، یہ درس سب سے اہم تھا جس میں گلی کا واحد شریف انسان باقاعدگی سے شریک ہوتا تھا۔چونکہ چچا حسنین ہی شیخ کا واحد سامع تھا س لیے وہ اسے بہت عزیز رکھتا تھا۔ وہ اسے خوش کرنے کے لیے کہتا:
’’چچا حسنین! اگر تم اسی طرح شوق اور باقاعدگی سے درس سنتے رہے تو جلد ہی ایک بڑے عالم بن جائو گے۔ پھر لوگ تم سے مسئلے پوچھنے کے لیے رجوع کریں گے اور دوسروں کے سامنے تمہاری رائے کو بطور حوالہ پیش کیا کریں گے.......... ‘‘
’’ارے نہیں شیخ! ‘‘ چچا حسنین سر جھکا کر اِنکساری سے کہتا۔ ’’میں تو طفلِ مکتب ہوں ، مجھے ابھی آپ سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔‘‘
آج درس کا موضوع تھا...... منافقت! شیخ نے قرآن و سنت سے استدلال لے کر کہا کہ وہ شخص جو بظاہر کچھ اور اندر سے کچھ ہو، دنیا اور آخرت میں سخت عذاب کا مستحق ہے۔ خدا اور اس کے فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں۔ نفاق یہ بھی ہے کہ انسان کا قلب دیانت سے خالی ہو۔ وہ کسی بھی بات کی مخالفت یا حمایت ضمیر کے مطابق نہ کرے بلکہ اپنے ذاتی فائدے اور نقصان کو دیکھ کر کرے- آخر میں شیخ نے اعترافِ خطا اور اظہارِ ندامت کو ذریعہ بخشش قراردیا اور دن کے آغاز و اختتام کے وقت استغفار کی ضرورت کا احساس دلایا۔چچا حسنین نے حسب معمول درس توجہ سے سنا لیکن لیکن شاذ ہی کوئی سوال پوچھا، ما سوائے قرآن کو ایک آیت کے مفاہیم کے متعلق جہاں اشکال کا احتمال تھا۔
درس ختم ہوا تو شیخ نے وہیں بیٹھ کر تسبیح شروع کر دی۔ چچا حسنین نے شیخ سے مصافحہ کیا اور رخصت چاہی۔ کچھ ہی دیر بعد موذن اور خادم بھی اپنے کام سے چلے گئے ۔ شیخ عبد الربہ نے کچھ دیر آنکھیں بند کر کے تسبیح کا ورد کیا اور پھر جی بھر جانے کی وجہ سے تسبیح جیب میں ڈال لی اور یونہی مسجد کی جنوبی کھڑکی میں آ کھڑا ہوا۔مسجد کی اس کھڑکی سے اگر قبلہ کی سمت دیکھا جاتا تو دیکھنے والے کو اس گلی کا سارا منظر صاف دکھائی دیتا تھا جس میں طوائفوں کے کوٹھے تھے۔ یہ ایک طویل مگر تنگ گلی تھی جس میں پہلو بہ پہلو قہوہ خانے ، حمام اور گل فروشوں کی دکانیں تھیں۔ ان کے اوپر ایک ایک دوسرے سے بغل گیر چھوٹے بڑے ، بوسیدہ و آراستہ چوبارے تھے جن کی بالکونیاں اور چوبی کھڑکیاں ایک دوسرے میں گڈ مڈ نظر آتی تھیں۔
2
اس وقت بازار گہری نیند سے انگڑائی لے کر بیدار ہوتا محسوس ہو رہا تھا تا کہ کچھ دیر بعد اترنے والی رنگین شام کے استقبال کے لیے تیار ہو سکے۔ کھڑکیاں اور دروازے کھل رہے تھے۔ گلی میں پانی چھڑکا جا رہا تھا۔ قہوہ خانوں کی کرسیاں سیدھی کی جا رہی تھیں اور گل فروش پھولوں کے ہار پرونے میں مصروف ہو گئے تھے۔ چوباروں کی کھڑکیوں میں کئی رنڈیاں کندھوں پر تولیے ڈالے سُتے چہروں کے ساتھ نیچے گلی میں جھانک رہی تھیں جیسے شام کی تیاری سے پہلے دیکھنا چاہتی ہوں کہ وہ جلدی تو نہیں اُٹھ گئیں ۔ کچھ آپس میں فحش ٹھٹھے اور اشارے کر رہی تھیں جنہیں دیکھنے والے خوب سمجھتے تھے۔ کہیں قریب سے ایک نوخیز طوائف کے رونے کی آواز آ رہی تھی جسے نائیکہ بلند آواز میں کوس رہی تھی کہ اپنے اس یار کو رونا چھوڑ دے جو ایک رقیب کی گولی کا نشانہ بن گیا تھا۔ وہ اسے سمجھا رہی تھی کہ اس کے اس رویے سے ان کا سارا دھندا چوپٹ ہو نے کا خطرہ ہے۔اسے ایک اور رنڈی ہسٹریائی ہنسی کی آواز بھی پردئہ سماعت سے ٹکرا جاتی تھی جس کا ایک عاشق اس کے پہلو میں قتل کر دیا گیا تھا۔ چند گز دور واقع ایک چوبارے کی کھڑکی میں کھڑی طوائف موچنے سے اپنے ناک کے بال کھینچتے ہوئے اپنی دوسری ساتھی سے کہہ رہی تھی:’’مجھے یقین نہیں آتا کہ کوئی یورپی آدمی بھی بددیانت ہو سکتا ہے۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی یورپی فردوس کے جسم سے کھیل کر اس کے سرہانے کے نیچے سے اپنے سو پونڈ چرا لے اور پھر چلتا بنے! کبھی نہیں! ‘‘
کہیں ایک ہیجان انگیز گانے کی مشق کی آواز آ رہی تھی جسے شام کے لیے تیار کیا جا رہا تھا۔ گلی کے نکڑ پر کچھ لوگ آپس میں لڑ رہے تھے۔ چند لمحے پہلے جو بات تو تکار سے شروع ہوئی تھی، اب ہاتھا پائی تک جا پہنچی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے کرسیاں اور سوڈے کی بوتلیں چلنے لگی تھیں۔ چند گزدور،ایک گھر چھوڑ کر، کشادہ چوبارے اور صحن کی مالک نوجوان اور خوبصورت طوائف نباویہ سب سے پہلے تیار ہو کر بالکونی میں آ کھڑی ہوئی تھی اور اپنی غزالی آنکھوں سے نیچے گلی میں دیکھ رہی تھی۔
’’لعنتی لوگ! ‘‘ شیخ عبدا لربہ نے بیزاری سے خود کلامی کی۔ ’’انہیں خدا جانے اس ذات نے ابھی تک زمین میں کیوں نہیں دھنسا دیا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے کھڑکی سے ہٹنا چاہا کہ اسی لمحے نباویہ نے نگا ہ اُٹھا کر اوپر دیکھا اور شیخ کو دیکھ کر مسکراہٹ کا ایک تیر پھینکا۔’’لا حول ولا قوۃ‘‘ شیخ نے گھبرا کر پیچھے ہٹتے ہوئے کہا اور اس کی جرأت پر حیران پریشان دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔اگلے روز اسی وقت شیخ عبد الربہ کو تجسس نے آن گھیرا ۔ اس کے ضمیر نے ملامت کی مگر اس نے ضمیر کی آواز کو یہ کہہ کر دبا دیا:
’’میری کوئی بری نیت تھوڑی ہے۔ ہر عمل کا دارو مدار نیت پر ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے احتیاط سے اِدھر اُدھر دیکھا اور پھر اس اطمینان کے بعد کھڑکی میں آن کھڑا ہوا کہ اسے کوئی نہیں دیکھ رہا۔ ظاہر ہے وہ اپنی عزت لوگوں کی نظر میں نہیں گرانا چاہتا تھا۔
اتفاق سے نباویہ اس وقت بھی بالکونی میں کھڑی تھی۔ اس نے ایک مرتبہ پھر جو شیخ کو کھڑکی میں کھڑے دیکھا تو اچنبھے سے مسکرا دی۔ اس نے تو
3
گذشتہ روزمحض دل لگی کی تھی مگر یوں لگتا تھا جیسے تیر نشانے پر بیٹھا ہے۔ اسے شیخ پر ترس آ گیا۔ اس نے سوچا:’’آہ! بیچارہ مولوی ہے تو کیا ہوا۔ اس کے سینے میں بھی تو دل ہے! ‘‘ اس نے سوچا کیوں نہ کوشش کرنے کی نیکی کرے، یہ سوچ کر اس نے ایک بار پھر ایک دلکش مسکراہٹ شیخ کی طرف پھینکی۔ شیخ جیسے دھکا کھا کر پیچھے گرا اور نیم جاں ہو کر ’’استغفراللہ‘‘ کا ورد شروع کر دیا۔ ایک تسبیح پڑھ کر اس نے سینے میں پھونک ماری اور ٹھنڈی سانس لے کر کہا:
’’آہ! یہ چالباز عورتیں.......... یوسف والیاں! ‘‘ایک دو بار پھر اسی طرح ہوا۔ نباویہ ترس کھا کر شیخ عبدالربہ کو اپنا سراپا دکھاتی اور مسکراہٹ پھینکتی رہتی جبکہ وہ دل میں اس کی طرف خاصا مائل ہونے کے باوجود آخر میں ’’لعنتی عورت‘‘ کہہ کر کھڑکی سے پرے ہٹتا رہا۔پھر ایک روز جمعہ کے روز صبح صبح جب سارا بازار سویا ہوا تھا نباویہ نہ جانے کس طرح اتنی صبح اُٹھ کر چادر لپیٹے کھڑکی میں آن کھڑی ہوئی تھی، اسے شیخ عبد الربہ اپنے حجرے کی کھڑکی میں کھڑا نظر آیا۔ یہ حجرہ مسجد کی نچلی جانب گلی میں تھا۔ نباویہ کے جی میں نہ جانے کیا آئی کہ اسے یہ الفاظ کہہ کر نیچے کی طرف لپکی: ’’یا شیخ ! دم کروانے آر ہی ہوں، میرے سر میں درد ہے۔‘‘یہ سن کر شیخ عبد الربہ کانپ گیا اور اپنے رب کے حضور بلند آواز میں گڑ گڑانے لگا:’’یا اللہ یہ لعنتی عورت کیوں میرے درپے ہے! ‘‘ مگر اس کا دل آنے والے لمحوں کے احساس سے مستانہ وار دھڑک رہا تھا اور نظریں بے تاب ہو کر دروازے کی طرف لگی ہوئی تھیں........ مگر نباویہ نہیں آئی۔ اسے شلدام دلال نے نیچے آتے دیکھ لیا تھا۔ شیخ کی عزت کے خیال سے اس نے دو گھر آگے حسن نامی بے روز گار نوجوان کے دروازے پر دستک دے ڈالی ....... جب کافی دیر گزر جانے کے باوجود نباویہ نہ آئی تو شیخ نے ’’اطمینان‘‘ کی گہری سانس لی اور آسمان کی طرف منہ کر کے کہا:’’یا مولا تیرا کرم ہے ، تو نے اس لعنتی عورت کے شر سے مجھے بچا لیا۔‘‘
لیکن اس سے اگلی صبح جب نباویہ شیخ کے حجرے میں آ دھمکی تو شیخ نے گھر آئی نعمت کو لات مارنے کا کفر ان نہیں کیا بلکہ نباویہ کو یہ بھی باور کرایا کہ وہ کسی سوالی کو خالی ہاتھ لوٹانا گناہِ کبیرہ سمجھتے ہیں........... نباویہ کو اپنے وصل سے سرفراز کرنے کے بعد شیخ کا خیال تھا کہ یہ وظیفہ وصل آئندہ بھی جاری رہے گا مگر نباویہ نے اس روز کے بعد شیخ کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھنا بھی چھوڑ دیا۔ ادھر شیخ عبدالربہ کانٹوں پر لوٹ رہا تھا مگر بے بس تھا۔ آخر ایک صبح، فجر کی نماز کے بعد اس نے کمبلی اوڑھی اور ملگجے اندھیرے میں نباویہ کے چوبارے کا رُخ کیا۔ ذہن میں پکڑے جانے کا خوف دلانے کی بہتیری کوشش کی مگر دل کا فیصلہ دماغ پر غالب آ گیا۔
4
سیڑھیوں کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ شیخ نے اوپر چوبارے میں قدم رکھا تو نباویہ کو تکیے سے لپٹے اکیلی سوتی پایا ۔ اس کے بدن پر مہین لباس تھا جبکہ اس نے سوتے میں جو چادر اوڑھی تھی وہ پلنگ سے نیچے گری ہوئی تھی۔ شیخ نے پلنگ پر بیٹھ کر آہستگی سے نباویہ کے بدن پر ہاتھ پھیرا اور پھر بے اعتبار ہو کر اس سے لپٹ گیا۔ نباویہ ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھی اور ڈر کے مارے ایک زوردار چیخ ماری ۔ چیخ سن کر شیخ کے ہوش ایک دم ٹھکانے پر آ گئے۔ اس نے پلنگ سے چھلانگ لگائی اور بھاگ کر، دو دو سیڑھیاں پھلانگتا حجرے میں آ گیا۔ خوش قسمتی سے اسے کسی نے نہ دیکھا تھا، تاہم اس خیال سے سے اس کا دل لرز رہا تھا کہ نباویہ دوسروں کو بتا دے گی مگر پھر اس نے یہ کہہ کر خود کو سمجھایا :’’بتائے گی تو رنڈی کی بات کا اعتبار کون کرے گا؟ پاک دامن صالحین پر رنڈیاں ہمیشہ اس طرح کی تہمتیں لگاتی رہی ہیں......... ‘‘
نباویہ کی چیخ پر اِرد گرد سے کئی رنڈیوں نے کھڑکیوں سے جھانکا ۔ شلدام دلال اوپر چوبارے پر پہنچ گیا۔ اس نے نباویہ سے پوچھا: ’’کون تھا؟ تو کسے دیکھ کر چیخی تھی؟‘‘
’’ک....کوئی چور تھا! ‘‘ نباویہ نے ہکلاتے ہوئے کہا۔ وہ شیخ کا نام نہیں لینا چاہتی تھی۔’’ہونہہ! ‘‘ شلدام معنی خیز انداز میں سر ہلا کر بولا۔ ’’مجھے خوب معلوم ہے وہ چور کون تھاہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ سیڑھیاں اُتر گیا۔
٭............. ٭............. ٭
ایک روز شیخ عبدالربہ کو مذہبی اُمور کے انسپکٹر جنرل نے بلا بھیجا۔ اس کے دفتر سے فون آیا تھا کہ شیخ فوراً تشریف لائیں۔ دراصل وہاں تمام اماموں کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا تھا۔ جیسے حالات تھے ان میں اگرچہ اس نوعیت کی اجلاس کوئی نئی بات نہ تھی مگر پھر بھی شیخ کو تجسس ہو رہا تھا کہ اجلاس کا محرک کیا ہے؟انسپکٹر جنرل بہت رعب و دبدبے والا آدمی تھا۔ اس کی رعونت کی وجہ شاہی حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار سے اس کی قریبی رشتہ داری تھی جو اپنی بددیانتی، بے اصولی اور ظلم کی وجہ سے ہر جگہ بدنام تھا۔ وہ جب چاہتا اور جس وزیر کو چاہتا بدل دیتا۔ اس نے ہر جگہ اس ادارے کو تباہ کر ڈالا تھا جس کی عوام میں ذرہ برابر ساکھ تھی۔ انسپکٹر جنرل کا بھی یہی حال تھا۔ اس نے اپنی افتادِ طبع کے مطابق اماموں کے ساتھ بالکل اسی نوع کا سلوک کیا تھا اور ہر مدرسے کو تہہ و بالا کر ڈالا تھا جس کی عام لوگوں میں کچھ بھی توقیر تھی۔ اس کی موجودگی میں امام بے دست و پا ہوتے تھے اور انہیں ہر لمحہ ذرا سی بات پر اس کی ناراضی اور عتاب کا دھڑکا لگا رہتا تھا۔امام نے خدا کی عافیت طلب کرنے کے لیے چند دعائیں زیرِ لب دہرائیں اور پھر اجلاس کے لیے مقدور بھر تیاری شروع کر دی۔ اس نے سیاہ رنگ کا تقریباً نیا چوغہ زیب تن کیا، سر پر نفاست سے امامہ باندھا اور خدا کے بھروسے پر اجلاس میں شرکت کے لیے روانہ ہو گیا۔انسپکٹر جنرل کے کمرے کے سامنے راہداری میں (اس کی اپنی زبان میں ) حشر کا سماںتھا۔ اماموں کا ہجوم تھا جو سر گوشیوں میں ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے اور استفسارات کر رہے تھے کہ اجلاس بلانے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ آخر کار انسپکٹر جنرل کے کشادہ دفتر کا بڑا دروازہ کھلااور انہیں
5
اندر بلایا گیا۔ ان کی تعداد اتنی تھی کہ کمرہ چھوٹا پڑ گیا۔ انسپکٹر جنرل نے روایتی اور رسمی انداز میں انہیں خوش آمدید کہا اور بعض اماموں کے بناوٹی جملہ ہائے تحسین و توصیف کو حوصلہ شکن تاثرات کے ساتھ سناتا کہ کسی کو مسکرانے کی جرأت نہ ہو۔
سب سے پہلے اس نے اماموں کے مسائل سُنے۔ مسائل کا بیان ختم ہوا تو ایک گھمبیر خاموشی چھا گئی۔ سب کا دھیان اب انسپکٹر جنرل کی جانب تھا۔ وہ اس سے کچھ سننے کے لیے ہر درجہ بے چین تھے۔ اس نے خاموشی اور رعب سے بار ی باری ایک چہرے سے دوسرے چہرے پر نگاہ بدلنا شروع کی اور آخر کار سکوت توڑا۔ چند سادہ الفاظ کے ساتھ ان کے توصیفی جملوں کا شکریہ ادا کرنے کے بعد اس نے اس اُمید کا اظہار کیا کہ تمام آئمہ اس اعتماد پر پورا اتریں گے جو انہیں اس کی طرف سے حاصل تھا اور یہ کہ اس نے ان کے متعلق جو اچھی رائے قائم کر رکھی ہے وہ قائم رہے گی۔ پھر اس نے اپنی پشت کی جانب دیوار پر آویزاںتصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:’’ اس شخصیت اور شاہی خاندان کی طرف سے ہم پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں یہ اجلاس ان کی ادائیگی کے خیال سے ہی طلب کیا گیا ہے۔‘‘
بہت سے حاضرین نے اپنے اندر بے چینی کی لہر دوڑتی محسوس کی مگر اپنے تاثرات سے اس کا اظہار نہیں ہونے دیا۔ انسپکٹر جنرل نے اپنی بات جاری رکھی۔ ’’تمہارے اور اس شخصیت کے درمیان جو ایک مضبوط بندھن ہے وہ محتاجِ بیاں نہیں۔ یہ باہمی وفاداری کا معاملہ ہے جس کی جڑیں ہماری تاریخ میں مضبوطی سے قائم ہیں۔‘‘سامعین کے چہرے ، اندرونی بے چینی چھپانے کی کوشش میں مضحکہ خیز تائیدی تاثرات سے چمکنے لگے۔ انسپکٹر جنرل نے بات جاری رکھی:’’..... اور اب طوفان کی آمد پر، جو پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے یہ مضبوط بندھن تمہاری وفا کو آواز دے رہا ہے........ ‘‘
سامعین کی اندرونی کشمکش اور بے چینی عروج پر پہنچ گئی۔’’.... تم لوگو ں کو چاہئے کہ شر پسندوں کو عوام کے سامنے بے نقاب کرو۔ ان مفسدوں اور ہنگامہ پسندوں کی نشاندہی کرو جو ملک کا امن تہہ بالا کرنے کے درپے ہیں۔ تاکہ صاحبِ حکمران اپنی مضبوط بنیادوں پر استوار ہو۔‘‘
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ بے تکان بولتا چلا گیا اور پھر سامنے بیٹھے آئمہ کے چہروں کے تاثرات کا جائزہ لیتے ہوئے پوچھنے لگا کہ کوئی سوال یا وضاحت تو نہیں؟کمرے میں خاموشی چھا گئی یہاں تک کہ ایک امام نے جو دوسروںکی نسبت زیادہ جرأت مند اور چرب زبان تھا، توصیفی انداز میں اس رائے کا اظہار کیا کہ جو کچھ انسپکٹر جنرل نے کہا ہے وہ حقیقتاً ہر ایک کے دل کی آواز ہے۔ اگر انہیں اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ ان کا عمل بلا ہدایت عمل کاری کے زُمرے میں آئے گا تو وہ اب تک بعینہ یہی کر چکے ہوتے جس کی ان سے توقع کی جارہی تھی.....
6
جب انسپکٹر جنرل نے اجلاس کی طلبی کا مقصد بیان کیا تھا اس وقت شیخ عبد الربہ مطمئن بیٹھا تھا۔ اس نے یہ جان کر اطمینان کی سانس لی تھی کہ اجلاس کا مقصد آئمہ کی کارکردگی کی جواب طلبی نہیں بلکہ انہیں حکومت کی مدد کرنے کی درخواست کے لیے بلایا گیا ہے۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اگر اس وقت کوئی مجاہد صفت امام اپنی جگہ کھڑا ہو کر آئمہ کرام کی تنخوا ہیں اور مراعات بڑھانے کی درخواست پیش کر دے تو اس کے منظور ہو جانے کا نادر موقع ہے لیکن خود شہادت کے ڈر سے اس نے کھڑے ہو کر یہ مجاہدانہ کردار ادا کرنے کی جرأت نہیں کی، لیکن اس کایہ اطمینان زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔ اسے اس امر کا شدید احساس ہونے لگا کہ اب اس سے جمعہ کے خطاب میں وہ باتیں کہنے کا مطالبہ کیا جائے گا جو نہ صرف اس کے اپنے ضمیر کے خلاف تھیں، بلکہ عوام ان سے سخت نفر ت کرتے تھے او رپھر وہی ہوا !
اجلاس ختم ہوا تو بہت سے علماء نے ان باتوں کو اپنے ضمیر کے خلاف قرار دیا۔ ان میں شیخ عبد الربہ بھی شامل تھا مگر اس بات کا اظہار کرتے ہوئے اس نے اطمینان کر لیا کہ اردگرد کوئی مشکوک آدمی تو نہیں-
شیخ عبدا لربہ جب گلی میں داخل ہوا تو اس وقت بازار حسن کا سب سے بڑا اور مشہور دلال شلدام ’’چشمِ براہ شراب خانہ‘‘ میں اپنے نائبوں کی میٹنگ لے رہا تھا۔ یہ شراب خانہ مسجد سے چند قدم ہی دور تھا۔ شلدام اس وقت سخت غصے میں تھا اور اس کا غصہ سرخ شراب کے ہر گھونٹ کے ساتھ بڑھتا جا رہا تھا۔’’نباویہ....... احمق لڑکی محبت میں گرفتار ہو گئی ہے! ‘‘ وہ دھاڑا۔ ’’اس کنگلے بے وقعت حسن کی محبت میں! مجھے یقین ہے وہ اس سے عشق کرتی ہے۔‘‘
’’میرا خیال ہے وہ اسے ایک گاہک سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتی........ محض ایک گاہک‘‘ اس کے ایک معتمد ساتھی نے اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔شلدام نے جھنجھلا کر ہاتھوں میں پہنا ہوا آہنی مکا میز پر مارا جس سے پلیٹوں میں پڑی ہوئی نمکین مونگ پھلی کے دانے اور بھنے ہوئے چنے فرش پر بکھر گئے۔
’’نہیں! ‘‘ اس نے گرج کر کہا۔ ’’وہ بغیر کوئی دام دئیے اس کے جسم کو بھنبھوڑتا ہے۔ مجھے اس کا یقین ہے اور اس قدر یقین ہے کہ جس قدر اس بات کا کہ میرے خنجر کا وار کبھی خالی نہیں جاتا۔ وہ اسے دھیلا نہیں دیتا جبکہ وہ اسے تحفے دیتی پھرتی ہے! ‘‘
چہروں پر ناپسنددیدگی کے تاثرات اُبھرے۔ نشے میں سرخ ہوتی ہوئی آنکھوں نے شلدام کے ساتھ تعاون پر آمادگی کا اظہار کر دیا۔’’سور کا بچہ عین اس وقت آتا ہے جب محفل عروج پر ہوتی ہے اور وہ کتیا ترنگ میں ہوتی ہے‘‘ وہ بولتا چلا گیا۔ ’’تم لوگوں نے اس کی آمد تک انتظار کرناہے۔ جونہی وہ آئے اسے گھر لینا۔ اس کے بعد میںجانوں اور میرا کام۔‘‘
انہوں نے اپنے اپنے جام خالی کیے اور اپنے منصوبے پر عمل کرنے کا عزم آنکھوں میں لیے وہاں سے روانہ ہو گئے۔ مغرب کی نماز کے بعد شیخ
7
عبدالربہ سے ملنے اس کے مدرسے کے دو ساتھی آئے۔ یہ امام خالد اور امام مبارک تھے۔ انہوں نے شکستہ دل کے ساتھ اسے یہ خبر سنائی کہ بعض آئمہ کو حکومتی مہم میں شرکت سے انکار کرنے کی وجہ سے نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔’’عبادت گاہیں اس لیے تعمیر تو نہیں کی جاتیں کہ ان کے ذریعے سیاست کا کھیل کھیلا جائے اور عوام پر اپنا جابرانہ تسلط قائم کیا جائے۔‘‘امام خالد نے بپھرے ہوئے لہجے میں کہا۔شیخ عبد الربہ نے اپنے اندر ناگواری کی ایک لہر محسوس کی۔ اس نے خالد سے کہا:’’تم کیا چاہتے ہو؟ کیا ہم بھی فاقوں مر جائیں؟‘‘
لمحہ بھر کے لیے گھمبیر خاموشی ہوئی اور پھر گرما گرم بحث شروع ہو گئی۔ شیخ عبدالربہ کے پاس کوئی معقول دلیل نہ تھی مگر اس نے ہار نہ مانی، تاہم اپنے دوستوں کے سامنے شرمندگی سے بچنے کے لیے اس نے کہا:
’’ٹھیک ہے تمہارے پاس دلائل ہیں مگر یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے۔ اختلافی مسئلے میں کسی دوسرے کی رائے کو غلط نہیں کہا جاتا کیونکہ ہو سکتا ہے وہی حق بات ہو....... ‘‘
امام خالد نے شیخ کو یہ پینترا بدلتے دیکھا تو حیرت سے اس کا منہ دیکھنے لگا۔ اس نے مزید بحث فضول سمجھ کر خاموشی اختیار کر لی اور سر جھکا کر بیٹھ گیا،لیکن امام مبارک سے نہیں رہا گیا۔ وہ اپنے مخصوص جوشیلے انداز میں پھٹ پڑا: ’’جو بات تم کہہ رہے ہو، وہ کبھی حق نہیں ہو سکتی! اس طرح تو ہمیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے خلاف چلنا پڑے گا! ‘‘بات سچ تھی ، اس لیے تیر کی طرح اس کے دل میں لگی مگر اپنے ضمیر کے خلاف کام کرنے کی تلخی نے مبارک پر اس کا غصہ مزید بھڑکا دیا۔’’غلط کہہ رہے ہو۔‘‘ اس نے جھلا کر کہا۔ ’’ہم اللہ کے اس حکم کے مطابق چل رہے ہوں گے جس میں کہا گیا ہے کہ : ’’اطاعت کرو اللہ کی، اس کے رسول ﷺ کی اور ان کی جو تم پر حاکم مقرر کئے گئے ہیں۔‘‘مبارک نے سخت تلخی اور افسوس سے استفسار کیا:’’کیا یہی وہ حاکم ہیں جن کا قرآن نے ذکر کیا ہے؟‘‘
’’اس بحث کو چھوڑ دو۔‘‘ عبدالربہ نے ہاتھ اُٹھا کر بے زاری سے کہا۔ ’’مجھے صرف یہ بتائو کہ تم جمعہ کے روز واقعی حکومت کی ہدایت کے مطابق خطاب نہیں کرو گے؟‘‘
8
مبارک نے شیخ کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ وہ اُٹھا اور غصے سے پیر پٹختا مسجد سے باہر نکل گیا۔ پیچھے پیچھے امام خالد تھا۔ شیخ عبدا لربہ نے منہ ہی منہ میں انہیں بھلا کہا اور اپنے حجرے کی طرف چلا گیا۔
رات جوبن پر آئی تو نباویہ کا کوٹھا تماش بینوں سے بھر گیا۔ سب نے شراب چڑھا رکھی تھی اور اوپری صحن میں دائرے کی شکل میں لکڑی کی کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ صحن گیس لیمپ کی تیز روشنی سے چمک رہا تھا۔ تماش بیوں کے درمیان نباویہ تھرکتے ہوئے ناچ رہی تھی۔ اس نے گلابی رنگ کا شب خوانی مہین لبادہ پہن رکھا تھا جس کے اندر سے اس کا بھرپور جوان جسم تمام تر رعنائیوں سمیت چھلکا پڑ رہاتھا۔ اس کی نازک کلائیوں میں پھولوں کے گجرے تھے جن سے بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی۔ تماش بین اس کے ناچ سے مست ہو کر تال کے ساتھ تالیاں پیٹ رہے تھے اور جذباتی انداز میں آہیں بھر رہے تھے۔ اس ماحول میں جبکہ ہر کوئی اردگرد بیگانہ ہو رہا تھا، دلال کے نائب ایک ایک کر کے صحن میں داخل ہوئے اور مختلف کونوںمیں جا کھڑے ہوئے ۔ وہ منتظر تھے۔ شلدام سیڑھیوں کے قریب براجمان تھا۔ اس کی نظریں بیرونی دروازے پر لگی ہوئی تھیں۔حسن داخل ہوا۔ اس نے صاف لباس پہن رکھا تھا او ربال سلیقے سے کاڑھے ہوئے تھے۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ شلدام نے اسے قہر آلود نگاہوں سے گھورا ۔ حسن کھڑا ہو کر نباویہ کو دیکھنے لگا۔ جونہی نباویہ کی نظر اس پر پڑی، اس نے ناچتے ہوئے ایک ادائے دلبرانہ سے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور اپنی خوبصورت ناک چڑھا کر آنکھ سے اشارہ کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ ظالم اتنی دیر سے کیوں آئے ہو؟ پھر وہ کولہے مٹکاتے ہوئے اس کے نزدیک دیوانہ وار ناچنے لگی۔ حسن کے چہرے پر ایسے تاثرات چھا گئے جیسے وہی اس محفل کا دولہا ہو۔ اس نے خالی کرسی کے لیے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی اور پھر ایک کرسی سنبھال کر بیٹھ گیا۔یہ منظر شلدام کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔اس کا خون کھول اُٹھا۔ اس نے غصے سے اپنی مُٹھیاں بھینچیں اور منہ میں دو انگلیاں ڈال کر سیٹی بجائی۔ اس کی سیٹی سنتے ہی اس کے گروہ کے دو شہدوں نے منصوبے کے مطابق آپس میں لڑائی شروع کر دی۔ دوسرے ساتھ بیچ بچائو کے بہانے اس لڑائی میں ملوث ہو گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے لڑائی پھیل گئی اور اس کا انداز خطرناک ہو گیا۔ شراب کے نشے میں دھت تماش بینوں کا نشہ ہرن ہو گیا۔ وہ جانیں بچا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ ایک کرسی گیس کے لیمپ پر جا کر لگی۔ لیمپ فرش پر گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ صحن میں ایک دم اندھیرا چھا گیا ۔ ہر طرف چیخ پکار مچ گئی۔ دھینگا مشتی اور شور شرابے کے درمیان ایک عورت کی چیخ اندھیرے کا سینہ چیرتی ہوئی فضا میں بلند ہوئی۔ پھر ایک مرد کی کربناک آہ سنائی دی۔ جلد ہی صحن خالی ہو گیا۔ اب وہاں صرف دو لاشیں پڑی تھیں......... نباویہ اور حسن کی لاشیں!
٭............. ٭............. ٭
اگلے روز جمعہ تھا۔ جب جمعہ کی نماز کا وقت ہوا تو مسجد نمازیوں سے بھر گئی۔ عام دنوں کے برعکس جمعہ کے روز اس مسجد میں خاصا رش رہتا تھا۔ قاہرہ کے مضافاتی علاقوں مثلاً الخازن اور الاتابہ کے لوگ بھی یہاں آ کر جمعہ پڑھتے تھے۔ قرآن پاک کی تلاوت کے بعد شیخ عبدالربہ کھڑا ہوا اور وعظ و خطاب شروع کیا۔ جب اس نے اپنے خطاب کا رُخ ملکی سیاست کی طرف پھیرا تو لوگ سخت متعجب ہوئے۔ ان کے چہروں کے اُتار چڑھائو بتا رہے تھے کہ انہیں شیخ کی باتیں نا گوار گزر رہی ہیں۔ شیخ کو اندازہ تھا کہ لوگ یہ باتیں نا پسند کریں گے مگر ان کا ردِ عمل ایسا شدید ہو گا، اس نے سوچا تک نہ تھا۔ جب اس نے انقلابیوں کی مذمت کرتے ہوئے یہ کہا کہ یہ لوگوں کو صالح حکمرانوں کے خلاف بغاوت پر اُکسا کر اپنا الو سیدھا کر رہے ہیں تو مسجد میں ایک دم بھن بھناہٹ شروع ہو گئی اور پھر احتجاجی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ کئی لوگ اُٹھ کر امام کی مذمت کرنے لگے۔ ماحول خاصا
9
کشیدہ ہو گیا تھا۔ پولیس کے کئی آدمی سادہ کپڑوں میں نمازیوں کے درمیان بیٹھے تھے۔ انہوں نے لپک کر ان آدمیوں کو پکڑ لیا جو زیادہ احتجاج کر رہے تھے اور لوگوں کی مزاحمت کے باوجود انہیں گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے۔ بہت سے نمازی مسجد سے باہر نکل آئے اور حکومت کے خلاف نعرے لگانے لگے۔ شیخ نے یہ دیکھ کر قبل از وقت جماعت کھڑی کی اور باقی ماندہ لوگوں کی امامت کرتے ہوئے ’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر نماز پڑھانا شروع کر دی۔ یہ ترکیب کارگر ثابت ہوئی۔ لوگ، ناچار ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو گئے، تاہم یہ ایک افسردہ نماز تھی۔جس وقت ادھر نماز ہو رہی تھی، اس وقت گلی کے اندر دائیں جانب دوسرے مکان میں ثمرہ اپنے ایک نئے گاہک کی شراب سے تواضع کر رہی تھی۔ وہ اپنے بیڈ کے کنارے پر نیم برہنہ بیٹھی تھی اور ایک کرسی پر گاہک بیٹھا تھا۔ اس کا کوٹ کرسی کی پشت پر جھول رہا تھا اور وہ آستینیں چڑھائے ایک بوتل سے شراب انڈیل انڈیل کر پی رہا تھا۔ اس کی نظریں بار بار خالی کمرے کا جائزہ لیتیں اور پھر ثمرہ کے جسم پر آ کر ٹک جاتیں۔پیتے پیتے اس نے آگے بڑھ کر گلاس ثمرہ کے تراشیدہ لبوں سے لگایا اور اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اپنی ناک اس کی گرد سے رگڑنے لگا۔ اسی لمحے اس کے کانوں میں شیخ کی قرات کی آواز آنے لگی۔ اس نے بد مزہ ہو کر خود کو ثمرہ سے جسم سے علیحدہ کیا اور بڑ بڑاتے ہوئے کہا:’’انہیں یہاں مسجد تعمیر کرنے کی بھلا کیا ضرورت تھی؟ کیا کوئی اور جگہ نہیں تھی؟‘‘یہ جگہ بھی اتنی ہی اچھی یا بری ہے جتنی دوسری جگہیں! ‘‘ ثمرہ نے کھیرے کی قاشیں منہ میں رکھتے ہوئے کہا۔گاہک نے شراب کے دو گھونٹ حلق میں اُتارے اور پھر اپنی مخمور آنکھیں اس کے چہرے پر جما کر بولا:’’اے عورت تمہیں خدا سے ڈر نہیں لگتا؟‘‘’’خدا ہم سب کو معاف کرے..‘‘ ثمرہ نے ’’ہم‘‘ پر زور دے کر کہا۔وہ خفیف سا ہو کر ہنسنے لگا اور آگے بڑھ کر کھیرے کی قاش اٹھا کر منہ میں ڈالی۔شیخ عبدا لرب اب دعا مانگ رہا تھا۔ ثمرہ کے گاہک نے غور سے اس کے الفاظ سنے اور اپنا سر ہلا کر طنزیہ لہجے میں مسکرا کر بولا:’’منافق ! ذرا سنو تو سہی کیا کہہ رہا ہے! ‘‘اس کی نگاہ ایک بار پھر کمرے کی دیوار کا طواف کرنے لگی۔ دیوار پر ایک چھوٹی سی بد رنگ تصویر آویزاں تھی۔ اس کی نگاہ تصویر پر ٹھہر گئی۔ یہ مصری قوم پرست لیڈر سعد غلول کی تصویر تھی۔ ا س نے تصویر کی طرف اشارہ کیا اور ثمرہ سے پوچھا:’’کیا تمہیں معلوم ہے یہ کس کی تصویر ہے؟‘‘
10
’’ہاں کیوں نہیں! بھلا یہاں کون ہے جو اس سے ناواقف ہو؟‘‘اس نے شراب کی بوتل کا آخری گھونٹ لیا اور گھمبیر آواز میں کہا:
’’تو گویا ثمرہ محب وطن اور شیخ دو چہروں والا منافق ہے! ‘‘’’مجھے تو اس پر رشک آتا ہے! ‘‘ اس نے ٹھنڈی سانس لی۔ ’’وہ چند الفاظ بول کر اپنی قسمت سنوار رہا ہے اور ادھر ہم جیسی ہیں جنہیں بمشکل چند سکے بمشکل ہاتھ لگتے ہیں اور وہ بھی پورے بدن کا پسینہ بہا کر! ‘‘’’یہ لوگ کچھ نہیں محض ایک چھوٹا سا گروہ ہیں جو صرف اپنی ہی نظروں میں اہم ہیں۔‘‘ اس نے تلخی سے کہا۔ ’’یہ خود کو ’’قابلِ عزت‘‘ سمجھتے ہیں حالانکہ حقیقت میں یہ لوگ اس بازار کے لوگوں سے قطعاً مختلف نہیں...... لیکن یہ کہنے کا حوصلہ کس میں ہے؟‘‘
’’ہر کوئی جانتا ہے کہ نباویہ کو کس نے قتل کیا ہے مگر اس کا نام لینے کی جرأت کس میں ہے؟‘‘گاہک نے افسوس سے اپنا سر ہلا: ’’بیچاری نباویہ! اسے کس نے قتل کیا؟‘‘
’’شلدام نے۔ خدا اسے غارت کرے۔‘‘
’’خدا کی پناہ یہ آدمی کیا ہے؟ جو کوئی اس کی مرضی کے خلاف چلتا ہے، اسے یہ اپنے رستے سے ہٹا دیتا ہے! شکر ہے اس کی سرزمین پر صرف ہم ہی اکیلے گناہ گار نہیں! ‘‘’’تم باتوں میں بہت وقت ضائع کر رہے ہو ‘‘ وہ ناراضی سے بولی۔ وہ ہنس پڑا، پھر آگے بڑھ کر اسے دبوچ لیا۔
٭............. ٭............. ٭
شیخ عبد الربہ نے مسجد میں پیش آنے والی صورت حال سے فائدہ اُٹھانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے وزارت مذہبی اُمور کو ایک خط لکھا کہ اپنے حب الوطنی پر مبنی خطاب کی وجہ سے اسے جان کا خطرہ ہو گیا ہے اس نے سارے واقعے کو بڑھا چڑھا کر اخبار میں شائع کروانے میں بھی کامیابی حاصل کرلی۔ خبر میں سارا زور اس بات پر تھا کہ اگر پولیس مداخلت نہ کرتی اور باغیوں کو گرفتار نہ کرتی تو اس کی جان جانے کا ڈر تھا۔ اس ساری بھاگ دوڑ کا مقصد یہ تھا کہ اسے ترقی مل جائے۔ عصر کا وقت ہوا تو درس پر کوئی سامع نہ تھا۔ شیخ نے مسجد کے دروازے میں کھڑے ہو کر گلی میں نگاہ دوڑائی۔ کچھ فاصلے پر اسے چچا حسنین کو دیکھا ہو سکتا ہے اسے یاد نہ رہا ہو کہ اسے درس پر پہنچنا ہے، شیخ نے باہر نکل کر چند قدم لیے اور خوش گوار انداز میں اسے پکارا:’’چچا حسنین ، درس! ‘‘
11
چچا حسنین نے اپنا نام سن کر پلٹ کر دیکھا اور پھر نفرت سے منہ پھیر کر دوبارہ اپنے کام میںمصروف ہو گیا۔ شیخ عبد الربہ کا منہ لٹک گیا۔ وہ شرمندہ ہو کر دل ہی دل میں پچھتانے لگا کہ اسے کیوں بلایا تھا۔ پھر وہ منہ ہی منہ میں اسے برا بھلا کہتا مسجد میں داخل ہو گیا۔
٭............. ٭............. ٭
فجر کے وقت موذن مینار پر چڑھا۔ ابھی خاصا اندھیرا تھا۔ فضا میں خنکی تھی اور آسمان پر پور ا چاند ساکت و جامد نظر آ رہا تھا۔ ابھی موذن نے ’’اللہ اکبر‘‘ کی صدا بلند ہی کی تھی کہ ہوائی سائرن خوفزدہ کر دینے والی بلند آواز کے ساتھ بج اُٹھا۔ موذن کا دل زور سے دھڑکا ۔ اس نے دل ہی دل میں خدا سے عافیت کی دعا مانگی اور دوبارہ اذان کہنے کے لیے سائرن کے خاموش ہونے کا انتظار کرنے لگا۔جب سے اٹلی نے اتحادیوں کے خلاف جنگ میں کودنے کا اعلان کیا تھا، رات کو چوکسی کی خاطر سائرن بجانے کا عمل عام ہو گیا تھا لیکن آج تک عملاً کچھ بھی نہیں ہو اتھا۔ موذن نے اپنی جرأت مجتمع کی اور ایک بار پھر اذان شروع کی:’’اللہ اکبر ، اللہ اکبر ! ‘‘ اس کی آواز میں خاصا سوز آگیا تھا۔
اچانک ایک زور دار دھماکے کی آواز آئی اور موذن کی آواز دھماکے کی شدت کے باعث دب گئی۔ وہ اپنی جگہ کسی برف کے تودے کی مانند جم کر رہ گیا۔ اس کی نظریں دور اندھیرے میں گھور رہی تھیں جہاں سرخ شعلے فضا میں بلند ہو رہے تھے۔ اس نے کپکپاتی ٹانگوں کے ساتھ بمشکل دو قدم چل کر دروازے کو کھولا اور سیڑھیوں پر لڑ کھڑاتا ہو نیچے اتر آیا۔ مسجد کے اندر گھپ اندھیرا تھا۔ ہال میں داخل ہو کر اسے امام اور خادم کی سر گوشیوں سے سمت کا تعین کرنے میں مدد ملی تو وہ تیزی سے ان کی طرف بڑھا۔’’حضرات! معاملہ اس بار سنجیدہ ہے! ‘‘ اس نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔’’ہمیں جلدی سے کچھ کرنا چاہیے۔‘‘’’اجتماعی زمین دوز پناہ گاہ بہت دور ہے۔‘‘ امام نے جواباً کہا۔ اس کی آواز قدرے بھرائی ہوئی تھی۔ ’’ویسے بھی اس وقت تک وہ شور مچاتے عوام کے ہجوم سے بھر چکی ہو گی۔ مسجد بہت مضبوط ہے۔ یہ بہت اچھی پناہ گاہ ثابت ہو گی۔‘‘
وہ ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گئے اور قرآن کی تلاوت کرنے لگے۔ باہر سے بھاگتے قدموں بلند آوازوں اور نصیحت آمیز جھنجھلائی ہوئی صدائوں کا شور بلند ہوا۔ کئی کھڑکیوں اور دروازے کے پٹ بجے اور گیٹ کھلنے کی چر چر اہٹیں فضا میں مرتعش ہوئیں۔ دفعتاً کئی زور دار دھماکے ایک ساتھ ہوئے۔ سب کے حواس جواب دے گئے۔ دل اچھل کر حلق میں آگئے۔ مسجد کے خادم نے خوفزدہ ہو کر کہا:’’حضرات میری فیملی گھر میں ہے اور میرا مکان بہت بوسیدہ ہے۔‘‘
12
’’خدا پر بھروسا کرو......... یہ جگہ چھوڑ کر نہ جائو۔‘‘ امام نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔لوگوں نے ایک گروہ بھاگ کر مسجد میں آگیا۔ ان میں کئی ایک نے کہا:’’یہ سب سے محفوظ جگہ ہے۔‘‘’’آج معاملہ بہت خراب لگتا ہ....... ‘‘ کسی نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ امام آواز سن کر چونک پڑا۔ یہ یقینا شلدام دلا ل تھا، علاقے کا سب سے بڑا بد قماش آدمی ۔ اس کی یہاںموجودگی کا مطلب بدنصیبی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ لوگوں کا ایک اور ریلا اندر آ گیا۔ یہ ہجوم پہلے سے کہیں بڑا تھا۔ اس میں عورتیں بھی تھیں جن کی آوازیں شیخ کے لئے نامانوس نہ تھیں۔ ان میں سے ایک عورت بولی:’’شراب کے نشے کا اثر خاصا کم ہو گیا ہے ......... ‘‘شیخ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ وہ اپنی جگہ اُچھل کر کھڑا ہو گیا اور جارحانہ انداز میں بولا:’’دفعان ہو جائو خبیثو! بے شرمو! اور جا کر اجتماعی پناہ گاہ میں پناہ لو! کچھ خدا کے گھر کی عزت کا خیال کرو۔ چلو! نکلو یہاں سے.......... ! ‘‘
جواب میں ایک آدمی کی آواز آئی۔ ’’یا شیخ! براہِ کرم بکواس بند ! ‘‘ ہجوم نے ٹھٹھے کے طور پر ایک قہقہہ لگایا، مگر ان کی آواز ایک کان پھاڑ دینے والے دھماکے کی آواز میں دب گئی۔ مسجد میں چیخ و پکار مچ گئی۔ امام پر خوف طاری ہو گیا۔ وہ وحشیانہ انداز میں کچھ اس طرح چیخا جیسے وہ بموں سے مخاطب ہو مگر وہ ان لوگوں سے کہہ رہا تھا:
’’پرے ہٹو.......دا کے گھر کو گندا نہ کرو! ‘‘’’ایسا کہتے ہوئے تمہیں شرم آنی چاہئے۔‘‘ ایک رنڈی کی آواز آئی۔
’’دفع ہو جائو! ‘‘ شیخ دھاڑا۔’’خدا تمہیں غارت کرے ! لعنتی عورت ! ‘‘ ’’یہ خدا کا گھر ہے۔ تمہارا گھر نہیں کہ ہمیں نکل جانے کو کہہ رہے ہو۔‘‘رنڈی نے غصے سے کہا۔اندھیرے میں شلدام کی آواز سنائی دی۔’’حضرت صاحب! آپ اپنا منہ بند نہیں کر سکتے؟‘‘
13
لوگ حوصلہ پا کر ایک ساتھ شیخ کو لعن طعن کرنے لگے۔ عورتوں نے اس پر کوسنوں کی بارش کر دی۔ موذن نے آگے بڑھ کر شیخ کے کان میں سر گوشی کی۔’’حضرت چپ ہو جائیں۔ براہِ کرم کوئی جواب نہ دیں، میں آپ سے التجا کرتا ہوں۔‘‘عبدالربہ نے بمشکل رندھی ہوئی آواز میں کہا:’’کیاتم اس بات کو ٹھیک سمجھتے ہو کہ مسجد ان جیسے لوگوں کی پناہ گاہ بنے؟‘‘’’ان کے پاس کوئی متبادل بھی تو نہیں! ‘‘ موذن نے ان کی حمایت کی۔ ’’کیا آپ کو علم نہیں کہ یہ محلہ پرانے گھروں پر مشتمل ہے۔ یہ گھر اس قدر بوسیدہ ہیں کہ محض دھماکوں کی تھر تھراہٹ سے زمین بوس ہو سکتے ہیں، بموں کے گرنے کا تو ذکر ہی کیا۔‘‘شیخ اپنی ہتھیلی پر مکا مار کر غصے سے سر ہلاتے ہوئے بولا:
’’اے کاش میں اس بد قماش اور لعنت کے مارے ہوئے طبقے کو برداشت کر سکتا! مگر نہیں! میرا دل کہتا ہے کہ خدا نے ان سب کو جس طرح ہانک کر یہاں اکٹھا کیا ہے اس کی کوئی وجہ ضرور ہو گی۔‘‘قریب ہی بم کا ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ ان کے دل دہل گئے۔ یہ دھماکہ میدان الخازن میں ہوا تھا۔ روشنی کا ایک کوندا لپکا جس نے ان کے خوفزدہ چہروں کو لمحہ بھر کے لیے روشن کیا اور پھر اندھیرے میں معدوم ہو گیا۔
فضا میں جہازوں کی کان پھاڑ دینے والی چنگھاڑ سنائی دی۔ عورتیں چیخ اُٹھیں۔ شیخ عبدالربہ بھی اپنی چیخ ضبط نہ کر سکا۔ وہ حواس باختہ ہو گیا اور اندھا دھند بیرونی دروازے کی طرف دوڑ لگا دی۔ مسجد کا خادم اس کے پیچھے بھاگا اور اسے روکنے کی کوشش کی مگر عبد الربہ نے جارحانہ انداز میں اسے ایک طرف دھکیلتے ہوئے کہا:’’بے وقوفو! دونوں میرے پیچھے آئو، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے....... ‘‘یہ کہہ کر وہ دیوانہ وار باہر کی طرف بھاگا اور لرزتی ہوئی آواز میں یہ کہتے ہوئے اندھیری گلی میں غائب ہو گیا:
’’بلاشبہ خدا نے ان سب کو یہاں کسی مصلحت کے تحت جمع کیا ہے..... ‘‘
فضائی حملہ مزید پانچ منٹ جار ی رہا۔ اس دوران چار بم پھینکے گئے جن میں سے ایک بم کہیں بہت قریب گرا ۔ دس پندرہ منٹ تک شہر پر خاموشی طاری رہی اس کے بعد حملے کے اختتام کا سائرن بج اُٹھا۔ اندھیرے کی ملگجی چادر اور گرد و غبار کے بادلوں کی اوٹ سے آہستہ آہستہ سپیدہ سحر نمودار ہوا۔ صبح کی دھندلی روشنی میں مسجد سے کچھ ہی دور، پیشہ ور عورتوں کی گلی کے عین بیچ میں ، شیخ عبدالرب کی لاش پڑی دکھائی دی۔اس کا وجود بم کے ٹکڑوں سے چھلنی تھا۔
٭............. ٭............. ٭