مصنف: الفانس ڈاڈت ‘ مترجم: اجمل شاہ دین
الفانس ڈاڈت فرانس کے مشہور ناول نگار اور کہانی کار تھے ۔ پوری دنیامیں انکی کہانیوں کو آج بھی پسند کیا جاتا ہے ۔ آخری سبق ان کی شاہکار کہانیوں میں سے ایک ہے ۔ اس میں طنز بھی ہے او رنئے مستقبل کی امید بھی ۔ قومی زبان سے محبت کے بارے میں لکھی جانے والی یہ کہانی آپ کے لیے بھی ایک اہم سوال اٹھاتی ہے کہ کیا ہم پاکستانی بھی اپنی قومی زبان پر اتنا فخر کرتے ہیں ‘ اسے اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں ؟
اس صبح جب میں سکول کی طرف روانہ ہوا تو کافی دیر ہو چکی تھی اور میں اس خیال سے ہی بہت ڈر رہا تھا کہ اب سکول جاتے ہی مجھے بہت ڈانٹ پڑے گی کیونکہ ہمارے ٹیچر منصور ہمیل نے ہمیں بتایا تھا کہ وہ کل ہم سے Participle کاسبق سنے گا جبکہ مجھے تو اس کی الف ب کا بھی پتا نہیں تھا ۔ اس دن بہت خوبصورت دھوپ نکلی ہوئی تھی اور سماں اجلا اجلا لگ رہا تھا ۔ قریبی درختوں کے جھنڈ سے پرندوں کے چہچہانے ‘ گیت گانے کی میٹھی میٹھی آوازیں آرہی تھیں ۔ چراگاہ کے قریت جرمن فوجی اپنی فوجی ڈرل کر رہے تھے ۔ یہ سب سماں اس سبق کے مقابلے میں انتہائی خوش گوار اور پر کشش تھا ۔ ایک لمحے کیلیئے میرے دل میں سکول سے بھاگ جانے کا خیال آیا لیکن میں نے ان آوارہ خیالات پر جلدی قابو پایا اور سکول کی طرف تیز تیز چلنا شروع کر دیا ۔
جوں ہی میں ٹائون ہال پہنچا تومیں نے بہت سے لوگوں کو مرکزی نوٹس بورڈ کے گرد دیکھا ۔ اس منحوس نوٹس بورڈ پر سے ہی ہمیں ساری بری خبریں ملی تھیں - ہماری فوج کے ہار جانے کی خبریں-فاتح جرمنوں کے احکامات - میں بھی وہاں رک کر اس نوٹس بورڈ کو پڑھنا چاہتا تھا مگر مجھے سکول سے بہت دیر ہو رہی تھی لیکن مجھے یہ تجسس ضرور تھا کہ اب تازہ حکم کیا آیا ہے ؟
جیسے ہی میں سکول کے قریب چوک میں تقریباً بھاگتے ہوئے پہنچا ۔ واشٹر لوہار جو اپنے زیر تربیت شاگرد کے ساتھ نوٹس بورڈ پڑھنے پر منہمک تھا ‘ نے اپنے نظریں اٹھائیں اور بلند آواز سے کہا :’’ اتنا تیز مت چلو بیٹا! تم اپنے سکول پہنچ ہی جاؤ گے ۔‘‘
مجھے یقین تھا کہ وہ میر ا مذاق اڑا رہا ہے ۔ میں نے بھاگنا جاری رکھا او رجب میں نے اپنے ٹیچر منصور ہیمل کی چھوٹی سی تعلیمی سلطنت میں قدم رکھا تو میرا سانس پھول چکا تھا ۔ سکول کے کھلنے کے وقت یہاں بہت شور ہوا کرتا تھا ۔ اتنا شورکہ وہ باہر گلی تک سنائی دیتاتھا ۔ ڈیسکوں کے کھلنے ‘ بند ہونے ‘ ہلنے اور بچوں کے سبق یاد کرنے کی بلند آوازیں اس وقت تک آتی رہتی تھیں جب تک منصورہیمل بڑا سا ڈنڈا اپنی میز پر مارتے اور بلند آواز میں کہتے :’’خاموش!‘‘ میر اخیال تھا کہ آج بھی حسب معمول ایسا ہی ہو گا لیکن حیرت انگیز طور پر اس صبح کوئی شور نہیں تھا ۔ نہ ڈیسکوں کی آوازیں نہ بچوں کے سبق یاد کرنے کا شور -یوں لگتا تھا جیسے عالم گیر خاموشی چھائی ہو ۔ کھلی کھڑ کی سے مجھے صاف نظر آرہا تھا کہ میرے سب ہم جماعت اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھے ہوئے تھے ۔ منصور ہیمل ادھر ادھر ٹہل رہے تھے ۔ ان کا نا قابل فراموش’’مولابخش‘‘ ان کی بغل میں دباہوا تھا ۔ اب مجھے کلاس روم میں داخل ہونا تو ہی تھا ۔ میرا جی چاہ رہا تھا کہ اس طرح کا معجزہ ہو جائے کہ میں چپکے سے اپنی نشست پر بیٹھ جائوں اور انہیں پتا ہی نہ چلے کہ میں دیر سے آیا ہوں ۔ میرا خیال ہے کہ مجھے آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ میرا چہرہ پیش آنے والی خجالت کے خدشے سے سرخ ہو چکا تھا اور خوف نے گویا مجھے جکڑ لیا تھا ۔ مگرنہایت عجیب بات یہ ہوئی کہ منصور ہیمل نے مجھے دیکھا اور کسی غصے کا اظہار نہ کیا ۔ جب وہ بولے تو آواز میں بے حد نرمی اور شفقت تھی ۔ ’’جلدی سے اپنی نشست پر بیٹھ جائو میرے ننھے فرانز! ہم تمہارے بغیر ہی سبق شروع کرنے والے تھے ۔ ‘‘ پہلے تو مجھے اپنے کانوں پر اعتبارنہ آیا لیکن پھر خوشی سے میں نے اپنے بنچ کی طرف چھلانگ لگا دی ۔ جب میرے اوسان کچھ بحال ہوئے تومیں نے دیکھا کہ انہوںنے اپنا سبز فراک کوٹ ‘ عمدہ شرٹ والا بہترین لباس پہنا تھا - وہ لباس جو وہ سکول کے خاص خاص مواقع مثلاً جلسئہ تقسیم انعامات وغیر ہ پر پہنتے تھے نیز یہ کہ میرے ہم جماعتوں کے چہروں پر غیر معمولی سنجیدگی طاری تھی ۔ سب سی بڑا سرپرائز مجھے اس وقت ملا جب میںنے کمرے کے آخری کونے کی طرف نظر دوڑائی ۔ یہ نشستیں عموماً خالی رہتی تھیں لیکن آج یہ خالی نہیں تھیں-ان پر بڑی عمر کے دیہاتی موجود تھے ۔ وہاں بوڑھا ہازور بھی بیٹھا تھا جس نے تین کو نوں والا ہیٹ پہن رکھا تھا ‘ وہاں عزب مآب میئر بھی موجود تھے ‘ ریڑھے والے بوڑھے جان کے علاوہ دیگر معزز ہستیاں بھی موجو د تھیں ۔ ہمارے یہ تمام مہمان طالب علم افسردہ نظر آتے تھے بوڑھا ہازور اپنا پرانا پائپ لانا نہ بھولا تھا اور موٹے موٹے شیشوں کا چشمہ لگائے کتاب کے صفحات پر نظریں جمائے بیٹھا تھا ۔ میرےان حیران ہوتے رہنے کے وقت کے دوران میں منصور ہیمل اپنی نشست پر بیٹھ گئے تھے ۔ وہ کچھ توقف کے بعد اسی گھمبیر او رنرم آواز میں جس سے انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا تھا ‘ ہم سے مخاطب ہوئے :’’ میرے بچو! یہ آخری دن ہو گا جب میں آپ کو پڑھاؤں گا ۔ برلن سے حکم آگیا ہے کہ اس قصبے اور دیگر شہروں میںتمہاری فرانسیسی زبان کی بجائے جرمن زبان پڑھائی جائے گی ۔ آپ کے نئے استاد کل آجائیں گے جوآپ کو جرمن زبان پڑھائیں گے ۔ آج آپ فرنچ کا آخری سبق پڑھیں گے اور میر ی آپ سب سے درخواست ہے کہ آپ آج سب سے زیادہ توجہ کے ساتھ سبق پڑھیں ۔‘‘
’’میراآخری سبق!‘‘ میں نے زیر لب جملہ دہرایا- اور مجھے تو ابھی اپنی مادری زبان ابھی لکھنی ہی نہیں آئی ۔ میں اپنی مادری زبان بھی اب کبھی نہ سیکھ سکوں گا - میری تعلیم تو نامکمل ہی رہ جائے گی ۔ میں اتنا بد قسمت کہ جسے اپنی مادری زبان بھی نہیں آتی ! پھر میرے دماغ میں وہ ایک ایک لمحہ یاد آیا جو میں نے پرندوں کا شکار کرنے ‘ سکیٹنگ کرنے میں ضائع کیے تھے ۔ میں سبق یاد نہیں کرتا تھا او ران فضو ل کاموں میں مصروف رہتا تھا ۔ آہ! مجھے اس لمحے بہت یچھتاوا ہو رہا تھا ۔ وہی کتابیں جو مجھے دنیا میں خشک ترین اور بورترین چیزیں لگتی تھیں ۔ جنہیں اٹھانامجھے بہت بھاری لگتا تھا ‘ اب مجھے پیاری اور مزے دار ترین لگ رہی تھیں ۔ مجھے رہ رہ کر اپنے دوستوں اور منصور ہیمل کاخیال آرہاتھا - آہ بے چارہ منصور ہیمل - جسے آج ہی ہم سے الوداع ہونا تھا -اب میں انہیں کبھی دوبارہ نہ دیکھ سکوں گا - یہ خیال آتے ہی میں ان کی تمام سختی بھول گیا ۔ مجھے ان کے ’’مولا بخش‘‘ سے ہونے والی ساری پٹائیاں بھول گئیں اور میر ی آنکھوں کے کونوں میں آنسو جھلکنے لگے ۔ اچھا ! تو آج اسی لیے وہ اپنا بہترین لباس پہن کر آئے ہیں- اپنا آخری سبق پڑھانے … اچھا! آج اسی لیے یہ معزز شخصیات جمع ہوئی ہیں ۔ یقینا یہ ایک اہم موقع ہے یقیناً وہ اس اہم موقع پر غم اور دکھ کا اظہار کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں کہ انہوں نے بھی اپنے سبق میں بہت سی چھٹیاں کی تھیں - اس انداز میں وہ ایک طرح سے اپنے استاد کا شکریہ ادا کرنا چاہتے تھے جس نے چالیس سال تک اس سکول میں خدمات سر انجام دی تھیں - وہ اس زمین کو خراج تحسین پیش کرنے آئے تھے جس پر اب ان کا کوئی اختیار نہ رہا تھا … جو اب دشمن جرمنوں کے قبضے میں تھی ۔ میں انہی خیالوں میں گم تھا جب میںنے اپنا نام پکار ے جانے کی آواز سنی ۔ اب سنانے کی میر ی باری آگئی تھی- شرمندگی اور پچھتاوے - یہی اس وقت میرا کل سرمایہ تھا کاش میں اس قابل ہوتا کہ شروع سے لے کر آخر تک سبق فرفر سنا جاتا بغیر کہیں اٹکے … بغیر کسی غلطی کے ۔ لیکن یہ تو اس وقت ہوتا جب میں نے اپنا وقت کھیلنے کودنے کی بجائے پڑھنے میں صرف کیا ہوتا … لہذا میں ابتدائی لفظ پر ہی اٹک گیا … اور اپنی سیٹ پر سر جھکائے کھڑا رہا … میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا … مجھ میں ہمت نہ تھی کہ اپنا سر اوپر اٹھا سکوں اور منصور ہیمل مجھ سے کہہ رہے تھے ۔ ’’میں تمہیں نہیں ڈانٹوں گا … کوئی سزا نہیں دوں گا میرے ننھے فرانز!تمہارے لیے اس سے بدترین سزا لکھ دی گئی ہے …(اس سے بڑھ کر بدتر ین سزا کیا ہو گی ؟) ہم بہت غافل لوگ ہیں ۔ ہم اب تک روزانہ اپنے آپ کو یہ دلاسا دیتے رہے ‘ ابھی بہت وقت ہے پڑھائی کل کر لیں گے اور اب نتائج دیکھ لیجئے ! یہ ہماری بدترین بدقسمتی ہے کہ ہم پڑھائی کو آنے والے کل پر ٹالتے رہے … اور وہ کل آتو گیا ہے مگر کیسا ؟ اب یہ غیر ملکی (جرمن) ہمیں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اور وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے ۔ تم فرانسیسی ہونے کا دعوٰی کیوں کرتے ہو ؟ تمہیں تو اپنی زبان بولنی آتی ہے نہ لکھنی آتی ہے ۔ میرے ننھے فرانز تمہی سب سے بڑے مجرم نہیں ہو … ہم سب مجرم ہیں … کسی نہ کسی حد تک اس جرم کے خطاکار آج ہم سب کی خود احتسابی کادن ہے ۔ ‘‘
’’تمہارے والدین نے بھی تمہاری پڑھائی کے بارے میں کوئی خاص ذمہ داری سے کام نہیں لیا ۔ ان کی ہمیشہ یہ تر جیح رہی کہ تم پودوں کی گوڈی کرتے رہو تاکہ انہیں چند سکے اور حاصل ہو سکیں ۔ ہاں‘ مجھے بھی اپنا احتساب کرنا چاہیے ۔ کیا میں تمہیں اپنے باغ کو پانی دینے کے لیے اس وقت نہیں بھیجا کرتا تھا جب تمہاری پڑھائی کا وقت ہوتا تھا ۔ ہاں مجھے افسوس ہے کہ میں ایسا ہی کرتا تھا … اور جب میر ا دل مچھلیاں پکڑنے کو چاہ رہا ہوتا تھا تو میں تم سب کو چھٹی دے دیا کرتا تھا …کیا میرا ضمیر ان باتوں پر مطمئن ہو سکتا ہے ؟ … نہیں ‘ ہر گز نہیں !‘‘
منصور ہیمل نے افسردگی سے یہ سب کچھ کہا اور پھر اس نے ایک سبق کے بعد دوسرا ‘ دوسرے کے بعد تیسرا پڑھانا شروع کیا ۔ اس نے کہا :’’فرانسیسی دنیاکی مضبوط ترین‘ موثر ترین ‘ واضح ترین اور خوب صورت ترین زبان ہے جسے ہمیں ایک ورثے کے طور پر محفوظ رکھنا چاہیے … اپنی زبان کو کبھی نہیں بھلانا چاہیے ۔‘‘ اس وقت ان کی آواز میں غیر معمولی یقین نمایاں تھا ‘ جب انہوں نے کہا :’’جب ایک قوم کسی کی غلام بن جاتی ہے تووہ اپنے پاس غلامی کی زنجیروں کو کھولنے کی ایک چابی ضرور رکھتی ہے … اور وہ چابی اس کی قو می زبان ہوتی ہے جسے اگر وہ محفوظ رکھے تو مستقبل میں آزاد ہو سکتی ہے ۔ ‘‘
تب انہوں نے ہمیں گرامر پڑھانا شروع کی …اور میں حیر ان رہ گیا کہ مجھے ہر چیز اچھی طرح سمجھ آرہی تھی … ہر بات نہایت آسان لگ رہی تھی ۔ اتنی آسان! مجھے یقین نہ آیا … لیکن اس دن جس توجہ سے میں سبق سن رہا تھا … وہ توجہ بھی غیر معمولی تھی …انہوں نے بھی اتنی توجہ… اتنی دل نشیں انداز میں کبھی نہ پڑھایا تھا ۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ ہم تک اپنا سارا علم منتقل کرنا چاہ رہے ہوں … ایک ایک چیز جو انہیں آتی تھی ہمیں سمجھانا چاہ رہے ہوں … یوں لگتا تھا جیسے ان کی خواہش ہو کہ ایک لمحے میں وہ سارا علم ہمارے دماغوں میں منتقل کر دیں ۔
سبق کے بعد لکھائی کا عمل شروع ہوا ۔ اس موقع کی لیے انہوں نے کچھ نئی کاپیاں تیار کی ہوئی تھیں ۔ ان پر نہایت خوبصورت انداز میں فرانس… الساس… فرانس … الساس۔ لکھا ہوا تھا ۔ یہ الفاظ اتنے ہی متاثر کن تھے جتنے کہ ہماری ڈیسکوں کے ساتھ نصب ننھے ننھے قومی پرچم تھے ۔ ہر کوئی متوجہ بیٹھا تھا … جس انہماک سے ہر کوئی سبق سن رہا تھا وہ منظر دیکھنے کے قابل تھا ۔ کاغذ پر پنسلوں کے چلنے کی آواز کے علاوہ کوئی آواز نہیں آرہی تھی ۔ ایک مرتبہ مرغی کے رنگ برنگے چوزے بھی کمرے میں داخل ہوئے لیکن کلاس کے کم عمر ترین طالب علم نے بھی ان کی طرف توجہ نہ کی ۔ کم سن طالب علم حروف بنانے میں اتنے محو تھے کہ انہیں ادھر ادھر دیکھنے کی فرصت بھی نہ تھی ۔ سکول کی چھت پر کبوتر کی ہلکی ہلکی آوازیں نکال رہے تھے ۔ جب میں نے ان کی آواز سنی تو میں نے اپنے آپ سے سوال کیا :’’کیاانہیں بھی جرمن زبان میں چہچہانے پر مجبور کیا جائے گا ۔ ‘‘
پھر میں نے کتاب کے صفحات سے نظر اٹھا کر منصور ہیمل کی طرف دیکھا جو اپنی کرسی میں بے حس وحرکت بیٹھے تھے ۔ ان کی نگاہیں ادھر ادھر بھٹک رہی تھیں ۔ وہ آج …اپنے آخری دن … شاید ہر چیز کو دیکھ لینا چاہتے تھے … گویا ہر چیز کو نگاہوں میں محفوظ کرلینا چاہتے تھے … اپنے ننھے سکول کو ہمیشہ کے لیے یادوں میں محفوظ کرلینا چاہتے تھے ۔ وہ چالیس برس سے اس سکو ل میں پڑھا رہے تھے … چالیس برسوں سے وہ سکول میں اسی عہدہ پر فائز تھے ۔ ان چالیس برسوں میں سکول کی ظاہری شکل میں بہت کم تبدیلی آئی تھی ۔ پرانے ڈیسکوں اور بنچوں کو دوبارہ سے پالش کر لیا جاتا تھا… کھیل کے میدان میں لگے ہوئے اخروٹ کے درخت اب کافی بڑے ہو ے گئے تھے اور Hopvine بیل جسے انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا ‘ اب بہت زیادہ پھیل گئی تھی ۔ کھڑکیوں سے لے کر چھت تک ہر طرف اب بیل ہی بیل تھی ۔ میرے دل میں منصور ہیمل کے لیے ہمدردی اور محبت کے جذبات امڈنے لگے ۔ ان سب چیزوں کوجن سے اس کی رفاقت کے چالیس سالہ پرانی تھی ‘ چھوڑ دینے کا حکم ملنے کے بعد انہیں کتنا غصہ آیا ہو گا … اپنی بہن کو ٹرنکوں میں سامان رکھتے ہوئے انہیں کتنا صدمہ محسوس ہوا ہو گا ۔ انہیں کل صبح اپنے وطن کو ہمیشہ ہمیشہ کیلیئے چھوڑ جانے کاحکم ملا تھا ۔ لیکن اس سب کے باوجود بھی ان کی ہمت نے جواب نہیں دیا … آخری سبق سے چھٹی نہیں ہوئی !
لکھائی کے لیکچر کے بعد تاریخ کی باری آئی اور پھر چھوٹے بچوں کو با‘بی ‘ بائی ‘ بو ‘ بیو کی گردان سکھائی گئی ۔ وہ دیر تک کورس کی شکل میں اپنا سبق دہراتے رہے … آہ یہ کتنا خوش کن منظر تھا ! بوڑھا ہازر بھی عینک لگائے الفاظ کے ہجے سیکھ رہا تھا … وہ بھی اپنے کام میں بے حد منہمک تھا … اس کی آواز جذبات کی شدت سے کانپ رہی تھی … ا ور اس کے منہ سے عجیب سی آوازیں نکل رہی تھیں ۔ ایسی مزاحیہ آوازیں کہ جنہیں ہم سن کر سب بیک وقت ہنسنا بھی چاہتے تھے اور رونا بھی ۔آہ! میں اپنا یہ آخری سبق کبھی نہ بھول سکوں گا !
اچانک قریبی چرچ کے کلاک نے بارہ کاگھنٹہ بجایا اور تب انجیل سنی گئی ۔ اس وقت ایک چھوٹا سا بم ہماری کھڑکی کے نیچے آگرا۔ ہمیںمعلوم ہو گیا کہ جرمن فوجی اپنی مشق کے بعد واپس آرہے ہیں … منصور ہیمل اپنی کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ شدت غم سے ان کا چہرہ بالکل زرد ہو گیا تھا … مگر میں نے اس لمحے سے قبل انہیں اتنا قد آور کبھی نہیں محسوس کیا تھا … واقعی وہ بڑی قد آور شخصیت تھے ۔
انہوں نے جذبات کی آمیزش میں کہنا شروع کیا :’’میرے دوستو…میرے دوستو… میں … میں۔ ‘‘ آواز گویا ان کے حلق میں پھنس سی گئی تھی ۔ وہ اپنا فقرہ مکمل نہ کر سکے ۔ تب انہوں نے اپنی آنکھوں کے آنسو ہم سے چھپاتے ہوئے چاک کا ایک ٹکڑا اٹھایا اور اسے پوری قوت
سے پکڑتے ہوئے اپنی خوبصورت لکھائی میں تختہ سیاہ پر لکھا ۔ ’’فرانس زندہ باد!‘‘
وہ کچھ دیر تختہ سیاہ کے قریب ہی کھڑے رہے ۔ انہوں نے اپنا سر دیوار کے ساتھ ٹکایا ہوا تھا ۔ انہوں نے پھر کوئی جملہ نہیں اداکیا - وہ کچھ نہیں بولے مگر ان کے ہاتھ کے اشارے نے ہمیں بتادیا۔
’’بس کلاس ختم ! اب تم جا سکتے ہو ۔‘‘ یہ میرا آخری سبق تھا جسے میں کبھی نہ بھلا سکوں گا !
(بشکریہ : ماہنامہ آنکھ مچولی لاہور ۔ فروری ۲۰۰۱ء)