مصنف۔ ہرناڈو ٹیلیز (اسپین)
مترجم۔ انیس گوپانگ
وہ اس وقت اندر داخل ہوا جب میں اپنے استرے کو دھار دے رہا تھا۔وہ یہ محسوس ہی نہیں کر سکا کے اسے دیکھنے سے مجھے عجیب کپکپی سی طاری ہوگئی ہے۔اپنی گھبراہٹ چھپانے کے لیے میں استرے کو اور تیز دھار دینے لگا،اور انگوٹھے سے اسکی دھار کا جائزہ لینے لگا اور ایک ماہر نائی کی طرح روشنی کے سامنے استرے کو پکڑ کر اس کا جائزہ لینے لگا۔اس نے گولیوں سے بھرا اپنا قمربند اتارا اور پستول کو بھی خود سے الگ کیا اور یہ سارا اسلحہ دیوار پر لگی کیل پر ٹانگ دیا اور اپنی ٹوپی بھی اتار کر ان کے اوپر رکھ دی۔"کتنی گرمی ہے"وہ مجھ سے مخاطب ہوا ’’میری شیو بناؤ" یہ کہہ کر وہ کرسی پر بیٹھ گیا۔یقیناً چار دنوں سے اس نے اپنی داڑھی کو ہاتھ نہیں لگایا اور یہ چار دن ہمارے ساتھیوں کو تلاش کرنے میں اور انکو گرفتار کرنے میں صرف ہوئے ہیں۔دھوپ کی وجہ سے اسکی رنگت میں کچھ سیاہی سی آگئی تھی۔میں نے گرم پانی میں برش کو ڈبویا ہی تھا کہ جھاگ بننا شروع ہوگئی۔ "لگتا ہے کہ میرے دوسرے ساتھیوں کی بھی داڑھی اتنی ہی بڑھ گئی ہوگی"اس نے کہا۔میں برش کو جھاگ میں گھماتا رہا۔مگر ہم اپنی مہم میں کامیاب ہوئے۔بہت سے باغیوں کو گرفتارکر لیا گیا ہے۔کچھ مردہ حالت میں اور بقیہ زندہ مگر سب کو موت کا مزہ چکھایا جائیگا۔کتنے باغی گرفتار ہوئے ہیں، جناب"؟میں نے دریافت کیا۔ چودہ،ہمیں جنگل میں بہت دور تک جانا پڑا،مگر اس بھروسے کے ساتھ کے کوئی بھی ہمارے ہاتھوں سے نکل نہیں پائے گا، کوئی ایک بھی نہیں"کرسی پر ٹیک لگاتے ہوئے وہ پیچھے کی جانب جھکا اور جھاگ سے بھرا برش دیکھنے لگا۔مجھے اسے چادر اوڑھانی تھی۔میں نے الماری سے چادر نکالی۔اسکی باتیں مجھے بے سکونی کا عالم مہیا کررہی تھیں۔میں اپنے گاہک کو چادر اوڑھا رہا تھا۔وہ مسلسل بولے جارہا تھا۔کیونکہ وہ مجھے اپنا ہم خیال اور اپنی پارٹی کا سمجھ رہا تھا۔"ہمارے اس کارنامے سے لوگوں نے خاصا سبق حاصل کرلیا ھوگا"اس نے کہا۔"جی بلکل، یقیناً ایسا ہی ہے"اسکی پسینے سے شرابور گردن پر گانٹھ دیتے ہوئے میں نے کہا۔ذہنی دباؤ اور تھکاوٹ کو کم کرنے کے لیے اس نے اپنی آنکھیں بند کر دیں اور صابن کی ٹھنڈک کو محسوس کرنے کا انتظار کرنے لگا۔وہ کبھی بھی میرے نزدیک نہیں آیا۔جس دن چار باغیوں کو پھانسی آنی تھی اور یہ لوگوں کو اسکول کے صحن میں جمع کرنے میں لگا ہوا تھا،اس دن ایک پل کے لیے میرے سامنے آیا تھا۔مگر لوگوں کی مسخ شدہ لاشیں مجھے اسکے چہرے پر غور کرنے سے باز کیئے رکھا تھا۔جس کے کہنے پر اتنے مظالم ہوئے ،وہی چہرہ آج میرے ہاتھ میں آنا ہے۔اس چہرے کو بدصورت نہیں کہا جاسکتا اور داڑھی جو اس کی عمر سے اسکو اور بڑا بنا رہی تھی وہ بھی اس کے چہرے پر اچھی لگ رہی تھی۔اسکا نام ٹاریس تھا۔"کیپٹن ٹاریس"۔ تماشائی طبیعت کا مالک تھا۔ورنہ یہ خیال کسے آسکتا ہے کہ باغیوں کو ننگا کر کے انکے مختلف اعضاء کو نشانہ بناکر نشانہ بازی کی مشق کی جائے۔میں نے صابن کی پہلی تہہ لگائی۔بدستور آنکھیں بند اور وہ بولتا رہا۔"مانو کے تھکاوٹ کی وجہ سے نیند آجائےگی،مگر مجھے سونا نہیں ہے بلکہ بہت سے کام اور ہیں جو کرنے ہیں۔"باغیوں کو شوٹ کرنے کے سلسلے میں"میں نے روایتی بیپرواہی کے ساتھ برش کو روکتے ہوئے پوچھا۔"ہاں"میں نے پھر برش چلانا شروع کیا۔میرے ہاتھ کپکپا رہے تھے مگر اسے اس بات کا احساس نہیں ہو رہا تھا اور یہی بات میرے لیے سود مند ثابت ہوتی۔اک پل کے لیے میرے خیال میں آیا کہ کاش وہ میری دکان پر نا آیا ہوتا۔ممکن ہے کہ میرے گروہ کے ساتھیوں نے اسے میرے ہاں آتے ہوئے دیکھا ہو۔گھر آئے کے ساتھ برائی نہیں کی جاتی خواہ وہ آپکا دشمن ہی کیوں نا ہو۔فلحال تو یہ میرا گاہک ہے اور مجھے اسکی شیو کرنی ہے،ویسے ہی جیسے کسی اور رواجی گاہک کی بناتا ہوں،اسی خبرداری اور احتیاط کے ساتھ کہ کہیں زخم نا ہو کوئی خون نا نکلنے پائے اور یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ گاہک کی جلد صاف و شفاف ہوجائے۔گاہک کے گال پر الٹا ہاتھ پھرایا جاتا ہے کہ کہیں کوئی بال رہ تو نہیں گیا۔ایک وقت میں جب میں باغی ہوں اسی وقت میں ایک ایماندار نائی بھی تو ہوں۔مجھے اپنی قابلیت پر ناز ہے میرے لیے تو یہ سنہری موقع ہے کہ اس جیسی بڑی اور کھردری داڑھی پر اپنا ہنر دکھاؤں۔میں نے اب استرا چلانا شروع کیا جو ٹھیک کام کر رہا تھا۔کپتان کی داڑھی سخت تھی۔اور استرا گرررڑڑڑ گرررڑڑڑ کا مخصوص آواز کرتا ہوا ایک طرف کے بال گرا رہا تھا،جسکی وجہ سے کپتان کی چمڑی ظاہر ہونے لگی تھی۔استرے پر بالوں سے بھری جھاگ جمع ہونے لگی تھی۔میں اپنے کام میں خاصی مہارت رکھتا تھا اور ایک ماہر کاریگر کی طرح استرے سے بال ہٹانے کے بعد پھر استرا چلانا شروع کیا۔کپتان نے آنکھیں کھولیں اور گال پر ہاتھ رکھ کے میرے کام کا جائزہ لینے لگا۔"آج چھ بجے اسکول میں آنا"کپتان نے کہا۔پھر بھی ویسا ہی تماشا ہوگا" میں نے اپنے خوف کو چھپاتے ہوئے پوچھا۔شاید اس سے بھی زیادہ مزیدار"کپتان نے کہا۔
کیا منصوبہ بندی ہے"؟ میں نے پوچھاابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا, مگر خود کو بہت اچھے طریقے سے تفریح دینگے"آنکھوں کو بند کرتے ہوئے اس نے پیچھے ٹیک لگائی۔میں ایک بار پھر اس کے قریب ہوا۔"کیا سب کو سزائیں ہونگی"؟میں نے پوچھا۔"سبھی کو" کپتان نے کہااسکے چہرے پر صابن خشک ہو رہا تھا اس لیے مجھے جلدی کرنی پڑی۔میں نے کھڑکی سے باہر جھانکا۔مجھے گلی ہمیشہ کی طرح ویران لگی۔صرف پنساری کی دکان پر مجھے دو عورتیں کسی چیز پر نوک جھوک کرتی نظر آئیں۔میں نے گھڑیال کی جانب دیکھا،اس وقت دو بجکر بیس منٹ ہوئے تھے۔میں نے دوسرے گال پر استرا چلانا شروع کیا۔میں نے خیال کیا کہ کپتان کو پادریوں یا شاعروں کی طرح داڑھی رکھنی چاہیے،وہ اسے اچھی بھی لگے گی اور اسے کوئی پہچان بھی نہیں سکے گا،اور اس طرح اپنے کام میں بھی کپتان کو خاصی مدد ملے گی۔ابھی مجھے گردن کے بالوں پر استرا چلانا تھا۔یہاں پر بڑے احتیاط سے کام لیا جاتا ہے،کیونکہ اس حصے کی جلد کافی نرم ہوتی ہے۔زراسی بی خبری کسی زخم کا باعث بن سکتی ہے اور ایسی غلطی ایک ماہر نائی کے شان کے خلاف ہے،اور تو اور گاہک بھی کوئی عام رواجی نہیں بلکہ صاحب اقتدار ہے۔ہمارے بہت سے لوگ اسکے ہاتھوں شوٹ ہوئے،بہت سوں کو اسکے حکم پر ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا۔مگر بہتر ہے کہ اس کے بارے میں سوچنا نہیں چاہئیے۔ٹاریس سمیت دیگر عملداروں کو یہ بلکل بھی نہیں معلوم کہ میں انکا دشمن ہوں۔بہت ہی کم لوگ یہ راز جانتے ہیں کہ میں بھی باغی ہوں۔میں اس بات کا فائدہ اٹھا سکتا ہوں اور اپنے ساتھیوں کو مطلع بھی کر سکتا ہوں اور ٹاریس اور اس کے ساتھیوں کی منصوبہ بندی جو وہ ہمیں گرفتار کرنے کے لیے بناتے ہیں اس سے بھی اپنے ساتھیوں کو آگاہ کر سکتا ہوں۔مگر اپنے ساتھیوں کو یہ کس طرح سمجھا سکوں گا کہ ہمارا سب سے بڑا دشمن کس طرح میرے ہاتھ آیا اور میں نے اسے صحیح سلامت جانے دیا وہ بھی خوبرو نوجوان بنا کر۔تقریباً داڑھی صاف ہوچکی تھی اور وہ پہلے سے زیادہ خوبصورت نظر آنے لگا تھا۔یہی تو ہمارے ہنر کا کمال ہے۔اوپر سے میں ہوں بھی تو ماہر نائی،شاید پورے شہر میں پہلا نمبر۔میرے استرے نے ٹاریس کو ایک دم سے جوان بنا دیا۔کپتان کی تھوڑی پر ابھی بھی جھاگ تھی۔،"یہاں پر تو شہرگ ہوتی ہے"اسی خیال سے مجھے پسینہ آنے لگا۔اتنی گرمی بھی تو ہے۔مگر ٹاریس کو پسینہ گرمی کی شدت سے تھا نا کہ میری طرح ڈر اور خوف سے۔ٹاریس میں خوف کے نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔میں اتنا خوفزدہ تھا کہ آج شام ہونے والی کارروائی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا اور ٹاریس اتنا مطمئن کے اسے کوئی پرواہ بھی نہیں۔میں انقلابی ہوں قاتل نہیں۔اسے قتل کرنا آسان ہے،اور یہ ہے بھی اسی لائق،مگر ابھی یہ احمقانہ حرکت ہوگی۔قتل کرنا کسی بھی صورت میں اچھا عمل نہیں ہے۔آخرکار قتل کرنے سے کیا فائدہ؟ ؟ کچھ بھی تو نہیں!! میں تو اسے قتل کر دونگا مگر کل اس جیسا کوئی اور آجائیگا شاید اس سے بھی بدتر،پھر کیا رہے گا؟؟انتقام ہی انتقام۔۔اور خون کا دریامیں آنکھ جھپکتے ہی اسکا کام تمام کر سکتا ہوں،اسکا گلہ کاٹ سکتا ہوں،اسکی آنکھیں بھی تو بند ہیں۔استرے کی چمک اور میری آنکھوں میں انقلاب کی چمک میں اسے کچھ بھی تو دکھائی نہیں دیگا۔اسکی گردن سے خون فوارے کی طرح بہہ کر نکلے گا،جو چادر، کرسی اور فرش کو سرخ بناتا ہوا دروازےکے نیچے سے باہر گلی میں جائے گا۔میرا استرا اتنا تیز ہے کے اسے تکلیف بھی نہیں ہوگی اور پرسکون موت کو گلے سے لگا لیگا،مگر یہ کیا میں تو خوف کے مارے کپکپا رہا ہوں جیسے میں نے اسے خون کر ہی دیا ہو۔میں لاش کو کہاں چھپاؤں گا۔مجھے یہ شہر چھوڑ کر کہیں اور پناہ حاصل کرنی ہوگی۔مگر وہاں بھی تو یے میرے پیچھے آئینگے،ضرور آئیںگے اور مجھے ڈھونڈ نکالیں گے۔"کپتان ٹاریس کا قاتل"جس نے کپتان کی داڑھی بناتے ہوئے اس کا گلہ کاٹ دیا تھا۔۔بزدلوں والا عمل مگر میرے ساتھی تو یہی کہیں گے کے"اس نے ہمارا بدلہ لیا ہے،اسکا نام ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا،یہ ایک معمولی شہری نائی ہوتے ہوئے ہم پر احسان کر گیا اور ہمارے حق کے لیے لڑ گیا"۔مگر کس کےلئے؟؟سورما بننے کے لئے یا قاتل!میری تقدیر کا فیصلہ میرے استرے کی دھار پر تھا۔اپنے ہاتھ کو زرا سی جنبش دینی تھی اور گردن پر استرا چل جانا تھا چمڑی کو ریشم کی طرح پھاڑتے ہوئے،انسانی چمڑی سے زیادہ اور کوئی نرم چیز ہو بھی تو نہیں سکتی۔ادھر تو خون بھی ریلے کی طرح بہہ نکلنے کو جمع ہوا پڑا ہے۔اوپر سے یہ میرا بہترین استرا ہے تیز اور دھار دار،ایسا ہتھیار ناکام ہو ہی نہیں سکتا۔مگر میں خونی نہیں بننا چاہتا۔نہیں جناب،بلکل بھی نہیں! آپ میرے پاس شیو کرانے آئے ہیں تو میں بھی اپنا کام پوری محنت اور لگن سے کروں گا۔میں اپنے ہاتھ خون سے نہیں رنگنا چاہتا،میرے ہاتھوں پر تو جھاگ ہی اچھی لگتی ہے۔اگرچہ تم جلاد ہو تو پھر بھی نہیں!!میں تو نائی ہوں اور دنیا میں سبھی کو اپنے اپنے حصے کا کام دیا گیا ہے۔کپتان کی داڑھی صاف ہوچکی تھی۔ وہ سیدھا ہوکر بیٹھ گیا اور آئینے میں اپنا جائزہ لینے لگا۔اپنی ہتھیلی سے گالوں کو چھو کر دیکھا اور اپنی جلد کو نرم اور ملائم محسوس کیا۔شکریہ" اس نے کہا۔وہ دیوار کی طرف بڑھا اور اپنا قمربند اٹھایا۔خوف کے مارے میرا جیسے تو خون ہی سوکھ گیا ہو،مجھے اپنے کپڑے اور جسم پسینہ پسینہ محسوس ہوئے۔کپتان نے قمربند سیدھا کیا اس میں پستول کو ٹھیک طریقے سے رکھا۔ہاتھوں سے بالوں کو سنوارا اور ٹوپی پہنی۔پتلون کی جیب سے کچھ سکے نکالے اور مجھے معاوضہ کے طور پر دیے۔پھر جانے کے لیے دروازے کی
طرف بڑھا،دو قدم چل کر رک گیا،میری طرف دیکھ کر بولا کہ"مجھے بتایا گیا تھا کہ تم مجھے قتل کر دوگے،میں یہی سب آزمانے آیا تھا، مگر تم سمجھ گئے ہوگے کہ قتل کرنا اتنا آسان نہیں۔۔۔اور وہ باہر چل دیا۔