کہانی
پنچو چاچا
عطا تبسم
آلکس کے مارے میں منہ اوندھائے پڑا تھا۔ باری بند تھی‘ چھینکہ دور تھا پر نعمت خانہ چولہے کے ساتھ تھا۔ پھونکی چمٹا پرات چکی سینی پیالے رکابی اوکھل موصل ہاون دستہ کٹوری ہانڈی بادیہ اور لکڑیاں پھیلی ہوئی تھی۔ پہلے فقیر نے دروازے پر کھڑے ہوکر محمد ہمارے کا پکارا دیا۔ پھر دودھ والا آیا۔ ڈول میں دودھ بھرا تھا۔ آدھ پا دودھ بس یہی روز لیتے ہیں۔ آپا بہت دیر سے چائے کی پتی اور شکر لانے کو کہہ رہی ہے۔ ابھی ابراہیم کی دکان نہیں کھلی ہوگی۔ شاید مکھی کی دکان کھل گئی ہو۔ پورے محلے میں دو ہی دکانیں ہیں۔ آنہ لائبریری سے لائے بچوں کی دنیا اور تعلیم تربیت سرہانے پڑے تھے۔ پناکو کے کارنامے کا صفحہ کھولا ہی تھا کہ آپا نے پھر آواز لگائی موا کب اٹھے گا۔ مونڈی کٹا‘ کب سے بھونک رہی ہوں‘ چائے کی پتی لادے۔ پڑوس کے ریڈیو سے قوالی کی آواز آرہی تھی۔ نا چار اٹھا۔ آٹھ آنے میں کیا کیا لانا ہے۔ دو آنے کی چائے کی پتی، چار آنے کی شکر اور ایک آنا مٹی کا تیل، مٹی کا تیل نہیں ہوگا تو گیلی لکڑیاں کیسے جلیں گی۔تھاوری سڑک پر جھاڑو دے رہی تھی۔ بو ٹا قد، سیاہ رنگت، چولی اور گھاگرا، ناک میں چمکتی لونگ، کچرے کی ڈوکری اور جھاڑو، جانے کیا گنگنا رہی تھی۔ نلکے پر لائن سے برتن لگے ہوئے، پانی ایک گھنٹے بعد آئے گا لیکن بگھونے، بالٹی، گھاگر، ڈول، کنستر بھانت بھانت کے برتن پانی کے انتظار میں پڑے کھڑے تھے۔ آگے مسجد کی دیوار اور مزار کے کونے میں مٹی کے دیئے پڑے تھے تیل سے بھرے روئی کی بتی جل کر آدھی رہ گئی تھی۔ پنچو چاچا اپنی کھاٹ پر بیٹھا بیڑی کے کش لے رہا تھا۔ چار پائی کے نیچے چار پانچ پلے چیاؤں چیاؤں کر رہے تھے۔ دو تین کتے بھی لوٹ رہے تھے۔ بھوری نے کل رات کو بچے جنے تھے لیکن بھورا کوئی بھی نہ تھا۔ تین کالے اور دو سفید۔ چاچا نے مٹی کی کوند میں دودھ بھر دیا تھا۔ پلے اس میں منہ ڈالتے اور چیں چیں کرتے۔ بھوری پلوں سے لاتعلق اپنی تھکن اتار رہی تھی۔
شام کو محلے کے بچے پنچو چاچا کی کھاٹ کے گرد گھیرا ڈال بیٹھے۔ چاچا سفید پتلون اور سفید بوشرٹ اور سفید جوتے ڈاٹے راجہ اندر بنے بیٹھے تھے۔ مزار پر قوالی کا پروگرام بن رہا تھا۔ بچوں سے ان کی دوستی اور کتوں سے اوڑھنا بچھونا تھا۔ وہ ان کے لیے چھچھڑے لے آتے۔ تھیلے دیکھتے ہی محلے کے سارے کتے ان کے گرد بچھ بچھ جاتے۔
چاچا کون تھے۔ کسی کو نہیں پتہ تھا۔ گھر بار تھا نہ عزیز رشتہ دار۔ مزار کے سامنے ان کی کھاٹ تھی اور کتوں کی ٹولی۔ یہی ان کا گھر بار تھا اور یہی عزیز رشتہ دار۔ کھانا محلے کے کسی نہ کسی گھر سے آجاتا۔ کپڑوں کے دو جوڑے ہوتے ایک پہنتے دوسرا محلے کے دھوبی دھو دیتے۔ بڑی اماں کہتی تھی، بٹوارے سے پہلے پنچو چاچا کا گھر بار تھا۔ جب دھاڑ آئی تو اس کے بیوی بچے بلوائیوں نے قتل کر دیئے۔ پنچو چاچا زخمی ہوکر ادھ مرے پڑے تھے۔ بلوائی ان کو بھی قتل کررہے تھے کہ آوارہ کتوں کا ایک غول وہاں آنکلا اور بلوائیوں کے پیچھے پڑ گیا۔ جس پر بلوائی انھیں نیم مردہ حالت میں پڑا چھوڑ گئے۔اگلے دن رضا کار پہنچے تو کتے ان کے گرد گھیرا ڈالے آسمان کی طرف منہ اٹھا اٹھا کر رو رہے تھے۔ چاچا کے بدن میں حرکت دیکھ کر وہ چاچا کو کیمپ میں لے آئے۔ چاچا کے بدن کے گھاؤ بھر گئے۔ لیکن روح کے گھاؤ گہرے ہوگئے۔ چاچا کو چاند تارے اور سبز رنگ سے بھی بہت محبت تھی۔ چودہ اگست کو وہ اپنی عید مناتے تھے۔ بچوں میں نکتی دانے تقسیم کرتے اور کتوں کی دعوت کرتے۔
بڑی اماں ادھوری کہانی ہی سناتی تھی۔ ان کی کہانی اچانک شروع ہوتی اور پتنگ کٹنے جیسے درمیان میں کٹ جاتی۔ ہم انتظار میں رہتے کہ اب وہ پھر سے شروع کریں گی۔ لیکن وہ تو دوسرے کاموں میں مگن ہوجاتی۔
اس رات بچوں کی چوپال میں قوالی اور میلاد کی محفل طے ہوگئی۔ پنچو چاچا نے سب کی ڈیوٹی لگادی تھی۔ میرے حصے میں سویرے ان کے ساتھ بازار جانے کی باری تھی۔ چھٹی کی وجہ سے اسکول کی فکر سے آزاد آج آپا کی آواز کے بنا ہی میں اٹھ گیا۔ منہ پر پانی کے چھینٹے مارے اور گلی میں نکل آیا۔ مزار کے پاس چاچا پنچوں کی کھاٹ کے آس پاس محلے والے کھڑے تھے۔ میں بھی جلدی سے جا کھڑا ہوا۔ پنچو چاچا کی آنکھیں اور منہ کھلا ہوا تھا۔ کتے منہ اٹھائے رو رہے تھے۔ بھوری پانتی بیٹھی خاموش تھی۔ آنکھوں سے پانی برس رہا تھا۔ کالے سفید پلے ماں کے ساتھ لگے چاؤں چاؤں کر رہے تھے۔ محلے والے کہہ رہے تھے۔ جانے کب دم نکل گیا۔ رات تک تو کھانسنے کی آواز آرہی تھی۔
یگم کلثوم نواز الوداع
بیگم کلثوم نواز نے طویل اور تکلیف دہ بیماری کا بہادری سے مقابلہ کیا کہ وہ ایک بہادر خاتون تھیں۔ میرے مشاہدے کے مطابق بیگم کلثوم نواز، صابر، مدبر، بامروت، خوش اخلاق اور ذہین خاتون تھیں۔ وہ مزاجاً نیک، عبادت گزار اور گھریلو مزاج رکھتی تھیں۔ دوبار وزیر اعلیٰ پنجاب اور تین بار وزیر اعظم منتخب ہونے والے خاوند کی بیوی ہونے کے باوجود انہوں نے نہ کبھی انتظامیہ میں دخل دیا، نہ اس حوالے سے کبھی سفارشیں یا حکم نامے جاری کئے اور نہ ہی کبھی تکبر کو قریب پھٹکنے دیا۔ طویل سرکاری ملازمت کے دوران میں نے اکثر دیکھا ہے کہ وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کی بیگم بھی نصف وزیر اعظم یا نصف وزیر اعلیٰ بن جاتی ہے اور حکمرانی کے مزے اڑانا شروع کردیتی ہے۔ اسی طرح اگر بیوی وزیر اعظم منتخب ہو تودولہا میاں نصف وزیر اعظم بن جاتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ بیگم کلثوم نواز اپنے آپ کو حکمرانی سے اتنا الگ تھلگ رکھتی تھیں کہ بیوروکریسی کو ان کی موجودگی کا احساس تک نہ ہوتا تھا۔ جھکی جھکی نگاہیں، چہرے پہ قدرتی مسکراہٹ ہر قسم کی رعونت سے پاک بیگم کلثوم نواز مشرقی حیا کی عملی تصویر تھیں۔ انہوں نے اپنے بچوں کی تربیت بھی مذہبی خطوط پر کی، چنانچہ میرے تجربے کے مطابق میاں صاحب کی اولاد نے بھی کبھی سرکاری امور میں دخل نہیں دیا نہ سفارش خان بنے۔ میاں نواز شریف کی وزارت اعلیٰ اور دوبار وزارت عظمیٰ کے دوران مجھے پنجاب اور مرکز میں دو تین محکموں یا وزارتوں کی سربراہی کا موقع ملا۔ان کے تیسری بار وزیر اعظم بننے سے قبل میں ریٹائر ہوچکا تھا، چنانچہ حکومت سے کوسوں دور تھا۔ میاں صاحب کے دس گیارہ سالہ دور حکومت میں مجھے صرف ایک بار ان کے اندرون خانہ سے سفارش موصول ہوئی اور وہ بھی اس انداز سے کہ مجھے سفارش پہ رحم آیا۔ میں وفاقی سیکرٹری وزارت تعلیم تھا تو ایک دن میری ایک ماموں زاد بہن نے دفتر آنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ وہ خود ایم این اے تھیں اور بیگم صاحبہ کی دوست بھی تھیں۔ وہ آئیں تو راز کھلا کہ بیگم کلثوم نواز نے اپنی کسی دیرینہ پروفیسر دوست کی ٹرانسفر کے لئے انہیں میرے پاس بھیجا تھا کہ تم اپنے بھائی سے یہ کام کہہ کر میاں بیوی کو ایک مقام پر اکٹھا کروادو۔ اس جائز کام کے لہجے میں بھی Requestکا رنگ غالب تھا ورنہ بیگمات تو حکم جاری کرتی ہیں اور ملٹری سیکرٹری یا پرنسپل سیکرٹری کے ذریعے تھرتھرلی مچا دیتی ہیں۔ بیگم کلثوم نواز لاکھوں لوگوں کی دعاؤں کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوگئی ہیں اور سچ یہ ہے کہ یہ دعائیں ہی آخرت کا سچا توشہ ہیں۔ میری دعا ہے اللہ پاک انہیں جنت الفردوس میں جگہ دیں اور میاں صاحب اور ان کے خاندان کو صبر جمیل عطا فرمائیں کہ میاں صاحب زندگی کے قیمتی ترین اثاثے سے محروم ہوگئے ہیں۔( ڈاکٹر صفدر محمود)