مکرمی بخاری صاحب
السلام علیکم و رحمۃ اللہ ۔۔۔۔ مزاجِ گرامی
سوئے حرم کی دینی ’ علمی و ادبی افادیت اور انفرادیت قابل تحسین ہے ۔ ‘ نورالقرآن’ کے ذریعے سے قرآن فہمی میں سہولت’ وسعت اور اتحاد بین المتفرقین کی سعی کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن اقتباس و انتخاب میں کوئی نہ کوئی معیار پیش نظر رکھنا لازم ہو گا۔ اس سلسلے میں دو تین گزارشات:
۱۔ ترجمہ و تفسیر کی فہرست میں شیعہ مسلک کو شامل نہیں کیا گیا۔ کیا آپ اہل تشیع کو ‘‘مسلمین’’ میں شامل نہیں سمجھتے ؟
۲۔ شمارہ ۳ نومبر ۰۴صفحہ ۱۱ ملخص نکات پر جمہور علما و مفسرین کس حد تک متفق ہیں بالخصوص نکتہ ۱۵’ ۱۶’ اور ۱۷؟
۳۔ استعانت باللہ کی تفسیر کے لیے صرف (بلکہ ترجیحاً) ‘‘خزائن العرفان’’ ہی سے مدد لینے میں کیا مصلحت ہے ؟
اور کیا آپ ان جیسے خیالات (بلکہ عقائد ۔ راقم) کے معتقد یا کم از کم موید نہیں؟
۴۔ وہابیہ کے متعلق جو فتوی صادر فرمایا گیا ہے محض فتوی ہی نہیں بلکہ پوری تفسیر ہے ۔ اور یہ لفظ تنابزوابالقاب کے زمرے میں آتا ہے اور فرقہ بند ی کے شجرِ خبیثہ کی ایک جڑ ہے۔
اتحاد مطلوب ہے تو فرقہ پرستانہ تحریروں سے احتراز فرمائیے۔
والسلام ۔ نیاز کیش۔ محمد اسحق جلا لپوری ۔ راولپنڈی
محترم بھائی اسحق صاحب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔
‘‘نورا لقرآن’’ پرآپ کا تبصر ہ پڑھ کر خوشی ہوئی۔ اللہ کریم آپ کو خوش رکھے اور دنیا و آخرت میں آپ سے بھلائی اورعافیت کا معاملہ فرمائے ۔
نورالقرآن بالکل ابتدائی نوعیت کی کاوش ہے ۔ آپ جیسے صاحبانِ علم کی تجاویز’ مشورے اور راہنمائی ہمارے شامل حال رہی تو یقینا وقت کے ساتھ ساتھ اس میں مزید بہتری آئے گی۔ آپ کے مکتوب کی تلخیص کر دی ہے ۔ امید ہے اس میں آپ کے سب نکات آ گئے ہو ں گے ۔ اگر کوئی رہ گیا ہو تو آپ کی طرف سے مزید استفسار بھی ہمارے لیے خوشی کا باعث ہو گا۔
جیسا کہ نورالقرآن کے آغازمیں یہ وضاحت موجود ہے کہ اس کا مقصد کسی خاص مکتبہ فکر کی ترویج نہیں بلکہ علمی انداز میں امت کی تعلیم ہے ۔ ہمارا مطمح نظریہ ہے کہ امت کے تمام علمی دھاروں اور روایات کو قاری تک منتقل کر دیا جائے۔تا کہ ہر ہر مسلمان کو غو رو خوض کی عاد ت پڑے اور وہ اپنی فہم و بصیرت کو کا م میں لا کر صحیح اورغلط یا بہتر اور غیر بہتر کا انتخاب کر ے۔تمام روایات اور آرا کو درج کرنے کا ہر گز یہ مقصد نہیں کہ ہم ان سب کو صحیح سمجھتے ہیں بلکہ ان کامقصد غو رو فکر کی دعوت ہے ۔ البتہ آرا کو درج کرتے وقت پوری دیانتداری کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔
اب آپ کے استفسارات:
۱۔ اقتباس و انتخاب میں یہ معیا رپیش نظر رکھا گیا ہے کہ غیر ضروری طوالت سے بچتے ہوئے ہر ہر مسلک اور مکتبہ فکر کی تمام اہم باتیں مناسب تفصیل کے ساتھ سامنے آ جائیں۔مرتب کی پسندو ناپسند سے زیاد ہ اس امر کا اہتمام مقصود ہے کہ مکتبہ فکر کی صحیح نمائند گی ہو جائے۔
۲۔ اہل تشیع کو ہم مسلمان سمجھتے ہیں۔ البتہ ان کے ساتھ اہل سنت کے بعض اصولی اختلاف موجو د ہیں۔ اس لیے فی الوقت صرف نظر کیا گیا تھا۔ بعض اور دوستوں کی آرا بھی آپ سے موافق ہیں اس لیے اب شیعہ مکتبہ فکر کی تفسیر کی شمولیت بھی زیر غور ہے۔
۳۔ شمارہ ۳ صفحہ ۱۱ پر ملخص نکات پر جمہور علما و مفسرین کس حد تک متفق ہیں ۔ یہ فیصلہ کرنا قاری کا کام ہے ۔یہی تو ہم چاہتے ہیں کہ قاری کے اند ر حق کو جاننے کی جستجو اور تجسس پیدا ہو او روہ اہل علم سے رجوع کرنے اور مزید مطالعہ کرنے پر آمادہ ہو۔ہم اگر اسے یہ بتائیں گے کہ جمہور علما کس طرف ہیں یا کون کتنے فیصد صحیح یا غلط ہے تو ہم پھر کسی خاص طرف کھڑ ے شمار ہوں گے ۔ اور ‘‘کسی خاص طرف’’ کھڑے ہونے والوں کی بہرحال کمی نہیں۔ اور یہ امر تعلیمی انداز کے لحاظ سے مناسب نہیں۔ہم نے اپنے لیے چونکہ علمی اور تعلیمی انداز طے کر لیا ہے اس لیے اس کی پاسداری ضروری ہے۔
۴۔ استعانت با للہ کے ضمن میں خزائن العرفان یا ضیا القرآن کا زیاد ہ حصہ ترجیحا ًنہیں بلکہ ضرورتاً شامل کیاگیا ہے کیونکہ اس پوری بات کے بغیر اس فکر کی نمائند گی کا حق ادا نہ ہوتا۔البتہ اگر آپ احسن البیان کے حصے پر نظر فرمائیں تو ان شاء اللہ آپ کو توازن کا احساس ہو گا۔ توازن ہی ہمارے پیش نظر ہوتا ہے ۔غلطی کا امکان بہر حال موجود رہتاہے ۔ ایسا محسوس ہو تو توجہ دلاتے رہیے گا۔ یہ آپ کاہم پر احسان ہو گا۔
فرقہ پرستانہ تحریروں سے اجتناب ضروری ہے لیکن وہاں جہاں مقصود محض دعوت ہو اور تعلیم پیش نظر نہ ہو۔کسی بھی تعلیمی نصاب میں طالب علم پر بات کے سب رخ واضح کرنا ہمارے خیال میں علمی ترقی کے لیے مفید ہوتا ہے سمجھ بوجھ سے کام لینا بہر حال طالب علم کی ذمہ داری ہے۔اور پھر یہ بھی لازم نہیں کہ ایک بات کو اگر ایک طالب علم فرقہ پرستانہ سمجھتا ہے تو دوسرا بھی ویساہی سمجھتا ہو۔
جزاکم اللہ ۔ آپ کا بھائی ۔ محمد صدیق بخاری